منتشر اپوزیشن کامیاب تحریک نہیں چلاسکتی

472

۔1969ء میں جب جنرل یحییٰ خان کا مارشل لا لگا تو اُس وقت گورنمنٹ ڈگری کالج جیکب آباد میں ہمارا پہلا سال تھا۔ ہم اسلامی جمعیت طلبہ میں شامل ہوچکے تھے۔ جمعیت سے جماعت اسلامی تک کا ہمارا سفر شعوری اور بھرپور رہا۔ 1970ء کے عام انتخابات سے آج 2022ء تک ہم نے پاکستانی سیاست اور قیادت کو بڑے قریب سے دیکھا۔ سیاست اور قیادت پر اگر ہم تبصرہ کرنا چاہئیں تو اِس عنوان سے پوری ایک کتاب لکھی جاسکتی ہے، تاہم ہم یہاں صرف یہ بتانا چاہتے ہیں کہ پاکستان کے بڑے سیاسی اتحادوں اور حکومت مخالف تحریکوں میں چوں کہ براہِ راست شامل رہے، خاص طور پر پاکستان قومی اتحاد (پی این اے) اور اسلامی جمہوری اتحاد (آئی جے آئی) کہ جن کی وجہ سے پاکستانی سیاست میں اہم تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ اِن اتحادوں کی تشکیل، پیش قدمی اور نتائج کا جب جائزہ لیتے اور تجزیہ کرتے ہیں تو ہمیں نظر آتا ہے کہ کسی بھی سول یا فوجی ڈکٹیٹر کو بغیر کسی بڑے سیاسی اتحاد کے اقتدار سے ہٹایا نہیں جاسکتا۔
گوکہ آج تحریک انصاف کی حکومت ایک منتخب حکومت ہے مگر اِس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ جس طرح سے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی حکومتیں منتخب ہونے کے باوجود ناکام اور سویلین ڈکٹیٹر شپ کے زمرے میں آتی ہیں اسی طرح سے تحریک انصاف کی حکومت بھی ایک ’’آمر حکومت‘‘ ہے۔ ڈکٹیٹر شپ کی وضاحت محض یہ نہیں کہ حکمران فوجی وردی میں ہو بلکہ بسا اوقات جب سول حکمران بھی بدترین ڈکٹیٹر ثابت ہورہا ہو تو اُس کو ڈکٹیٹر اور ظالم حکومت کہا جاتا ہے۔ جس کی ایک مثال یہ بھی ہے کہ جب عوم سے کیے گئے وعدے پورے نہ کیے جارہے ہوں۔ عوام میں حکومت کے خلاف سخت نفرت اور ردعمل پایا جارہا ہو مگر پھر بھی ڈکٹیٹر اپنے مینڈیٹ کا سہارا لیتے ہوئے ناکام حکومت کو عوام پر مسلط رکھنا چاہتا ہو۔ حالاں کہ قابل احترام اور مقبول عوام سول حکمران وہ ہوتا ہے کہ جو نہ صرف اپنی حکومت کی ناکامی کا اعتراف کرے بلکہ مہذب انداز میں ازخود اقتدار سے الگ ہوجائے۔ اس طرح کے حکمران جمہوری حکمران کہتے ہیں۔ جمہوریت اور انتخابات درحقیقت عوام کی مرضی اور منشا کی ترجمانی کا نام ہے جس کی حفاظت آئین اور جمہوری روایات کرتی ہیں۔
