ـ26 جنوری یوم سیاہ نہیں یوم یلغار

1220

26جنوری بھارت کا نام نہاد یوم جمہوریت ہے اور اس دن بھارت کے عوام جشن مناکر خوشی کا اظہار کرتے ہیں اور اہل کشمیر یوم سیاہ کے طورپر مناتے ہیں اور پوری دنیا کو بھارت کی چیرہ دستیوں سے آگاہ کرتے ہیں کہ بھارت مقبوضہ کشمیر میں نہتے اور بے بس کشمیریوں پرظلم کے پہاڑ توڑ رہا ہے اور اس نے اپنی دس لاکھ افواج کے ذریعے ظلم کا بازار گرم کررکھا ہے اور کشمیریوں کے بنیادی حقوق کو پامال کررکھا ہے۔ بہرحال گزشتہ 74 سال سے کشمیری اس دن کی مناسبت سے احتجاج کررہے ہیں اور دنیا کو بھارتی جبرو استبداد سے آگاہ کررہے ہیں لیکن یہ بات صحیح ہے کہ بھارت سرکار پر کشمیریوں کے اس احتجاج کا کوئی اثر نہیں ہے اس احتجاج کے باوجود ظلم وستم میں اضافہ ہی کیا ہے کوئی کمی نہیں ہوئی ہے۔ آج کل تو وہ بڑے پیمانے پر کشمیریوں کی نسل کشی کررہا ہے اور ہندوستان سے لاکھوں ہندوؤں کو لاکرکشمیر میں آباد کررہا ہے تاکہ اس نسل کشی اور ہندوؤں کی آبادکاری کے ذریعے وہ آبادی کے تناسب کو اپنے حق میں لے آئے تو پھر استصواب رائے بھی ہوتا ہے تو اُس کو کوئی فرق نہیں پڑے گا نہ ہی اس احتجاج سے دنیا پر کوئی اثر پڑا ہے۔ دنیا اپنے معاملات میں مصروف کار ہے وہ بھارت کو ایک بڑی منڈی سمجھتی ہے اور اس منڈی کے ساتھ اُس کے مفادات وابستہ ہیں اور وہ اپنے مفادات کو بھی چھوڑ نہیں سکتی ہے اس لیے انڈیا کو وہ کچھ بھی نہیں کہتی اُس کی طرف سے انڈیا کو کھلی چھُوٹ ہے وہ مقبوضہ کشمیر میں جو چاہے اور جس طرح چاہے کرتا رہے، بنیادی حقوق پامال کرے، کشمیریوں کا قتل عام کرے، آبادی کے تناسب کو تبدیل یا اسی طرح کی کوئی کارروائی کرے ہماری طرف سے اُس کو کھلی چھوٹ حاصل ہے۔ باقی رہا عالم اسلام تو وہ ایک مردہ لاش ہے جس سے اُمیدیں وابستہ کرنا بے وقوفی کے سوا کچھ نہیں۔
گزشتہ دنوں پاکستان میں اس عالم اسلام کے مردہ لاش کا اجلاس ہوا اس مردہ لاش نے فلسطین اور کشمیرکے حق میں ایک قرارداد تک منظور نہیں کی۔ اس سے توقعات رکھنا فضول کام ہے۔ اس لیے موجودہ حالات میں یوم سیاہ منانا، دنیا سے توقعات رکھنا یا عالم اسلام سے اُمیدیں وابستہ کرنا سب بے وقوفی ہے اس سے کچھ بھی نہیں نکلے گا نہ بھارتی ظلم وستم میں کمی آئے گی بلکہ بھارت اپنے ظلم وستم میں اضافہ کرتا چلاجائے گا کہ بھارتی حکومت موجودہ حالات کو اپنے لیے سازگار سمجھتی ہے کہ دنیا خاموش ہے عالم اسلام سویا ہوا ہے اور پاکستان مصلحت کا شکار ہے جو بیانات اور قراردادوں سے آگے نہیں بڑھ پائے گا لہٰذا ہمیں کھلی چھوٹ ہے۔ اس لیے ہم یہ بتانا چاہتے ہیں کہ ہمیں یوم سیاہ اور یوم احتجاج کے سلسلہ کو چھوڑ دینا چاہیے یہ کمزور لوگوں کا کام ہے اور اس سے کچھ بھی نہیں نکلے گا۔ اسلام کی تعلیمات میں سرے سے یہ بات ہے ہی نہیں کہ جہاں ظلم ہے جبر ہے، غنڈہ گردی اور بدمعاشی ہے، قتل عام اور سفاکیت ہے تو آپ احتجاج کا سہارا لیں قرآن وسنت اور صحابہؓ کا عمل ہمیں واضح یہ کہتا ہے کہ اس موقع پر جہاد کا راستہ اختیارکرو: ’’ نکلو خواہ ہلکے ہو یا بوجھل اور جہاد کرو اللہ کی راہ میں اپنے مالوں اور اپنی جانوں کے ساتھ یہ تمہارے لیے بہتر ہے اگر تم جانو‘‘۔ اور جو لوگ ایمان لائے وہ اللہ کی راہ میں لڑتے ہیں اور جنہوں نے کفرکو اختیار کیا وہ طاغوت کے لیے لڑتے ہیں‘‘۔ (القرآن) اب یہ صرف تماشا ہے کہ کافر تو کفرکے لیے لڑتے ہیں اور مسلمانان اسلام فقط زبانی جمع خرچ کریں۔
