ٹیکساس کنیسا ڈراما اور عافیہ صدیقی

654

امریکی ریاست ٹیکساس کے ایک غیر معروف قصبے کالیوِل، جس کی کل آبادی 22 ہزار افراد پر مشتمل ہے، میں واقع ایک چھوٹی سی یہودی عبادت گاہ یا کنیسا میں، جس سے جملہ 157 خاندان وابستہ ہیں اور اس کا بندوبست اصلاح پسند یہودی اتحاد نامی ایک تنظیم چلاتی ہے، ہفتہ 15 جنوری 2022 کی صبح مقامی وقت کے مطابق لگ بھگ 10 بجے یعنی پاکستانی وقت کے مطابق شام 8 بجے بیت اسرائیل نامی اس کنیسا میں معمول کے مطابق یوم السبت کی عبادت شروع ہوئی، اس وقت کنیسا کے اندر کتنے لوگ موجود تھے، اس بارے میں کچھ وثوق سے نہیں کہا جا سکتا، تاہم سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر ان رسوم کی ادائیگی براہ راست نشریات کے ذریعے تقریباً 8 ہزار لوگ دیکھ رہے تھے، کہ قریب 11 بجے ایک نامعلوم مسلح فرد کنیسا میں داخل ہوا، گھر بیٹھے یہ نشریات دیکھنے والوں کے مطابق کنیسا میں نصب کیمروں کی آنکھ سے انہوں نے غیر معمولی حرکات و سکنات دیکھیں اور انہوں نے ایک شخص کو غیر واضح آواز میں بے ربط جملے بولتے سنا، انہوں نے سنا کہ وہ کہہ رہا تھا کہ میں کوئی عادی مجرم نہیں ہوں، عافیہ میری بہن ہے، ایک شاہد نے بتایا کہ اس کا لہجہ متاسفانہ تھا، اور وہ چیخ چلا رہا تھا۔
اس واقع کی اطلاع ملتے ہی امریکی قانون نافذ کرنے والے ادارے حرکت میں آگئے اور مقامی پولیس کی مدد کے لیے انسداد دہشت گردی، خصوصی تربیت یافتہ ریاستی اور وفاقی دستے ہیلی کاپٹرز کے ذریعے جائے وقوعہ پر پہنچائے گئے، تربیت یافتہ مذاکرات کاروں نے یرغمال بنانے والے شخص سے رابطہ کیا، جس سے معلوم ہوا کہ وہ لب لہجہ سے مغربی یارک شائر، انگلستان، برطانیہ کا باشندہ معلوم ہوتا ہے، وہ اکیلا ہے، مسلح ہے، جبکہ ایک ذریعے کے مطابق اس کے پاس دھماکہ خیز مواد بھی ہو سکتا ہے۔ جبکہ یرغمالیوں کی کل تعداد چار ہے، 5 گھنٹے مذاکرات کے بعد ایک یرغمالی کو، جو بیمار تھا، ملزم نے رہا کر دیا، اس دوران ملزم کی فرمائش پر یرغمال یہودی عالم یا رابی نے اس کی بات نیویارک کے ایک کنیسا کے رابی سے بھی کروائی، جس سے بات کرتے ہوئے ملزم نے کہا کہ عافیہ بے گناہ ہے، اسے رہا کیا جائے۔ 5 گھنٹے بعد مقامی وقت کے مطابق رات 9 بج کر 33 منٹ پر تمام یرغمالیوں کو بہ حفاظت زندہ رہا کروا لیا گیا، علاقہ مکینوں نے اس سے قبل زور دار دھماکوں کی آوازیں سنیں، جس سے ان کے مکانات کی کھڑکیوں اور دروازوں کے شیشے لرز گئے، تاہم پولیس کی مطابق یہ دھماکے پولیس نے کیے تھے، بتایا گیا کہ ملزم ہلاک ہو چکا اور اس کی شناخت ملک فیصل اکرم نامی برطانوی شہری کی حیثیت سے کی گئی۔
اب تک سامنے آنے معلومات نے اس واقعہ پر کئی سوالات کھڑے کر دیے ہیں، مثال کے طور پر ملزم کب، کیسے برطانیہ سے امریکا پہنچا، اس نے اسلحہ کہاں سے اور کس نوعیت کا حاصل کیا، ان نے ٹیکساس کے ایک غیر معروف قصبے کے ایک یہودی کنیسا ہی کا انتخاب کیوں کیا، جہاں محض چار افراد ہی موجود تھے، اور وہ نیویارک کے یہودی رابی ہی سے بات کیوں کرنا چاہتا تھا؟ پولیس نے ملزم کی جانب سے کسی مزاحمت یا برآمد ہونے والے ہتھیاروں کی بابت بھی کچھ نہیں بتایا۔ ایک اور بات یہ کہ واقعہ کی اطلاع ملنے کے محض ایک گھنٹے بعد ہی ایک اسرائیلی جریدے یروشلم پوسٹ نے یہ دعویٰ کر دیا کی ملزم عافیہ صدیقی کا بھائی محمد صدیقی ہے، جو بعد ازاں غلط ثابت ہوا، محمد صدیقی سمیت عافیہ کے خاندان اور ان کی امریکا میں وکیل نے واقعے کی مذمت کردی۔ مزید بران سوشل میڈیا پر براہ راست نشر ہونے والی ویڈیو اس واقع کی ابتدا سے تین گھنٹے بعد یعنی گیارہ بجے سے 2 بجے تک بلا روک ٹوک چلتی رہی، اور 2 بجے اسے بند کیا گیا، اور بعد ازاں اس ویڈیو کو سوشل میڈیا پلیٹ فارمز سے مکمل طور پر غائب کر دیا گیا، پولیس کے مطابق انہوں نے یہ ویڈیو دیکھی جس سے آپریشن میں مدد ملی، تاہم قانون نافذ کرنے والے اداروں کے علاوہ ویڈیو دیکھنے کے تقریباً تمام ہی دعویدار یہودی تھے۔ اس واقعے کی تحقیقات میں آگے چل کر کیا موڑ آتے اور اس کے کس کس پر کیا اثرات پڑتے ہیں، یہ کہنا ابھی مشکل ہے، ملزم کو ہلاک کردیا گیا ہے لہٰذا یہ معلوم کرنا ناممکن ہے کہ اس کے عزائم کیا تھے، تاہم اس واقعہ سے جہاں ایک طرف عافیہ صدیقی کا کیس پھر سے عالمی منظر نامے پر اجاگر ہوا ہے، وہیں عافیہ کو دہشت گردی سے جوڑنے، امریکا میں طاقتور یہودی نواز جذبات میں مزید شدت اور مسلمانوں کے خلاف نفرت پیدا کرنے جیسے اہداف بھی حاصل کر لیے گئے ہیں، اس لیے اب تک موصول ہونے والی مصدقہ اطلاعات نے شکوک و شبہات میں اضافہ کیا ہے، اور بادی النظر میں یہ ڈراما کسی بڑی منصوبہ بندی کا نکتہ آغاز یا دہشت گردی کے عفریت کو زندہ رکھ کر امریکی عوام کو یرغمال بنانے کی ایک سازش نظر آتا ہے۔
اس واقعہ سے جڑی عافیہ صدیقی کو کراچی سے اغوا کر کے، بگرام کے امریکی عقوبت خانے میں 6 سال تک حبس بے جا میں رکھنے، راز فاش ہونے پر امریکی اہلکار سے بندوق چھین کر اقدام قتل جیسے لغو اور خود ساختہ الزامات پر بین الاقوامی قوانین کی صریح خلاف ورزی میں ایک پاکستانی شہری کو مبینہ جرم کے جائے وقوع والے ملک سے امریکا لے جا کر ایک کنگارو کورٹ کے ذریعے 86 سال عمر قید کی سزا سنانے تک کی تمام تر سازش، مکر و فریب، پروپیگنڈہ اور مظالم کی یاد تازہ ہو گئی، تاہم امریکی و بین الاقوامی میڈیا نے اس واقعے کے پس منظر میں کل سے جاری کوریج میں کہیں بھی عافیہ کے ساتھ ہونے والی اس ناانصافی اور صریح ظلم کی کوئی جھلک یا فرضی جرم اور بغیر ثبوت اس قدر ظالمانہ سزا پر کوئی سوال نہیں اٹھایا۔ نہ ہی عافیہ کے کراچی سے اغوا کے وقت محض 6 ماہ عمر کے تاحال لاپتا بچے کے حوالے سے کوئی ذکر کیا گیا۔ جس سے امریکی میڈیا کی جانب داری عیاں ہوتی ہے۔
عافیہ کو دہشت گردی سے جوڑنے کی بھونڈی کہانی کا آغاز ان کے سابق شوہر کے بینک اکائونٹ سے پاکستان کے ایک نجی بینک اکائونٹ میں آٹھ ہزار ڈالر کی رقم بھجنے سے ہوتا ہے، پھر 2002 میں ان کے سابق شوہر پر الزام لگتا ہے کہ اس نے رات میں دیکھنے والی دوربین، بلٹ پروف جیکٹ اور کچھ دوسرا سامان خریدا جو دہشت گردی میں استعمال ہو سکتا ہے، سابق شوہر نے ایف بی آئی کو بتایا کہ اس نے یہ آلات شکار کے لیے خریدے، عافیہ کا سابق شوہر تو پاکستان منتقل ہو کر بے فکری سے نجی پریکٹس میں مشغول ہوجاتا ہے، مگر عافیہ صدیقی امریکا کو انتہائی مطلوب دہشت گرد افراد کی فہرست میں شامل پہلی خاتون بن جاتی ہے۔