پاکستان کی معیشت، دفاع اور عوام کی فلاح وبہبود کو جن خطرات اور چیلنجز کا سامنا ہے اُس کی بنیادی وجہ تحریک انصاف کی ناکام حکومت اور وزیراعظم کو نااہلی ہے کہ جو پاکستان کو ایک فلاحی ریاست بنانے میں مسلسل ناکام چلارہے ہیں۔ اس طرح کی صورت حال میں اپوزیشن کا ردعمل ہی ایک ناکام حکومت سے عوام کو نجات دلانے کا سبب بن سکتا ہے تاہم 50 سالہ سیاست جو ہماری آنکھوں کے سامنے سے گزری ہے۔ اس کا جائزہ اور تجزیہ بتاتا ہے کہ کبھی بھی کوئی منتشر اپوزیشن کو بھی ڈکٹیٹر، آمر یا ناکام حکومت سے عوام کو آزاد کرانے میں کامیاب نہ ہوسکی۔ آج پاکستان کی مذہبی اور سیاسی قیادت جس طرح سے تقسیم در تقسیم اور انتشار کا شکار ہے اُس سے ہرگز یہ توقع نہیں رکھی جاسکتی کہ وہ کسی لانگ مارچ یا دھرنے کے ذریعے کوئی مثبت تبدیلی لانے میں کامیاب ہوسکے گی۔ ہم یہاں دیگر ایشوز کو چھوڑ کر اگر محض مہنگائی اور بے روزگاری ہی کو جواز بنالیں تو اس پر بھی صاف معلوم ہوتا ہے کہ اپوزیشن کی تمام جماعتیں ان ایشوز پر متفق ہونے کے بجائے متحد نہیں۔ مذہبی اور سیاسی جماعتوں کا کوئی مشترکہ پلیٹ فارم نہیں۔ ہر ایک الگ الگ پلنٹی کارنر لگانا چاہتا ہے جب کہ انہیں اچھی طرح سے معلوم ہے کہ منتشر اپوزیشن کے لیے حکومت وقت کو برطرف کروانا یا اس سے استعفا لینا ممکن نہیں۔
پاکستان کی موجودہ مذہبی اور سیاسی قیادت پر اگر یہ الزام لگادیا جائے کہ وہ ازخود اپنی کسی داخلی کمزوری یا کسی مخفی ایجنڈے کی وجہ سے پی ٹی آئی حکومت کو گرانے کے حق میں نہیں تو غلط نہ ہوگا۔ قوم کے وسیع تر مفاد کی بات کرنے والے مذہبی اور سیاسی رہنما اگر واقعی مہنگائی اور بے روزگاری سے عوام کو نجات دلانے میں سنجیدہ ہیں تو انہیں مذکورہ ایشوز پر کوئی آل پارٹیز کانفرنس بلانی چاہیے یا یہ کہ ان کی کوئی مشترکہ حکمت عملی اور مشترکہ اعلامیہ سامنے آنا چاہیے مگر ایسا کچھ ہوتا ہوا نظر نہیں آرہا کیوں کہ تمام پارٹیوں کی قیادت اقتدار کے لالچ میں تنہا پرواز کرنا چاہتی ہیں۔ علاوہ ازیں اس صورت حال میں اسٹیبلشمنٹ اور ایجنسیوں کا ذکر بھی ضروری ہے تا ہم یہاں بھی یہ بات صاف الفاظ میں معلوم رہنی چاہیے کہ ایجنسیاں اور اسٹیبلشمنٹ کسی جماعت کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہیں ۔
بلکہ سیاستدان حضرات خود ہی ڈیل کا پیغام بھیجتے اور اشارہ کا انتظار کرتے رہتے ہیں لہٰذا اس طرح کے حالات میں پاکستان کے عوام کو جس اذیت اور تکلیف کا سامنا ہے اس میں مذہبی اور سیاسی قیادت بھی برابر کی شریک ہیں کہ جو حکومت گرانے کے لیے کسی اتحاد کا مظاہرہ نہیں کرتیں۔
ہم آخر میں ایک بار پھر یہ کہنا چاہیں گے کہ منتشر اپوزیشن سے کوئی ایسی ملک گیر تحریک چلائے جانے کا امکان اور اُمید بہت کم ہے کہ جس کے نتیجے میں پاکستان کے عوام ایک ناکام حکومت اور نااہل وزیراعظم کے بوجھ سے آزاد ہوجائیں۔ اللہ پاک پاکستان کی حفاظت اور ہم سب کی مدد و رہنمائی فرمائے۔