ہماری موجودہ حکومت کا یہ دعویٰ ہے کہ ہماری خارجہ پالیسی آزاد ہے اور ایسا ہونا بھی چاہیے اس لیے کہ ہم ایک آزاد ملک ہی نہیں نیوکلیئر اسٹیٹ بھی ہیں۔ فیصلے کرتے وقت ہمیں اپنی آزادانہ حیثیت کو برقرار رکھنا چاہیے، مگر حقیقت اس کے برعکس معلوم ہوتی ہے، گزشتہ تین سال سے ملک میں گیس کا بحران ہے، سابقہ حکومت نے ایل این جی کے ذریعے توانائی کی ضروریات کو پورا کرنے کی جو کوشش کی تھی اس پر پی ٹی آئی حکومت تذبذب کا شکار رہی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ توانائی کا بحران اس قدر بڑھا کہ موسم سرما میں سی این جی سیکٹر کو بند کرنا پڑا۔ یہی نہیں غیر برآمدی صنعتوں کو گیس کی سپلائی معطل کی گئی اور اب تو برآمدی اور غیر برآمدی کی تمیز سے بالاتر ہر صنعت کو گیس کی فراہمی بند ہے۔ رہی گھریلو صارفین کی بات تو ہر چھوٹے بڑے شہر میں لوگ سراپا احتجاج ہیں۔
ایل این جی کی درآمدات کے حوالے سے موجودہ حکومت کوئی موثر پالیسی بنانے میں ناکام رہی، بروقت سودے نہ کرنے کی وجہ سے قیمت بڑھتی گئی اور پھر حکومت سارا ملبہ سابقہ حکومتوں پر ڈال کر بری الذمہ ہونا چاہتی ہے۔ بلاشبہ موجودہ حکومت کا آدھے سے زیادہ دور حکومت گزر چکا، ملک میں توانائی کا بحران ہے، وزیراعظم صرف یہی کہنے پر اکتفا کرتے ہیں کہ اس سال موسم سرما میں گیس سپلائی متاثر رہے گی اور عوام کو یہی مشورہ ہے کہ گھبرانا نہیں۔ وزیراطلاعات شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار بنے ہوئے ہیں۔ فرماتے ہیں کہ سالانہ نو فی صد گیس کم ہورہی ہے، شہریوں کو عیاش کہتے ہیں۔ وزیر توانائی نے تین اوقات میں گیس دینے کا وعدہ کیا تھا۔ اب وہ بھی منہ چھپائے پھرتے ہیں۔ صوبہ خیبر پختون خوا میں سی این جی سیکٹر کو محدود وقت کے لیے گیس کی ترسیل جاری رکھی گئی مگر اس کے باوجود بھی عوام کا غم و غصہ بلدیاتی انتخابات میں پی ٹی آئی کی ناکامی کی صورت میں سامنے آیا ہے۔
ہاں اتنا ضرور ہے کہ عوام کو تسلی دی جاتی ہے کہ سوویت یونین سے آزاد ہونے والی وسط ایشیائی ریاستوں سے نکلنے والی گیس افغانستان کے راستے پاکستان تک پہنچائی جائے گی۔ یہ وہ منصوبہ ہے جو ابھی شروع ہی نہیں ہوا پھر افغانستان کی موجودہ صورت حال میں یہ کہنا بہت مشکل ہے کہ اس منصوبے کے قابل عمل ہونے کے امکانات کیا ہیں اور پھر قیمتوں کے تعین کے بعد ہی اس منصوبے پر عمل درآمد ہوسکے گا۔ رہی فاصلوں کی بات اتنی طویل پائپ لائن کے منصوبے کو مکمل ہونے میں کتنا عرصے لگے گا کوئی یقین سے نہیں کہہ سکتا۔
جس منصوبے کو کھٹائی میں ڈال دیا گیا ہے وہ پاک ایران گیس پائپ لائن کا منصوبہ ہے جس کے بارے میں ہماری معلومات کی حد تک ایران پاکستانی سرحد تک پائپ لائن ڈال چکا ہے اور یہ وہ منصوبہ ہے جو امریکا کی آنکھیں دیکھ کر اپنی خارجہ پالیسی بناتی ہیں۔ امریکا ایران کو معاشی طور پر یکتا و تنہا کرنا چاہتا ہے اور یہی اس کی اسی پالیسی کی بدولت ہم ایرانی پٹرول اور گیس سے فائدہ اٹھانے میں پس و پیش کا شکار ہیں۔ اگر ہمارا یہ دعویٰ درست ہے کہ ہماری خارجہ پالیسی آزاد ہے اور ہم کسی بلاک کے زیراثر نہیں تو پھر حکومت پاکستان کو پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبے کو قابل عمل ہونے کے لیے سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے کیوں کہ جب پاک ایران سرحد تک پائپ لائن ڈل چکی تو محض کچھ حصے میں گیس پائپ لائن ڈال کر ہم اپنی توانائی کی مشکلات کو خاصی حد تک کم کرسکتے ہیں۔ اور اس منصوبے کی تکمیل جہاں ایران کے لیے معاشی سکھ کا باعث ہوگی وہیں ہماری صنعتی ترقی کے در بھی واکرے ہوں گے۔