جدوجہدِ آزادی کشمیر اور پاکستانی حکمران

218

نائب امیر جماعتِ اسلامی پاکستان
سیکرٹری جنرل ملی یکجہتی کونسل پاکستان
مسئلہ کشمیر اقوامِ متحدہ کا ایک نامکمل ایجنڈا ہے۔ اس وقت عالمی سطح پر قیامِ امن کو جن مسائل سے شدید خطرات لاحق ہیں ان میں سے بلاشبہ مسئلہ کشمیر سرفہرست ہے۔ تین ایٹمی قوتوں (پاکستان، بھارت اور چین) کے بیچ واقع خطہ جنت نظیر– وادی کشمیر – پر اْس وقت تک جنگ کے بادل منڈلاتے رہیں گے جب تک اس دیرینہ مسئلہ کو وہاں کی عوام کے خواہشات کے مطابق حل نہ کیا جائے۔ پاکستان و بھارت کے درمیان بنیادی مسئلہ ہی کشمیر ہے۔ خدانخواستہ یہ دونوں ایٹمی قوتیں کسی وقت جنگ میں اْلجھ کر ایک دوسرے کے خلاف ایٹمی اسلحہ استعمال کربیٹھے تو اس جنت نظیر وادی سمیت پورا خطہ ایک ایسی ہولناک تباہی و بربادی کی لپیٹ میں آجائے گا جس کی نظیر نہ تو ہیروشیما و ناگاساکی پر امریکی ایٹمی حملے کی صورت میں ملے گی اور نہ ہی کسی اور سانحے کی شکل میں۔
بدقسمتی سے تقسیمِ ہند کے وقت ریڈکلف ایوارڈ کے دوران ہندو اور انگریز سامراج کی باہمی ساز باز کے نتیجے میں خطہ کشمیر کے پاکستان سے طے شدہ معاہدے کے تحت الحاق کی بجائے وادی میں ہندو فوج کی کثیر تعداد بھیج دی گئی تاکہ وہاں پر موجود آزادی کی روح کو پروان چڑھنے سے روکا جائے۔ اس غیر متوقع اور غیر انسانی فوج کشی کے نتیجے میں پاکستان اور بھارت کے درمیان 22 اکتوبر 1947ء کو پہلی جنگ چھڑگئی جوکہ 05 جنوری 1949 تک جاری رہی۔ ایک سال 2 ماہ اور 2 ہفتہ تک جاری رہنے والی اس جنگ میں دونوں اطراف سے بھاری جانی و مالی نقصان اور بھارتی فوج کے سر پر شکست کے منڈلاتے بادل کو دیکھتے ہوئے بھارتی قیادت نے ایک سازش کے تحت اقوامِ متحدہ کا دروازہ کھٹکھٹایا اور بالآخر اقوامِ متحدہ کے زیر نگرانی جنگ بندی کا اعلان کرتے ہوئے لائن آف کنٹرول کی خونی لکیر کھینچ دی گئی۔ پاکستان کے حصے میں موجودہ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان جبکہ بھارت کے پاس وادی کشمیر، جموں اور لداخ کے علاقے چلے گئے۔اقوامِ متحدہ نے بھارتی واویلا پر 1948 میں عارضی جنگ بندی اس وعدے پر کرائی کہ کشمیری عوام کو استصوابِ رائے کا حق دیا جائے گا اور اقوامِ متحدہ کی نگرانی میں رائے شماری کرائی جائے گی، تاکہ کشمیری عوام خود یہ فیصلہ کرلیں کہ وہ پاکستان کیساتھ رہنا چاہتے ہیں یا بھارت کیساتھ۔ مگر افسوس کہ اقوامِ متحدہ سات دہائیاں گزرنے کے باوجود بھی اپنے اس وعدے پر عملدرآمد نہ کراسکا۔
