قومی سلامتی نظر انداز کرکے،امریکا پالیسی چلائی جارہی ہے

613

کراچی (رپورٹ/ محمد علی فاروق) ملک خداداد پاکستان میں قومی سلامتی کے مفادات کو فراموش کر کے امریکا کی پالیسیاں چل رہی ہیں، حکمرانوں نے پاکستان کے وجود کے بعد ہی نظریہ پاکستان کو پس پشت ڈال کر اندرونی و بیرونی ہر قسم کی پالیسیاں ذاتی ، پارٹی ، اور بیورو کریسی کے مفاد دیکھ کر بنائیں ، آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک سے قرضے لیں گے تو ان کی پالیسیوں پر بھی عمل کرنا پڑے گا ، قومی سلامتی سے متعلق پالیسی امور میں،معاشی ، سماجی ، تعلیمی ، ماحولیاتی ، جغرافیائی ،دفاعی ، دہشت گردی اورقومی و بین المذاہب ہم آہنگی کو نبیادی نقطہ قرار دیا گیا ہے یہ بات درست نہیں ہے کہ حالیہ قومی پالیسی میں ملک کے نظریے کو اہمیت نہیںدی گئی دراصل قول وفعل کا تضاد کسی بھی نظریے کو پس پشت ڈال دیتا ہے اور وہ صرف نظریے کی حد تک رہ جا تا ہے، اگر ارباب اختیار اور عوام دونوں میں سچائی ، ایمانداری ، دیانتداری ، محنت ، لگن ، عقل مندی ، ذہانت اور قول وفعل میں تضاد پایا جائے تو ایسی صورت میں قومی سلامتی کی پالیسیوںکا سلسلہ صرف زبانی جمع خرچ سے زیادہ کچھ نہیںہے۔ ان خیالات کا اظہار جماعت اسلامی سندھ کے امیر محمد حسین محنتی اور معروف بین الاقوامی امور کے ماہر تجزیہ کار پروفیسر ڈاکٹر مونس احمر نے جسارت سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کیا ۔ جماعت اسلامی
سندھ کے امیر محمد حسین محنتی نے کہا کہ پاکستان کا قیام ایک نظریے کی بنیاد پر ہوا تھا ، اس کے پیچھے ایک بھر پور جدوجہد تھی صرف انگریزوں سے ہی آزادی حاصل نہیںکی گئی تھی بلکہ ہندوؤں سے بھی ایک طرح ہم نے آزادی حاصل کی تھی ،پاکستا ن کا مطلب کیا لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ ہی ایک نظریہ تھا قائد اعظم نے بھی یہی کہا تھا کہ پاکستان بن رہا ہے اس کا ستور قرآن وسنت ہوگا ، لیکن ان سب کے باوجود جب پاکستان بن گیا تو اوائل سالوں میں قائد اعظم کو اس بات کا ادارک ہوگیا تھا کہ ہمیں قرآن وسنت کی طرف جانا ہے اور انہوں نے اسٹیٹ بینک کے افتتاح کے موقع پر بھی اس بات کی نشاندہی کی تھی کہ سود کے خاتمے کے لیے آپ کوئی پالیسی بنائیں ، لیکن اس کے بعد اندرونی اور بیرونی ، قومی سلامتی اور خارجہ پالیسوں سمیت ہر قسم کی پالیسی میں آنے والے حکمرانوں نے اپنا ذاتی ، پارٹی ، بیوروکریسی کا مفاد دیکھ کر ہی پالیسیاں بنائیں، نظریہ پاکستان کو پس پشت ڈال دیا گیا ، اسی لیے اس وقت پاکستان میں دین اسلام کے نام پر تحریک چلا ئی گئی اور 1965کی جنگ میں فوجوں کو اسلام اور قرآن وسنت کے نام پر کھڑا کیا گیا تو پھر دنیا نے دیکھا کہ پوری فوج اور عوام ایک جان ہو کر کھڑی ہوگئی جبکہ1971میں ہم تفریق میں چلے گئے ، لسانی سیاست کا آغاز ہوا ، اور پھر پاکستان فوج نے بھی کرادار ادا نہیںکیا اور نہ ہی عوام نے ساتھ دیا اور پوری قوم کو بہت بڑی مایوسی کا شکا ر ہونا پڑا ، محمد حسین محنتی نے کہا کہ ہم اس وقت بھی بہت بڑے مخمصے میں پھنسے ہوئے ہیں امریکااور مغرب کی بالا دستی ہوچکی ہے ، آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک