قومی سلامتی پالیسی کی منظوری

663

دسمبر 2021 میں قومی سلامتی کمیٹی نے وزیراعظم عمران خان کی سربراہی میں اپنے 36ویں اجلاس میں پہلی قومی سلامتی پالیسی کی منظوری دی۔ واضح رہے کہ قومی سلامتی کمیٹی قومی سلامتی سے متعلق امور کو مربوط کرنے کے لیے ملک کا اعلیٰ ترین مشاورتی اور فیصلہ ساز ادارہ ہے۔ قومی سلامتی کی پالیسی میں جزیات اور تفصیلات میں پڑے بغیر ایسے راہنما خطوط وضع کیے گئے ہیں جو ایک واضح وژن کا تعین کرتا ہے، اس وژن میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان ان خطوط پر عمل درآمد کے ذریعے جہاں اپنے قومی مقاصد کا حصول ممکن بنایا جاسکتا ہے وہاں اس پالیسی کے ذریعے وہ ضروری اقدامات بھی اٹھائے جاسکتے ہیں جو وطن عزیز کی مجموعی قومی سلامتی کے لیے ناگزیر اور انتہائی ضروری ہیں۔ قومی سلامتی کے مشیر معید یوسف کا کہنا ہے کہ یہ پالیسی جو پاکستان کی 75سالہ تاریخ میں اعلیٰ سطح پر بنائی گئی پہلی باضابطہ پالیسی ہے چاروں صوبائی حکومتوں حتیٰ کہ گلگت بلتستان اور آزاد جموں وکشمیر کی سول سوسائٹی، دانشوروں اور طلبہ سے ان پٹ حاصل کرنے کے بعد بنائی گئی ہے۔ یہ پانچ سالہ پالیسی 2022 سے 2026 تک کے عرصے پر محیط ہوگی۔ قومی سلامتی پالیسی حکومت کی خارجہ، دفاع، اقتصادی اور فیصلہ سازی کی پالیسیوں اور حکمت عملیوں کی تشکیل کے لیے رہنمائی فراہم کرے گی۔ یہ ایک جامع پالیسی ہے جس کا بنیادی مقصد ملک کی اجتماعی سلامتی کو تمام خطرات سے حتی الوسع محفوظ بنانا ہے۔
بعض نامی گرامی مغربی مفکرین کے مطابق قومی سلامتی معیشت، خوراک، پانی، توانائی، آب و ہوا، دہشت گردی، آبادی میں اضافہ اور پڑوسیوں اور اہم ممالک کے ساتھ تعلقات سمیت تمام سیکورٹی چیلنجز کا احاطہ کرتی ہے۔ قومی سلامتی کسی ملک کے قومی مفاد سے وابستہ دستاویز ہے۔ یہ قومی مفادات معاشرے کی بنیادی اقدار پر مشتمل ہوتے ہیں جن میں قوم کی فلاح و بہبود، اس کے سیاسی نظریات کی حفاظت، قومی طرز زندگی، علاقائی سالمیت اور اس کی خودداری وخودمختاری جیسے عناصر شامل ہیں لہٰذا پاکستان کی پہلی قومی سلامتی پالیسی سے متعلق یہ بات باعث اطمینان ہے کہ اس پالیسی پر عملدرآمد کے لیے ایک جامع منصوبہ بھی تیار کر لیا گیا ہے۔ یہ پالیسی پانچ سال کے لیے ہے اور ہر سال کے آخر میں اس کا جائزہ لیا جائے گا۔ سیاسی مبصرین اور قومی سلامتی کے ماہرین کا خیال ہے کہ یہ نئی پالیسی پاکستان کی قومی سلامتی کو مضبوط بنانے میں ایک اہم سنگ میل ثابت ہوگی ہے۔
دوسری جانب یہ بات حیران کن ہے کہ اب تک پاکستان کے پاس اپنی سلامتی سے متعلق مسائل کو حل کرنے کے لیے کوئی باقاعدہ قومی سلامتی پالیسی نہیں تھی حالانکہ دنیا کا ہر ملک اپنی قومی سلامتی اور متعلقہ پہلوؤں کو دستاویزی قومی پالیسی کے ذریعے یقینی بنانے کی کوشش کرتا ہے۔ پاکستان جیسے ملک کے لیے قومی سلامتی کا مقصد اپنے شہریوں کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے تمام اندرونی اور بیرونی خطرات سے نمٹنے کے لیے ملک کی سلامتی کو مضبوط بنانا ہے۔ قومی سلامتی کے امور پر گفتگو کرتے ہوئے ہمیں اس تلخ حقیقت کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے کہ بھارت اپنے حجم، آبادی، جغرافیائی محل وقوع، صنعتی ترقی اور فوجی طاقت کی وجہ سے خود کو جنوبی ایشیا کا خودساختہ تھانیدار سمجھتا ہے۔ اس صورتحال میں پاکستان کے لیے ایک آزاد ریاست کے طور پر اپنی خودمختاری، سلامتی اور علاقائی سالمیت کا تحفظ نہ صرف اس کی ضرورت بلکہ مجبوری بھی ہے۔ بھارت کے ہندو انتہا پسند حکمران تو کجا اس کے اعتدال پسند راہنمائوں نے بھی کبھی دل سے برصغیر پاک وہند پر مسلمانوں کی طویل حکمرانی کو تسلیم نہیں کیا۔
اسی طرح قیام پاکستان کی برسرزمین حقیقت کو بھی بھارت نے سات دہائیاں گزرنے کے باوجود تسلیم نہیں کیا ہے شاید بھارت کے حکمرانوں اور وہاں کے بالادست طبقات کی اسی منفی اور غیر حقیقت پسندانہ سوچ کا نتیجہ ہے کہ بھارت کی نسبت آبادی، رقبے اور وسائل کے لحاظ سے ایک چھوٹے ملک (پاکستان) کو قیام میں آنے کے فوراً بعد سے اپنی زیادہ تر توجہ اپنی سلامتی اور تحفظ کو دینی پڑی ہے۔ بھارت گزشتہ سات دہائیوں میں پاکستان کی سلامتی کے کس حد تک در پے رہا ہے اس کا کھلا ثبوت بھارت کی جانب سے پاکستان پر چار جنگیں مسلط کرنے کے علاوہ کشمیر پر اس کا غاصبانہ قبضہ ہے۔ پاکستان ایک چھوٹا پڑوسی ملک ہونے کے باوجود چونکہ بھارت کی علاقائی چودھراہٹ نہ صرف یہ کہ قبول کرنے کے لیے تیار نہیں بلکہ وہ بھارت کے ان توسیع پسندانہ عزائم کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ہے اس لیے وہ نہ چاہتے ہوئے بھی اپنی توجہ اپنی قومی سلامتی پر مرکوز رکھنے پر مجبور رہا ہے۔ یہ بھارت کے ان ہی توسیع پسندانہ عزائم کا نتیجہ تھا کہ پاکستان کو اپنی آزادی کے تحفظ اور سلامتی کی خاطر 1998 میں بھارت کے پانچ دھماکوں کے جواب میں چھے ایٹمی دھماکوں کا کڑوا گھونٹ پینا پڑا تھا۔ آج بھی پاکستان کی قومی سلامتی کو بھارت کے جوہری ہتھیاروں کے ساتھ ساتھ اس کی روایتی صلاحیتوں اور میزائلوں کے نظام سے جو سنگین خطرات لاحق ہیں وہ ناقابل تردید ہیں۔ یہاںیہ بات محتاج بیان نہیں ہے کہ قومی سلامتی کا ہندوستانی تصور چانکیا کے دیے گئے فلسفے کے گرد گھومتا ہے۔ انہوں نے اپنی ’ارتھ شاستر‘ نامی کتاب جو سیاست اور سلامتی سے متعلق فلسفے پر مبنی ہے میں اس بات کی برملا وکالت کی ہے کہ ہر وہ چیز جو ریاستوں کے مفاد کا تحفظ کرتی ہے وہ کسی بھی اصول یا اخلاقیات سے قطع نظر جائز ہے۔ وہ اس کتاب میں نہ صرف علاقائی توسیع کی وکالت کرتے ہوئے نظر آتے ہیں بلکہ ان کا کہنا ہے کہ ایک ریاست کو اپنے پڑوسی ممالک کو دشمن سمجھنا چاہیے اور ان پر کبھی بھی بھروسا نہیں کرنا چاہیے۔ بھارتی دانشوروں اور حکمرانوں کے ان خطرناک عزائم کو مد نظر رکھتے ہوئے پاکستان کا اپنی قومی سلامتی پالیسی تشکیل دینا اگر ایک طرف وقت کا تقاضا ہے تو دوسری جانب یہ پالیسی بھارت کے توسیع پسندانہ عزائم کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ اور ممدو معاون ثابت ہوگی۔