رونے کے مقام پر شادیانے بجانے والی قوم

772

دنیا میں ایسی قوم کہیں نہیں جس کو خوشی ملے تو وہ شادیانے نہ بجائے۔ قومیں ہی کیا، انسان تنہا ہو، ایک خاندان کی طرح رہتا ہو، معاشرہ ہو، زبان، رنگ، نسل یا علاقے کی بنیاد پر ایک دوسرے کا ہم خیال ہو تو ہر قسم کی کامیابی پر اپنی خوشی کا اظہار ضرور کرتا ہے۔ بے شک خوشی کے اظہار کے طور طریق اور انداز ہر طبقے، جماعت، گروہ اور قوم کے ایک دوسرے سے بہت مختلف ہوتے ہیں لیکن فطرت سے کوئی بھی بغاوت نہیں کر سکتا اور دکھ سکھ کا مظاہرہ بہر صورت ضرور کیا جاتا ہے۔ خوشی کس چیز کا نام ہے اور غم کسے کہتے ہیں، اس کا انحصار ہر فرد، گروہ اور قوم کے اپنے مزاج سے ہوتا ہے۔ یہ ضروری نہیں کہ جس بات پر کوئی قوم تہوار مناتی ہو وہ کسی دوسری قوم کے لیے اتنی ہی پسندیدہ ہو اور یہ بھی ضروری نہیں کہ وہ کسی کی خوشی میں دل و جان سے بھی شریک ہو۔ انسانی تاریخ گواہ ہے کہ بعض تہوار کسی دوسری قوم اور معاشرے کے لیے اس حد تک بھی ناخوشگوار ہو جاتے ہیں کہ ایک دوسرے کے خلاف تلواریں تک میان سے باہر نکل آتی ہیں لیکن دنیا میں ایک ایسی بھی قوم ہے جو ان باتوں پر بھی خوشیوں کے شادیانے بجاتی نظر آتی ہے جو دنیا میں بستے والی اقوام ہی کے لیے نہیں بلکہ ہر غیرت مند فرد کے لیے شرمساری کا باعث ہوتا ہے۔
ہر فرد اور معاشرے کے لیے ہر قسم کی یہ مثبت پیش رفت خوشی و انبساط کا سبب بنتی ہے۔ ایسے موقعوں پر مبارک بادیاں دی جاتی ہیں، میلے لگتے ہیں، مٹھائیاں تقسیم ہوتی ہیں، پکوان تیار کیے جاتے ہیں، رقص و سرود کی محافل سجائی جاتی ہیں اور شکرانے کے نوافل ادا کیے جاتے ہیں۔ یہ تو وہ خوشیاں ہوتی ہیں جو جہدو جہد کے ذریعے حاصل کی جاتی ہیں اور سچ تو یہی ہے کہ جو کامیابی بھی سخت جدو جہد کے ذریعے حاصل ہو وہی حقیقی خوشی ہوا کرتی ہے اور اس کا اظہار نہایت خوشی اور فخرکے ساتھ کیا جاتا ہے۔
ایک خوشی اور بھی ہوا کرتی ہے اور وہ کچھ اس طرح ہوتی ہے کہ کوئی شخص نہایت بے بسی اور بے چارگی کے عالم میں کسی سے سوال کرنے پر مجبور ہوجائے اور اس کا سوال سن کر دینے والا اس کی توقعات کے مطابق یا اس سے بھی بڑھ کر اس کی مدد کرنے پر تیار ہو جائے۔ ضرورت مند شخص ایسی ہمدردانہ امداد پر خوشی سے نہال ہو جایا کرتا ہے اور اپنے ہمدرد کا احسان ہمیشہ یاد رکھتا ہے۔ ایسے بے بس کو خوشی ضرور ہوتی ہے لیکن کیا ایسی خوشی اور ہمدردی کو قابلِ فخر قرار دیا جا سکتا ہے؟۔کبھی کبھی ضرورت پڑنے پر لوگ اپنی ایسی اشیا بیچنے پر بھی مجبور ہو جایا کرتے ہیں جس کو انہوں نے بڑی مشکل سے حاصل کیا ہوتا ہے۔ ان میں سونا چاندی کے علاوہ مکان و دکان جیسی بیشمار اشیا شامل ہیں۔ ان کو دوسروں کے ہاتھوں فروخت کرکے وہ اس مشکل وقت کو ٹالنے کی جدو جہد کرتے جو ان کے لیے ایک آزمائش بن کر آیا ہوا ہوتا ہے۔ یہاں غور طلب بات یہ ہے کہ کیا کسی بھی شے کو جدو جہد کر کے حاصل کرنے کے بعد جو قابلِ فخر خوشیاں حاصل ہوتی ہیں اور جس انداز میں افراد یا قومیں اس کا اظہار کرتی نظر آتی ہیں، کیا وہ خوشیاں جو کسی کے مشکل وقت میں کسی کی مدد مل جانے یا گھر کی قیمتی اشیا کو فروخت کرنے کے بعد حاصل ہوتی ہیں، برابر یا ایک جیسی ہو سکتیں ہیں۔
پاکستانی ایک ایسی قوم کی شکل اختیار کرتے جا رہے ہیں جو کسی کی مدد تو بہت دور کی بات ہے، سود کے ساتھ قرض مل جانے پر بھی اس طرح مٹھائیاں تقسیم کرتی نظر آتی ہے جیسے اسے کھدائی کے دوران قارون کا مدفون خزانہ مل گیا ہو۔ ایک ایسی قوم جو سود کے ساتھ قرض لینے اور بنا قیمت لیے اپنی قیمتی اشیا کو غیروں کے حوالے کردینے کے بعد مبارک بادیوں کی بارش کرتی اور خوشی کے شادیانے بجاتی نظر آتی ہو تو ایسی قوم کی اخلاقی پستی پر رونے کے علاوہ اور کیا کیا جا سکتا ہے۔آئی ایم ایف سے قرضہ لینے کے لیے پوری قوم کے سروں پر ٹیکسوں کے پہاڑ توڑ دینے اور اپنی ریاست کے بینک کو دنیا کے حوالے کر دینے پر جس انداز میں پورے پاکستان میں جشن منایا جا رہا ہے، ایک دوسرے کو مبارک بادیاں دی جا رہی ہیں، خوشیوں کے شادیانے بجائے جا رہے ہیں اور چینلوں پر خم ٹھونک کر کامیابی کے ترانے گائے جا رہے ہیں، اس پر خون کے آنسو بہانے کو دل چاہتا ہے۔کسی بھی گداگر کے کاسے میں اگر آپ اس کی توقع سے بڑھ کر نوٹ ڈال دیں تو وہ خوشی سے مرے گا نہیں تو پاگل ضرور ہو جائے گا۔ کیا ایسا ہی حال ہمارے حکمرانوں اور ان کے چاہنے والوں کا نہیں۔ اسمبلیوں سے آئی ایم کی بھاری شرائط کی منظوری لے لینا اور اسٹیٹ بینک کی بنا اجرت مکمل خود مختاری دنیا کے حوالے کر دینا جیسے دل چیر دینے والے اقدامات کو قابل فخر کارنامہ کہنے والوں کو پاگلوں کی فہرست شامل نہیں کیا جائے تو اور کیا کیا جا سکتا ہے۔ بھیک نہیں، کیونکہ بھیک قابل واپسی نہیں ہوا کرتی۔ سودی قرض پر اور ریاستی بینک کو دنیا کے حوالے کر دینا، تایخ کا وہ تاریک باب ہیں جس پر گردنیں اکڑانا اور شادیانے بجانا ایک ایسا کریہہ فعل ہے جس کو قابلِ ستائش قرار دینے والوں کو یا تو پاگل کہا جاسکتا ہے یا ملک کا دشمن۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ پاکستان کو اپنی حفظ و امان میں رکھے (آمین)۔