اس پر دوسرا الزام سال 2001 میں ایک افریقی ملک لائبریا میں 19 ملین ڈالر مالیت ہیروں کے لین دین کے ذریعے القاعدہ کی مالی معاونت کا لگایا گیا، ہیروں کے لین دین میں ملوث خاتون کے بارے میں ابتدائی معلومات میں بتایا جاتا ہے، کہ وہ طویل قامت، سرتا پیر سیاہ برقعے میں لپٹی، نقاب پوش، مضبوط جسم، عرب نژاد لبنانی شہری ہے، جس کا نام فیریل شاہین بتایا جاتا تھا، یہ خاتون جس کی لائبریا میں موجود القاعدہ کے ارکان میں بڑی دہشت تھی، لائبریا کے دارالحکومت منروویا میں امریکی جیل سے پر اسرار طور پر فرار ٹیلر نامی ایک مجرم سے ہیرے خرید کر بلجیم لا کر بیچتی ہے۔ امریکی خفیہ ادارہ سی آئی اے کی جانب سے عافیہ کو انتہائی مطلوب دہشت گردوں کی فہرست میں شامل کر کے ان کے امریکی ڈرائیونگ لائسنس سے اٹھائی ایک غیر واضح تصویر شائع کرنے کے بعد سال 2004 میں تو مبینہ طور پر مفرور امریکی مجرم اور لائبریا میں چوری کے ہیروں کے تاجر ٹیلر کا ایک ملازم اسے پہچان لیتا ہے۔ یوں فیرل شاہین نامی لبنانی کو پاکستانی عافیہ صدیقی سے بدل دیا جاتا۔
ان پر تیسرے الزام کا تعلق ان کے زمانہ طالب علمی میں سال 1990 سے 1992 کے دوران ان کی یونیورسٹی، میساچوسٹس انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی یا ایم آئی ٹی جو امریکی اعلیٰ تعلیمی اداروں میں ایک ممتاز مقام رکھتی ہے، میں مسلمان طلبہ کی غیر سرکاری تنظیم مسلم اسٹوڈنٹس ایسوسی ایشن سے وابستگی کے دور سے ہے، مبینہ طور پر اس تنظیم کے کچھ افراد القاعدہ کے ساتھ ملوث پائے گئے، جن کا 1993 کے ورلڈ ٹریڈ سینٹر دھماکوں میں بھی کردار تھا۔ کہا جاتا ہے کہ عافیہ ان برسوں میں مذہبی اجتماعات میں پیش پیش ہوتی، تقاریر کرتی اور خطوط و جرائد کے ذریعے چندے کی اپیل کرتی، جو کہ غالباً الکفا نامی اس تنظیم کو دیا جا رہا تھا، جس کا امریکا میں مرکز نیویارک میں تھا، جو امریکا میں القاعدہ سرگرمیوں کا محور تھا، تاہم امریکی تحقیقاتی ادارے اس بات کا اعتراف کرتے ہیں عافیہ کی کسی آڈیو، ویڈیو ریکارڈنگ یا تحریر میں کسی پْرتشدد کارروائی کا کوئی ثبوت نہیں ملتا۔ زیادہ تر دینی حوالے اور فلسطین، بوسنیا یا افغانستان کے مسلمانوں کی مدد کے لیے کہا یا لکھا گیا۔
یہ ہیں وہ الزامات اور شواہد جن کی بنا پر ایک انتہائی ذہین، غیر معمولی صلاحیت کی مالک اور شاندار تعلیمی ریکارڈ کی حامل پاکستان کی بیٹی عافیہ صدیقی کو انتہائی مطلوب اور خطرناک دہشت گردوں کی فہرست میں شامل کیا گیا۔ 7 جولائی 2008 کو افغانستان میں افغانستان کے دورے کے بعد، نو مسلم برطانوی صحافی، یوان رڈلے نے انکشاف کیا کہ بگرام کے امریکی عقوبت خانے میں موجود آہ و فغاں کرنے والی خاتون قیدی نمبر 650 دراصل لاپتا عافیہ ہے۔
امریکی حکام نے چار دن بعد اس کی تردید کی، مگر پھر 31 جولائی کو امریکا میں مقیم عافیہ کے بھائی محمد صدیقی کو اطلاع دی گئی کہ عافیہ ہماری حراست میں ہے۔ چار اگست 2008 کو اس کی افغانستان میں باقاعدہ گرفتاری ظاہر کی گئی، اگلے دن اسے گولی مار کر کہانی بنائی گئی کہ وہ امریکی اہلکار سے بندوق چھین رہی تھی، اور اسی جرم ناکردہ کی پاداش میں اسے امریکا منتقل کیا گیا، جہاں دو سال بعد 2010 میں اسے ایک امریکی جج نے 86 برس قید کی سزا سنا دی، جہاں وہ آج تک قید کی صعوبتیں اٹھا رہی ہیں، عافیہ کے اغوا سے آج دن تک، عافیہ، اس کے خاندان اور بچوں پر جو کچھ بیتا وہ انتہائی اندوہ ناک ہے، اور اس قصے کے ہر موڑ پر آزادی، جمہوریت اور انسانی حقوق کے عالمی ٹھیکیدار امریکا کے مکر و فریب، ظلم و جبر، جنگی جرائم، حقوق انسانی کی پامالی اور عالمی قوانین کی صریح خلاف ورزی کی ایک داستان رقم ہے۔ استقامت کو تیری سلام عافیہ۔