پاکستانی قوم 1990ء سے ہر سال متواتر یومِ یکجہتی کشمیر پاکستان سمیت دنیا بھر میں مناتی چلی آرہی ہے، تاہم 05 اگست 2019 کو نریندر مودی کی فاشسٹ حکومت نے بھارتی آئین سے کشمیریوں کو جداگانہ حیثیت دینے والے آرٹیکل 370 کو نکال کر ریاستِ جموں و کشمیر کو 3 حصوں میں تقسیم کرکے انہیں بھارتی یونین کے زیرِ انتظام ایک علاقہ قرار دے دیا۔ اس طرح مودی سرکار نے تنازعہ کشمیر کے اصل فریق پاکستان اور بین الاقوامی ثالث اقوام متحدہ کی رضامندی کے بغیر بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ متنازعہ علاقہ (جموں و کشمیر اور لداخ) کی قانونی حیثیت کو تبدیل کرکے اپنے “اٹوٹ انگ” کی تکرار کو عملی شکل دینے کی کوشش کی۔
بھارتی آئین سے آرٹیکل 370 کے اخراج پر دنیا بھر میں موجود کشمیری و پاکستانی عوام نے شدید غم و غصے کا اظہار کیا۔ نہ صرف کنٹرول لائن کے آر پار شدید احتجاج ہوا، بلکہ دنیا بھر میں مودی سرکار کے اس آمرانہ اور غیرانسانی، غیرقانونی اقدام کے خلاف صدائے احتجاج بلند کیا گیا۔
لیکن پاکستانی حکومت اور وزیرِاعظم عمران خان کا طرزِ عمل بچگانہ اور کشمیری عوام اور پاکستانی قوم کی اْمنگوں کے بالکل برعکس تھا۔
موجودہ حکومت کے پاس اب بھی موقع ہے کہ وہ مسئلہ کشمیر جیسے دیرینہ علاقائی اور پاکستان و بھارت کے مابین بنیادی مسئلے کو کشمیری عوام اور پاکستانی قوم کے دیرینہ موقف کے مطابق حل کرکے تاریخ میں اپنا نام سنہری حروف سے لکھوائے ورنہ یہ سعادت تو آئندہ آنے والے کسی نہ کسی حکمران کے حصے میں آہی جائے گی، ان شاء اللہ، لیکن موجودہ حکمران بہرحال اس بہت بڑی اور تاریخی کامیابی سے محروم رہیں گے۔
کشمیر کی موجودہ صورتِ حال پر پاکستان کو عالمی اور علاقائی سطح پرمندرجہ ذیل سفارتی، سیاسی کوششیں فوری طور پر کرنے کی ضرورت ہے:
l وادی میں پچھلے سات دہائیوں سے جاری کشیدگی کو کم کرنے اور کشمیری عوام پر جاری بھارتی ظلم و بربریت کو روکنے کے لیے دنیا بھر میں قائم پاکستانی
سفارت خانوں کے ذریعے مؤثر سفارت کاری کی جائے۔
l مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے اقوامِ متحدہ نے کم و بیش 30 قراردادیں پاس کیں جن میں مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے کشمیری عوام کے استصوابِ رائے کے حق کو
تسلیم کیا گیا۔ اب اقوامِ متحدہ اپنے وعدوں پر عمل کرے اور کشمیری عوام کو رائے شماری کا حق دیا جائے۔
l کشمیر کو غیر فوجی علاقہ قرار دے کر وہاں پر اقوامِ متحدہ کی نگرانی میں استصوابِ رائے کے لیے اقدامات۔
l عالمی برادری کو اس بات پر قائل کیا جائے کہ وہ کشمیری عوام پر عرصہ دراز سے جاری بھارتی فورسز کے مظالم روکنے کے لیے مؤثر اور نتیجہ خیز دباؤ ڈالے۔
l دونوں ممالک (پاکستان و بھارت) دوطرفہ مذاکرات کے ذریعے مسئلہ کشمیر کا ایسا حل تلاش کریں جو کشمیری عوام کو قابل قبول ہو۔