مسئلہ کشمیر کا ایک ہی واحد حل ہے اس کے سوا کوئی اور راستہ نہیں ہے۔ اس وقت یہ طرفہ تماشا ہے کہ مقبوضہ کشمیر کے لوگ عملاً جہاد کررہے ہیں جنہیں یوم سیاہ منانا چاہیے تھا گوکہ وہ عملاً جدوجہد کررہے ہیں، پتھر سے، نعرے سے، ڈنڈے سے یاپھر پستول، کلاشنکوف یا گرینٹ وغیرہ سے کررہے ہیں چونکہ ان کے پاس یہی میسر ہے اور ہم جو آزاد ہیں، خودمختار ہیں وہ صرف جلوس اور جلسے کررہے ہیں جو اس کاذ کے ساتھ منافقت کے علاوہ کچھ نہیں ہے چاہیے تو یہ تھا کہ ہم جہاد کا راستہ اختیار کریں اور قرآن کے احکامات ہمارے لیے یہی ہیں۔ موجودہ حالات میں درویش افغانیوں نے اسی راستہ کو اپنایا اور دنیا کی بڑی سپرطاقت امریکا اور 42 ناٹوکے ممالک کو شکست دے دی اس پر ہم بھی واہ واہ کرتے ہیں اور افعانوں کی کامیابی کو اپنی کامیابی سمجھتے ہیں واقعی اس دور میں یہ ایک بڑی کامیابی ہے اور یہ اُن لوگوں کو میسر آئی جن کے پاس کلاشنکوف، راکٹ لانچر اور بندوقیں تھیں جبکہ ان کے مدمقابل ہوائی فوج، میزائیل، توپ خانہ اور جدید ترین ٹینک اور سامان حرب موجود تھا لیکن اللہ کے اذن سے یہ نہتے افغانی اس جدید اسلحہ پر غالب آگئے اور امریکا اور اس کے حواریوں کو شکست فاش سے دوچار کیا۔ یہی راستہ ہم اختیار کریں گے تو اللہ تعالیٰ ہمیں بھی کامیابی وفتح سے نوازے گا اور تم ہی غالب رہو گے اگر تم مومن ہو یہ اللہ کا وعدہ ہے۔ باقی رہا یہ احتجاج، جلسے، جلوس، ریلیاں وغیرہ یا بیانات قراردادیں تو ان سے پہلے بھی کچھ نہیں ہوا آئندہ بھی کچھ نہیں ہوگا۔ یہ ایک سہراب ہے اس کے پیچھے وقت ضائع نہ کیا جائے آخر یہ فوج اسی وقت کے لیے تیار کی تھی کہ ایمان، تقویٰ اور جہاد فی سبیل اللہ رکھنے والی فوج اپنے لوگوں کو اور اپنی شہ رگ کو دشمن سے نجات دلائے گی۔ یہ میزائل حتف، غوری، ابدالی، نصر، بابر جن کی تعداد 370 تک پہنچتی ہے ڈیکوریشن کے لیے تو نہیں رکھے ہوئے ہیں کہ ایک طرف ہمارے بھائیوں کا قتل عام ہو، ہماری بہنوں بیٹیوں کی عصمت دری کی جاتی ہو، گھروںکو نذرآتش کیا جارہا ہو، نوجوانوں کی آنکھوں کو اندھا کیا جارہا ہو، ہزاروں لوگوں کو آزادی مانگنے کے جرم میں پابند سلاسل کیا جارہا ہو۔ دوسری طرف ہم زبانی جمع خرچ کرتے ہوں، محض بیانات اور قراردادوں سے آزادی حاصل کریں۔ بھلا ایسے کب آزادی ملا کرتی ہے کہ اب ملے گی۔ لہٰذا وقت ضائع نہ کیا جائے۔ اب یوم سیاہ کی جگہ یوم یلغار کی ضرورت ہے اب کب سپہ سالار پاکستان باجوہ صاحب فوج کو یلغار کا حکم دیں۔ اللہ کرے کہ وہ وقت قریب آجائے کہ جب آخری گولی اور آخری سپاہی کا آغاز پہلی گولی چلا کر اور پہلاسپاہی شہید کرکے ہو۔ اس موقع پر ہم وزیراعظم آزاد کشمیر عبدالقیوم نیازی سے یہ مطالبہ کریں گے کہ وہ 26جنوری یوم سیاہ کے موقع پر عملاً اس بات کا اعلان کریں کہ آزادکشمیر تحریک آزادی کشمیرکا حقیقی بیس کیمپ ہوگا تاکہ آزادی کی جانب پہلا قدم اُٹھایا جاسکے۔
شہادت ہے مطلوب و مقصود مومن
نہ مال غنیمت نہ کشور کشائی