یوں تو جماعت اسلامی کئی سال سے کراچی کے حقوق کے لیے جدوجہد کے میدان میں موجود ہے مگر 31 دسمبر جمعہ کے روز عصر کے بعد جدوجہد ایک فیصلہ کن موڑ پر آ کھڑی ہوئی جب امیر جماعت اسلامی حلقہ کراچی حافظ نعیم الرحمن نے جماعت اسلامی کے کارکنان کو سندھ اسمبلی کے دروازے کے بالکل سامنے دھرنے کے لیے پکارا کارکنان بھی اپنے اس قائد کی پکار پر لبیک کہتے ہوئے حاضر ہوئے کوئی نہیں جانتا تھا کہ اس میدان میں کیا ہونے جارہا ہے کتنے دن تک یہ دھرنا چلے گا کب پیپلز پارٹی اپنے پاس کیے ہوئے بلدیاتی ترمیمی بل کو واپس لے گی پیپلز پارٹی جو سندھ پر گزشتہ پندرہ سال سے مسلسل حکمرانی کررہی ہے اور آج بھی سندھ اسمبلی میں اپنی عددی برتری رکھتی ہے اور جماعت اسلامی جو اپنے واحد رکن اسمبلی کے ساتھ اسمبلی میں موجود ہے۔ بس اللہ کے بھروسے پر اس دھرنے کا آغاز ہوچکا تھا جو بھی تقریر حافظ صاحب کرتے یا میڈیا کو بریفنگ دیتے وہ ٹھوس اور بھر پوردلائل سے کرتے نیت صاف اور منزل آسان والی بات کے مصداق ان کی بات ملک کے طول وعر ض میں گونجنی شروع ہوگئی کراچی کے ہر شہری کو اس کالے قانون یعنی بلدیاتی ترمیمی بل کی مکمل تشریح کرکے امیر جماعت نے عوام کو سمجھادیا اس طرح یہ دھرنا کراچی کے نمائندے دھرنے میں تبدیل ہوگیا۔
تمام شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے انسانوں کو پہلے بھی کراچی کی بدحالی نے بے چین کررکھا تھا ایسے میں جماعت اسلامی کے اس دھرنے کو لوگوں نے اپنا دھرنا سمجھا اور جوق درجوق وفود کی شکل میں لوگ اظہار یکجہتی کرنے دھرنے میں آنے لگے بلکہ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ تمام سندھ اور پورے پاکستان سے بھی وفود آنے لگے اور اس دھرنے سے اظہار یکجہتی کرنے لگے۔ یہ دھرنا اپنی طرز کا انوکھا دھرنا تھا جس میں لوگوں کی تربیت کا سامان تھا اس دھرنے میں نمازوں کا اہتمام بھی ہورہا تھا، ذکرو ازکار بھی تھا، درس و تدریس کا انتظام بھی تھا نعت خوانی کے مقابلے بھی جاری تھے کبھی خوبصورت ترانوں سے ماحول کو گرمایا بھی جارہا تھا کوئی عنوان دے کر مباحثے بھی کرائے جارہے تھے۔ کبھی کراٹے کبھی تائی کوانڈو کے دلچسپ مظاہرے بھی ہوتے تھے اور بچوں کے لیے بھی پلے لینڈ بنایا گیا تھا۔ سچ تو یہ ہے کہ یہ دھرنا پاکستان کی میں خود ایک تاریخ رقم کرگیا۔ اس لیے کہ دیگر جماعتوں کے دھرنے بھی قوم نے دیکھے جن میں لوگوں کو ناچ گانوں میں اچھل کود میں مصروف رکھ کر دھرنا چلایا جاتا رہا ہوتا ہے یا پھر لوگوں کو رقم دے کر دھرنے میں شریک کرایا گیا مگر یہاں تو حافظ صاحب نے دھرنے میں بیٹھنے کو ظلم کے خلاف اور مظلوموں کے حقوق کے لیے جہاد قرار دیا جب دھرنے میں ہونے والے اخراجات کے لیے مالی ایثار کا مطالبہ کیا تو بھی منظر قابل دید تھا مردوں، خواتین اور بچّوں نے بڑھ چڑھ کر مالی ایثار کیا اور حقیقت بھی یہی ہے کہ ظالم بادشاہ کے سامنے حق بات کہنا بڑا جہاد کہا گیا ہے اس لحاظ سے یہ دھرنا پاکستان میں بسنے والے بائیس کروڑ عوام اور بالخصوص کراچی کے تین کروڑ عوام جو ظلم کی چکّی میں عرصہ دراز سے پس رہے ہیں کے لیے جہاد ہی تھا۔