سے ہم نے اتنے قرضے لے کر ملک پر بوجھ چڑ ھا لیا ہے کہ اب ہمارے ملک کے وزیر اعظم عمران خان بھی یہ کہ رہے ہیںکہ جب ہم آئی ایم سے قرضہ لیں گے تو پھر ان کی باتیںبھی ماننی پڑتی ہیں اور ان کی پالیسیوں پر بھی عمل کر نا پڑ تا ہے یہی وجہ ہے کہ ہماری اپنی قومی سلامتی اور خارجہ پالیسیوں کی قربانی دینی پڑتی ہے اس وقت پاکستان بڑی ملکی حالات میں پھنسا ہوا ہے ہمار ی قومی سلامتی اور خارجہ پالیسیاں امریکا کی چل رہیں ، اس ہی وجہ سے 2001میں جب امریکا نے افغانستان پر حملہ کیا تو ہم نے یہ نہیں دیکھا کہ وہ ہمارا اسلامی دوست اور پڑوسی ملک ہے اور وہاں ایک اسلامی حکومت ہے جو ہمارے ساتھ ٹھیک انداز میں چل رہی ہے مگر ہم نے ان کو چھوڑ کر امریکا کا ہر طرح کا زمینی ،فضائی اور لاجسٹک ساتھ دیا، ہم نے اپنا سر شرم سے جھکا لیا ، افغانستان کے بعد امریکا نے عراق پر حملہ کر دیا تو پھر بھی ہم نے امریکا کی مخالفت کے بجائے ان کی ہاں میں ہاں ملائی، یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ ہماری اس وقت بھی قومی سلامتی کی اندرونی اور بیرونی ہر طرح کی پالیسیاں امریکا اور مغرب کے مفادات کو مدنظر رکھ کر چلا ئی جارہی ہیں ، محمد حسین محنتی نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان نے تو بہت کہا تھا کہ ہم جب آئیںگے تو اپنی پالیسیا ں لائیں گے اور ملک کے مفادات کو بالادست رکھتے ہوئے پالیسیاں بنائی جائیں گی مگر اب پھر ہم دیکھ رہے ہیں کہ ملک خداداد پاکستان میں قومی سلامتی کے مفادات کو فراموش کر کے امریکا کی پالیسیاں چل رہی ہیں ، جب ہم نے نیوکلیئر تجربے کیے گئے اس وقت امریکا نے پاکستان پر پابندیا لگائیں پاکستان پر کڑا وقت آیا ، آئی ایم نے ہمارے ساتھ کیے گئے وعدوں سے انحراف کیا اور امریکا نے بھی کوئی ساتھ نہیںدیا جبکہ ہم پر مزید پابندیاں لگا کر پریشان کیا گیا ، اس لیے ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ امریکا یا دنیا کا کوئی بھی ملک اپنے مفادات کو مدنظر رکھ کر ہی پالیسیاں بناتا ہے مغرب کی اپنی مثال دیکھ لیں وہ سرمایہ داری نظام ہو یا سوشل ازم، کیمونزم ،سیکولر ازم ہو وہ اپنے بنائے ہوئے نظریے کو مدنظر رکھ کر ہی پالیسیاں بنا تے ہیں ، اسی طرح ایران بھی اپنی پالیسیاں بنا تا ہے ہمیں بھی چاہیے کہ پاکستان کے نظریے کو مدنظر رکھتے ہوئے اسلام اور قومی سلامتی کے منافی اندرونی اور بیرونی پالیسیوںکو درست کر نا چاہیے ۔معروف تجزیہ نگار بین الاقوامی امور کے ماہر پروفیسر ڈاکٹرمونس احمر نے کہا کہ قومی سلامتی سے متعلق پالیسی امور میںتین چیزوں کو اہمیت دی گئی ہے پہلی ملکی اقتصادی معاشی سلامتی کو بنیادی نقطہ قرار دیا گیاہے اس پالیسی کا مرکز و محور عام شہری کو بنایا گیا ہے اور کہا گیا کہ اس کا مقصد پاکستان کے شہریوں کی ’حفاظت، سلامتی، عزت اور خوشحالی‘ ہے۔