زندہ رہنے کے لیے پانی کی ضرورت سب سے اہم ہے جو فراہم کرنا ریاست کی ذمے داری ہے۔ ہمارے ملک میں فراہمی آب ایک بڑا مسئلہ ہے جو پانی عوام کو مفت ملنا چاہیے وہ عوام خرید کر پینے پر مجبور ہیں کراچی میں بے شمار مافیا موجود ہیں ان میں پانی مافیا بھی سرگرم رہتی ہے ہمارے پوش علاقوں میں تو پانی میسر ہی نہیں ہے جب کہ چھوٹے علاقوں میں ہفتہ وار پانی آہی جاتا ہے عوام کو پانی ملے یا نہ ملے مگر ہر ماہ ان سے واٹر بورڈ پانی کا بل وصول کرتا ہے۔ ہماری عدلیہ کو عوام کے مسائل نظر نہیں آتے، K-4 کا سارا پانی جو کراچی کے عوام کے لیے بنایا گیا منصوبہ تھا اس کو بھاری رشوت اور ملی بھگت سے ملک ریاض کے بحریہ ٹائون کی طرف موڑ دیا گیا۔ آج کراچی کے ہر گھر کا پانی کا خرچ 5 ہزار سے لے کر 30 ہزار تک ہے جب کہ واٹر بورڈ کا ماہانہ بل اس سے الگ ہے کراچی کے کئی علاقے تو کربلا کا منظر پیش کرتے ہیں۔ سیاست دانوں نے برسوں کالا باغ ڈیم پر اپنی سیاست چمکائی۔ ابن آدم کہتا ہے قومی اور ملکی مفاد کا اولین تقاضا یہ ہے کہ ہماری سیاسی جماعتیں ذات برادری اور لسانی مصلحتوں سے بالاتر ہو کر بالغ النظری کا مظاہرہ کریں مگر ستم ظریفی سوائے ایک جماعت اسلامی کے سب کی سب جاگیردارانہ سوچ کی حامل ہیں۔ لسانیت اور فرقہ واریت کو فروغ دینے والی جماعتیں کبھی بھی عوام دوست نہیں ہوسکتیں۔
پانی کے حوالے سے بھارت اور پاکستان کے درمیان ایک معاہدہ طے پایا گیا تھا جس کا نام سندھ طاس معاہدہ ہے جس کی بھارت ہمیشہ خلاف ورزی کرتا رہتا ہے کیوں کہ ہم نے اپنے حصے کا پانی کھلا چھوڑا ہوا ہے۔ اس وجہ سے ہمارے حصے کے پانی پر بھارت ڈیم بنا رہا ہے اور ہم اس کا راستہ روکنے میں مسلسل ناکام چلے آرہے ہیں۔ مسئلہ پانی کی مقدار کا نہیں، مسئلہ چناب اور جہلم پر کنٹرول کا ہے اور پاکستان کو بقا کے لیے بھارت کے اس خواب کو ناکام کرنا ہوگا کیوں کہ جس دن بھارت کو جہلم کے اس پانی کا مکمل کنٹرول مل گیا وہ دن اکھنڈ بھارت کا نقطہ آغاز ہوگا کیوں کہ اپنے ناپاک منصوبے کے مطابق بھارت جب پاکستان میں داخل ہونے والے دریائوں پر مکمل کنٹرول حاصل کرلے گا تو اس کے جو خطرناک نتائج نکل سکتے ہیں وہ آسانی سے سمجھے جاسکتے ہیں۔ درحقیقت پاکستان نے سندھ طاس معاہدہ کرکے اپنے حصہ کے پانی کی ملکیت کا انتقال تو اپنے نام کروادیا مگر اس کا قبضہ حاصل کرنے کی کوشش نہ کی اور انتقال سے کہیں زیادہ ضروری چیز قبضہ ہوتا ہے۔ اپنے حصے کے پانی کا قبضہ لینے کا بہترین طریقہ ہی تھا کہ ہم زیادہ سے زیادہ ڈیم بناتے مگر ہم نے اس طرف توجہ نہیں دی جس کی وجہ سے بھارت کا حوصلہ بڑھا۔ اگرچہ سندھ طاس معاہدہ میں کہیں بھی اس امر کا ذکر نہیں کہ اگر پاکستان ڈیم نہ بنا سکا تو بھارت اس کے حصہ کا پانی استعمال کرنے کا مستحق بن جائے گا لیکن اس نے ڈپلومیسی سے معاملہ اپنے حق میں لے جانے کی کوشش کی کیوں کہ جب آپ یہ معاملہ ثالث کے پاس لے کر جائیں گے تو وہ یہی کہے گا جب آپ اپنے حصہ کا پانی استعمال کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے اور ہر سال بہت بڑی مقدار میں پانی سمندر میں گرا کر ضائع کرتے ہیں تو بھارت ڈیم بنا کر یہ پانی استعمال کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ بدقسمتی سے کسی حکومت نے اس حوالے سے کوئی کام نہیں کیا اگر پرویز مشرف چاہتے تو فوج کے زور پر کالا باغ ڈیم بن سکتا تھا۔ قدرتی طور پر بھی وہ جگہ ڈیم کے لیے اچھی ہے کم خرچ پر ایک بڑے اور معیاری ڈیم کی تعمیر ہوسکتی ہے مگر وہ بھی سیاست کی نظر ہوگیا۔
قارئین آپ میری بات پر غور و فکر کریں پانی زندگی کا اہم جز ہے پانی کی کمی سے ہمارے کھیت اور باغات چند مہینوں میں ویران ہوجائیں گے۔ گنے کے کھیت نہ ہونے سے شکر کی صنعت تباہ ہوجائے گی۔ صنعتوں کے لیے بجلی کا ہونا تو دور کی بات گھر گھر بجلی کو ترسنے لگیں گے۔ پانی کی سطح گر رہی ہے یا جب بھارت میں بارشیں معمول سے کہیں زیادہ ہوجائیں گے تو بھارت اپنے پانیوں کے ذخائر کا رخ پاکستان کی جانب کردیتا ہے۔ جس سے ہمارے ملک میں سیلابی صورت حال واقع ہوجاتی ہے بھارت کسی وقت بھی آبی حملہ کرسکتا ہے۔ جس سے بچائو کا واحد طریقہ فوری طور پر ڈیموں کی تعمیر ہے ہمارے ڈیم پرانے ہوچکے ہیں ہم اس آبی حملے جب ہی روک سکتے ہیں جب ہم ڈیموں کی تعمیر میں خودکفیل نہ ہوجائیں۔
قیام پاکستان کے وقت 23 مستقل نہروں میں سے 21 پاکستان کو مل رہی تھیں۔ بھارت نے کشمیر پر قبضہ کرکے پنڈت نہرو کی امیدوں کے عین مطابق ہر اس دریائوں پر قبضہ کرلیا جو پاکستان کی نہروں کو پانی مہیا کرتے تھے، پنجند کے پانچوں دریا مغرب میں پاکستان پہنچنے سے پہلے اس علاقے سے بہتے ہوئے آتے تھے، جن پر بھارت قابض ہوچکا ہے بلکہ دریائے سندھ خود بھی کشمیر پر بھارت کے قبضے کے نتیجے میں لداخ کے مقام پر بھی بہتا ہے۔ گزشتہ 50 سال کے دوران چین نے ہزاروں چھوٹے بڑے ڈیم بنائے، امریکا میں بھی سیکڑوں ڈیم موجود ہیں، بھارت نے 50 سال میں 4291 ڈیم بنائے اس عرصے کے دوران ہمارے ہاں صرف 68 ڈیم بنے۔ ان میں سے صرف 2 ڈیم ہی بڑے کہلانے کے قابل ہیں۔ تربیلا ڈیم ہم نے کینیڈا کی مدد سے جب کہ منگلا ڈیم ورلڈ بینک کی امداد سے بنا۔ آپ غور کریں جن ملکوں نے زیادہ سے زیادہ ڈیم بنائے، انہوں نے تیزی سے ترقی کی۔ صوبہ بلوچستان میں اور ملک کے دیگر علاقوں میں لاکھوں ایکڑ زمینیں بنجر اور بغیر پانی ہیں اگر ان میں ہنگامی بنیادوں پر ڈیمز تعمیر کیے جائیں اور بنجر زمینوں کو سیراب کرکے کاشت کے قابل بنایا جائے تو پاکستان غذائی اجناس کی قلت سے بچ جائے گا اور زرمبادلہ بھی کمایا جاسکتا ہے۔ بھاشا ڈیم پھر اور دیگر چھوٹے ڈیموں پر کام تو جاری ہے لیکن یہ سارے منصوبے طویل المدت ہیں ہمیں فی الوقت چھوٹے ڈیموں کی اشد ضرورت ہے۔ ہمارے مقابلے میں بھارت اپنے ملک میں تواتر سے ڈیمز تعمیر کررہا ہے یہاں تک کہ وہ پاکستان کی طرف بہنے والے پانیوں پر قبضہ کرکے متعدد متنازع ڈیم بناچکا ہے۔ بھارت پاکستان کو بنجر کرنے کے منصوبہ پر کاربند ہے۔
میری وزیراعظم عمران خان سے یہ درخواست ہے کہ ڈیموں کی تعمیر کے حوالے سے ایک کمیٹی تشکیل دی جائے جو ترجیحی بنیادوں پر کم لاگت اور کم وقت میں چھوٹے ڈیمز تعمیر کرے۔ ان ڈیموں میں بارشوں کا پانی ذخیرہ کیا جاسکے۔ ہمارا یہ ایک قومی المیہ ہے کہ ہمارے ہاں فنی مسائل کو سیاسی رنگ دیا جاتا ہے جس کی بڑی مثال میں پہلے بتا چکا ہوں۔ کالا باغ ڈیم جس کی تعمیر کی سب سے بڑی رکاوٹ ہمارے ملک کے سردار ہیں۔ ہماری فی ایکڑ پیداوار دنیا میں کم شمار کی جاتی ہے۔ چناں چہ ڈیم بنا کر ہم موسم سرما میں فصلوں کی ضروریات کے مطابق پانی مہیا کرسکتے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ گرمیوں میں سیلاب کے خطرات پر بھی قابو پاسکتے ہیں۔ دنیا بھر میں گزشتہ صدی کے دوران 42 ہزار بڑے ڈیم بنے جن ممالک نے ڈیم بنائے وہ ترقی کرگئے باقی ہماری طرح پیچھے رہ گئے۔ اصل مسئلہ قومی سطح کی پالیسیوں کا ہوتا ہے۔ اس سلسلے میں صرف اور صرف قومی مفاد کو مقدم رکھا جانے ہر چیز کو سیاسی عینک سے دیکھنے کی روش اب ترک کرنا ہوگی۔ 74 سال میں جس کو جہاں موقع لگا وہ لوٹ مار کرتا رہا، اللہ کا واسطہ اب میرا پاکستان زخموں سے چور ہوچکا ہے مگر اس کے زخموں پر مرہم لگانے کے بجائے اس کے زخموں کو بھی نوچا جارہا ہے۔ بس محنت اور ایمانداری کے فلسفے پر چلنے کی ضرورت اے میری قوم ووٹ واحد ہتھیار ہے جو قوموں کی تقدیر بدل سکتا ہے اب جئے بھٹو، جئے نواز شریف کے پرانے سبق کو بند کرو اور ریاست مدینہ کے خواب کا حال تو تم دیکھ ہی رہے ہو، فلاحی ریاست بنانے کے بجائے قوم کو بھکاری بنا کر سمجھ رہے ہیں کہ بہت بڑا کام کررہے ہیں۔ فواد چودھری جیسے اور شیخ رشید جیسے لوگوں سے اللہ بچائے، پاکستان زندہ باد، دعاگو ابن آدم