دین کے مکمل تصوّر میں یہ بات شامل ہے کہ انسانیت کی خدمت رب کی رضا کے حصول کا ذریعہ ہے اور جنت کے درجات میں بلندی کا بھی ذریعہ ہے اور یہ کیسے ممکن تھا کہ جماعت اسلامی جس کا ماضی اور حال خدمت انسانیت سے مزیّن ہے، اس سے بے پروا رہتی کہ کراچی کے رہنے والے یا سندھ کے رہنے والے عوام اپنے بنیادی حق سے محروم رہیں جہاں ہر سال سیکڑوں معصوم بچے اپنی ماؤں کی گود میں بھوک سے تڑپ تڑپ کر جان دے دیں، جہاں انسان اس جگہ سے پینے کا پانی حاصل کرنے پر مجبور ہو جہاں جانور بھی پانی پیتے ہوں، جہاں اسپتال تو ہوں مگر وہاں ڈاکٹر نہ ہوں مریض علاج نہ ہونے پر اسپتال میں جان دے دیتے ہوں، کتّوں کی محبت میں گرفتار اس وڈیرا شاہی حکومت نے عوام کو کتوں کے کاٹنے کے لیے پورے سندھ کو کتّوں کے حوالے کردیا ہے اور سندھ کے اسپتالوں میں کتے کے کاٹے کا انجکشن بھی موجود نہیں جس کی وجہ سے کتنے ہی مرد، عورت اور بچّے جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں، اسکول تو ہوں مگر وہاں بچوں کے بجائے وڈیروں کے مویشی بندھے ہوں۔ سرکاری اساتذہ پرائیوٹ اسکولوں میں نوکریاں کررہے ہوں، شہروں اور دیہاتو ں کی حالت ایک جیسی ہو۔ کراچی جو صرف سندھ کا معاشی حب نہیں ہے بلکہ منی پاکستان ہے اور یہ اپنی آمدنی سے پاکستان کی ترقی میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔
حافظ نعیم الرحمن صاحب نے اپنے اس دھرنے اور پوری تحریک کو ہر طرح کی عصبیت سے پاک رکھا تھا اور یہ بات بار بار دھراتے رہے کہ ہمیں خوشی ہے کہ کراچی کی آمدنی سے پشاور میں سڑکیں اور بی آر ٹی جیسے ترقیاتی منصوبے بنے، لاہور میں سڑکوں کا جال بچھے اورنج لائن ٹرین اور ٹرانسپورٹ چلے اور راولپنڈی اور اسلام آباد کے درمیان میٹروں بسیں چلیں لیکن چونکہ کراچی ملک کا واحد شہر ہے جس میں ہر لسانی اکائی بہت بڑی تعداد میں رہائش پزیر ہیں یہ شہر مختلف زبانیں بولنے والوں کا سب سے بڑا شہر ہے یہ ملکی معیشت کا پہّیہ چلاتا ہے لہٰذا اس کو اس کا پورا حق ملنا چاہیے کیونکہ یہ کراچی کی ترقی کے لیے ہی نہیں بلکہ پورے پاکستان کی ترقی کے لیے ازحد ضروری ہے۔ انہوں نے یہ بات بھی بڑی شدّومد سے بار بار دہرائی کہ جماعت اسلامی اپنے سیاسی اسکور کے لیے نہیں جدوجہد کررہی ہے بلدیاتی ترمیمی بل نے تو تمام سندھ کے مئیر کو بے اختیار کرکے رکھ دیا ہے ہم تو چاہتے ہیں کہ مئیر خواہ کسی پارٹی کا ہو وہ بااختیار ہو، سند ھ کے اندر عام سندھی بھی وڈیرے اور جاگیردار کے مظالم کا شکار ہے جس کی مثالیں اگر لکھی جائیں تو ایک الگ کالم کی ضرورت پڑے گی۔ اس دھرنے نے تمام سندھ کے مظلوموں کو بھی زبان عطا کردی ہے جس کا واضح ثبوت اندرون سندھ میں ہونے والے دھرنے کے حق میں اظہار یکجہتی کے مظاہرے تھے۔
سندھ کی حکومت اور وفاقی حکومت اپنے تمام تر دعوؤں کے باوجود بری طرح ناکام ہوچکے ہیں ان جماعتوں کایک ہی مشغلہ رہ گیا ہے اور وہ ہے منہ سے فائرنگ کرنا ان دونوں پارٹیوں نے منہ سے فائرنگ کرنے والے ماہر تیس مار خان رکھے ہوئے ہیں جو ایک دوسرے پر فائرنگ کرتے رہتے ہیں ان کو عوام کے مسائل سے کوئی دلچسپی نہیں ہر طرف مایوسی کی کیفیت طاری تھی اس دھرنے نے اس کیفیت کو توڑا ہے اور جماعت اسلامی نے حافظ نعیم الرحمن کی صورت میں ایک باصلاحیت اور باکردار قیادت عوام کو فراہم کیا ہے اب یہ عوام پر منحصر ہے کہ وہ اس قائد کراچی بلکہ سندھ کی کتنی قدردانی کرتے ہیں سچ ہی کہا ہے کسی نے اذان دینے والا کبھی ناکام نہیں ہوتا بلکہ اذان کی آواز پر لبیک کہہ کر مسجد کی طرف نہ آنے والا ناکام ہوتا ہے۔ اس دھرنے میں شریک لوگوں اور ان کے قائد کا عزم و یقیں اتنا مستحکم تھا کہ اپنے سارے مطالبات کے علاوہ بھی جو 1980 میں کراچی کا حق وہیکل ٹیکس کی صورت میں غصب کیا تھا وہ بھی واپس ہوگیا۔