جب تک ملک معاشی طوپر کھڑا نہیں ہوگا کسی قسم کا کوئی سمجھوتا ممکن ہی نہیں ہے ، دوسری اہم بات اس میںپاکستان کی جغرافیائی صورت حال او دفاع سے متعلق پالیسی کو واضح کر نا ہے ،پاکستان کھلی اور محفوظ‘ سرحد کا خواہاں ہے جہاں معاشی رابطہ کاری ممکن ہو، پاکستان کی جغرافیائی سرحدوں کا ہر قیمت پر تحفظ کیا جائے ، پالیسی میں دفاعی ساز و سامان کی تیاری اور جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ رکھنے کے لیے خود انحصاری کے شعبے میں مزید کام کو بڑھانے کا عزم ظاہر کیا گیا ہے ، تیسری اہم بات قومی سلامتی کی پالیسی میں کوشش کی گئی ہے کہ غیر روایتی سوچ کو اپنایا جائے جس سے معاشی ،سماجی ، تعلیمی ، ماحولیاتی ترقی کو فوقیت ملے جبکہ مختلف مذاہب کے ماننے والوں کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنے ، فرقہ واریت اور ہر قسم کی دہشت گردی کو ختم کرنے کے لیے ترجیحی بنیادوں پر اقدامات کیے جائیں گے۔ ڈاکٹر مونس احمر نے کہا ہے کہ پاکستان کی قومی سلامتی سے متعلق پالیسی میں ملک کے نظریے کو اہمیت نہیں دی گئی یہ بات درست نہیں ہے ۔ قول و فعل کا تضاد کسی بھی نظریے کو پس پشت ڈال دیتا ہے اور پھر نظریہ صرف دیکھانے کی حد تک رہ جا تا ہے اس کا عمل سے کوئی تعلق باقی نہیںرہتا ، نظریہ انسان کو ایک سمت کی طرف لے جاتا ہے اورانسانوں کے لیے مشعل راہ تصور کیا جاتا ہے، نظریے میں انصاف کی بڑی اہمیت اوربد عنوانی کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی ،اس لیے یہ بات ضروری ہے کہ ارباب اختیار اور عوام دونوں میں سچائی ، ایمانداری ، دیانتداری ، محنت ، لگن ، عقل مندی ، ذہانت اور قول وفعل کا تضاد نہ پایا جاتا ہوجبکہ عصری علوم کے ساتھ دیگر ممالک کے ہر افکار پر گہری نظر اور مطالعہ بھی ضروری ہے ،جب تک قوموں میں ایمانداری کا فقدان رہے گا اس وقت تک ملک میں نظریے کی کوئی اہمیت نہیں ہوگی اور پالیسیاں باتیں کرنے کی حدتک بنتی رہیں گی پھر پچھلی حکومتوںکی طرح ان پالیسیوں کا بھی وہی انجا م ہوگا جو اس سے قبل بنے والی پالیسیوں کا ہوا تھا مجھے موجودہ پالیسی میں ایسی کوئی چیز نہیںدکھائی دی کہ جس میں پاکستان کے نظریے یا اس کی بنیاد کو پس پشت ڈالا گیا ہو۔ڈاکٹر مونس احمر نے کہا ہے کہ پاکستان کے وجود کے بعد سے دنیا میں نظریہ پاکستان کو ایک خاص مقام حاصل رہا ہے،دنیا میں کئی نظریاتی ممالک ہیں جن میں اسرائیل میںیہودیوں کو اسٹیٹ کا باشندہ تصور کیا جاتا ہے اسرائیلی اپنی قومی سلامتی امور میں نظریے کو فوقیت دیتے ہیں اس کا انحصار ملکی قیادت پر ہوتا ہے کہ وہ اپنے ملک سے کتنا مخلص اور مضبوط ہے ، اس وقت ملک میں بدعنوانی ، اقرباء پروری ، لاقانونیت اور اہلیت کا فقدان ہے ،جب تک ہم ان چیزوں پر قابو حاصل نہیں کرتے اس وقت تک نظریے پر بات نہیںکی جاسکتی ،پاکستان میں انسانی ترقی کے لیے ضروری ہے کہ حکومتی اداروں میں اعلیٰ اور نچلی سطح پر اہلیت کی بنیا د پر افراد کا تقرر کیا جائے یہی وجہ ہے کہ ملک سیاسی اور معاشی طو ر پردنیا میں پیچھے رہ گیا ہے ، پاکستان کی اشرافیہ عام شہریوں کے مسائل سے ناواقف ہے جبکہ اس اشرافیہ کو ملکی مسائل کا پتا ہی نہیںہے ، دراصل قومی سلامتی کی پالیسی پیش کرنا اہم نہیں بلکہ اس پر عملدرآمد اور عملی اقدامات کرنا لازمی ہے،قومی سلامتی کی پالیسی کا سلسلہ صرف زبانی جمع خرچ ہے اس میں عمل کی کمی ہے اس وقت تک کوئی بھی پالیسی کار آمد نہیں ہوسکتی جب تک اس پرایماندادی اور دیانتداری سے عمل درآمد نہ ہو۔