l دونوں فریق (پاکستان و بھارت) کسی متفقہ ثالث کے ذریعے اس مسئلے کو حل کرائیں۔
l عالمی عدالتِ انصاف مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے سو موٹو ایکشن لے۔
l کشمیری اور بھارتی جیلوں میں قید ہزاروں بے گناہ کشمیریوں اور سیاسی قیادت کی بلاتاخیر اور غیرمشروط رہائی۔
l بھارتی آئین میں آرٹیکل 370 کی سابقہ حالت میں فی الفور بحالی۔l کشمیری عوام کو کنٹرول لائن کے آر پار نقل و حرکت کا حق دلانے کے لیے سیاسی اور سفارتی کوششیں۔ نیز کشمیر میں انسانی حقوق کے حوالے سے بین
الاقوامی مندوب کا تقرر۔
l امریکہ یا عالمی برادری کی طرف سے ثالثی کی کسی بھی کوشش میں اس بات کو یقینی بنانا کہ کشمیری عوام کے سیاسی مستقبل کے فیصلے میں خود کشمیری عوام کی رائے
کو بنیادی اہمیت حاصل ہوگی، اور کشمیر کے مستقبل سے متعلق کیا گیا کوئی بھی یکطرفہ فیصلہ کشمیری عوام اور پاکستانی قوم کے لیے قابل قبول نہیں ہوگا۔
l مسئلہ کشمیر کے حل کی طرف بڑھنے سے پہلے دونوں ممالک (پاکستان و بھارت) عسکری کشیدگی کا خاتمہ اور جنگ سے گریز کا کوئی تحریری فارمولہ بھی
سامنے لائے۔ بھارت آمادہ ہو تو دونوں ممالک مذاکرات کے ذریعے سے ہی یہ مسئلہ حل کرسکتے ہیں۔ مسئلہ کشمیر کے حل نہ ہونے کی ایک بنیادی وجہ
دونوں ممالک کے قیادت کی طرف سے مسئلے کے پائیدار حل کی طرف بامقصد اور نتیجہ خیز مذاکرات سے گریز اور باہمی اعتماد کا فقدان ہے۔
l اگرچہ جنرل پرویز مشرف اور بھارتی قیادت کے درمیان مذاکرات کشمیری عوام اور پاکستانی قوم کے دیرینہ مؤقف کی سراسر خلاف ورزی پر مبنی ایک
فارمولہ کی بنیاد پر کیے گئے تھے، تاہم ان مذاکرات میں بعض اْمور اور اقدامات، جن پر اتفاق ہوگیا تھا، حوصلہ افزا تھے۔ ان میں کنٹرول لائن کے دونوں
طرف موجود افواج کی تعداد میں کمی، کشمیریوں کی کنٹرول لائن کے آر پار آزادانہ نقل وحرکت اور کشمیریوں کا اپنے خطے پر حق حکمرانی شامل تھا۔
l پاکستان اور بھارت کے درمیان کسی بھی سطح کے مذاکرات کے آغاز سے قبل کشمیری اور پاکستانی سیاسی قیادت کو اعتماد میں لیا جانا ازحد ضروری ہے۔
کشمیری اور پاکستانی سیاسی قیادت اور عوام کی مرضی کے بغیر مسلط کردہ کوئی بھی فیصلہ خطے کو ایک نئی جنگ اورتنازعہ کی طرف دھکیلنے کا باعث ہوگا۔
l تنازعہ کشمیر کے حل کے لیے اب تک کی گئی کوششوں میںجس بنیادی حقیقت کو ہمیشہ نظر انداز کیا گیا، وہ یہی ہے کہ تنازعہ کے بنیادی فریق یعنی کشمیری عوام
اور پاکستانی سیاسی قیادت کو اعتماد میں لیے بغیر اور انہیں مذاکرات کا حصہ بنائے بغیر مذاکرات کیے گئے جوکہ نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوسکے۔