خیبر پختون خوا سے پی ٹی آئی کی پسپائی

535

۔19 دسمبر کو خیبر پختون خوا کے سترہ اضلاع میں پہلے مرحلے کے تحت ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں صوبے میں پچھلے آٹھ سال سے برسر اقتدار پاکستان تحریک انصاف کو عبرت ناک شکست کے نتیجے میں پہنچنے والے دھچکے کو جہاں خیبر پختون خوا سے پی ٹی آئی کی پسپائی کے آغاز سے تعبیر کیا جا رہا ہے وہاں اس اچانک اور غیر متوقع دھماکے کی باز گشت وزیر اعظم عمران خان اور پارٹی کی دیگر مرکزی قیادت کو بھی پریشان کیے ہوئے ہے۔ یہ شاید خیبر پختون خوا میں پی ٹی آئی کو گزشتہ پہلے مرحلے کے بلدیاتی انتخابات میں پہنچنے والے سیاسی دھچکے کی وجہ ہے کہ وزیر اعظم عمران خان یہ نتائج سامنے آنے کے بعد اگر ایک طرف اس شکست کے اسباب معلوم کرنے کے لیے ایک اعلیٰ سطحی کمیٹی تشکیل دینے کا اعلان کیا تو دوسری جانب جب وہ گزشتہ روزپشاور تشریف لائے تو ماضی کے برعکس انہیں گورنر اور وزیر اعلیٰ کے علاوہ صوبائی وزراء، ارکان پارلیمنٹ اور پارٹی کے دیگر عہدیدارن کے ساتھ بھی طویل نشست کرنا پڑی۔ ان ملاقاتوں جن کو بظاہر تو پارٹی کا اندرونی معاملہ قرار دیکر خفیہ رکھا جا رہا ہے لیکن باوثوق ذرائع کا دعویٰ ہے کہ عمران خان خیبر پختون خوا میں پارٹی کی حالیہ شکست پر کچھ زیادہ ہی پریشان اور جھنجھلاہٹ کے شکار نظر آئے۔
عمران خان کے حالیہ دورہ ٔ پشاور کے موقع پر گورنر اور وزیر اعلیٰ سمیت دیگر صوبائی وزراء اور پارٹی عہدیداران سے ہونے والی ملاقاتوں میں حال ہی میں پارٹی کے صوبائی صدر مقرر کیے جانے والے سابق وزیر اعلیٰ اور موجودہ وزیر دفاع پرویز خٹک کی عدم موجودگی کو نہ صرف ہر سطح پر محسوس کیا گیا بلکہ بعض حلقے ان کی غیر موجودگی کے تانے بانے ان کی جانب سے گزشتہ دنوں پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں وزیر اعظم عمران خان کے ساتھ ہونے والے تندو تیز گفتگو اور اس کے نتیجے میں پارٹی میں پائی جانے والی بے چینی اور مسلم لیگ (ن) سے مقتدر حلقوں کی ہونی والی مبینہ ملاقاتوں اور مستقبل قریب میں پارلیمنٹ کے اندر کسی ممکنہ تبدیلی کے افواہوں کا شاخسانہ بھی قرار دیا جا رہا ہے۔ یہاں اس امر کی وضاحت بھی خالی از دلچسپی نہیں ہوگی کہ پی ٹی آئی کی صفوں میں موجود اکثر وفاقی وزراء اور ارکان قومی اسمبلی کو بلاشک وشبہ سیاسی خانہ بدوشوں کے القابات سے نوازا جاتا رہا ہے اور اس تلخ حقیقت پر کبھی کسی کا کوئی بڑا اعتراض بھی سامنے نہیں آیا۔ ان شخصیات میں دوسروں سے قطع نظرایک بڑا نام خود وفاقی وزیر دفاع پرویز خٹک کا ہے جو ماضی میں اپنی سیاسی وفاداریاں تبدیل کرنے اور ہوا کا رُخ دیکھ کر اپنے سیاسی فیصلے کرنے کے حوالے سے کافی مشہور ہیں، آزاد حیثیت میں ضلع کونسل کی نشست سے اپنا سیاسی سفرشروع کرنے والے پرویز خٹک پچھلی دو دہائیوں سے پیپلزپارٹی، اے این پی اور شیرپائو گروپ سے ہوتے ہوئے پی ٹی آئی تک کا سفر طے کر چکے ہیں۔ متعدد مرتبہ صوبائی وزیر رہنے کے علاوہ وہ نہ صرف صوبے کے وزیر اعلیٰ رہ چکے ہیں بلکہ آجکل وفاقی وزیر کے حیثیت سے بھی دیگر تمام وزراء کی نسبت سیاسی طور پر سب سے زیادہ فعال اور سرگرم نظر آتے ہیں شاید یہی وجہ ہے کہ پی ٹی آئی کی حکومت پر جب اس کی اتحادی جماعتوں یا اپوزیشن کی جانب سے جب بھی کوئی کڑا وقت آتاہے تو ایسے ہر موقع پر مشاورت اور صلح کے لیے وزیر اعظم عمران خان کی نگاہ انتخاب پرویز خٹک پر ہی پڑتی رہی ہے جس کی وجہ ان کی تمام سیاسی جماعتوں کے ساتھ قریبی رابطہ ہونے کے علاوہ سیاسی سوجھ بوجھ اور جوڑ توڑ کی شہرت رکھتے ہیں۔
یہاں یہ بتانا بھی خالی از دلچسپی نہ ہوگا کہ پرویز خٹک نے 2013 اور 2018 کے عام انتخابات میں خیبر پختون خوا میں پارٹی کی تاریخی کامیابی میں جو کردار ادا کیا تھا اس کی بنیاد پر وہ 2018 میں بھی وزارت اعلیٰ کے مضبوط امید وار اور خواہش مند تھے لیکن وفاق میں پارٹی نمبرز کی کمی کے پیش نظر انہیں ان کے خواہش کے بر عکس وفاق بھیج دیا گیا تھا جس پر وہ کافی ملول تھے اور بعد ازاں ان ہی کی سفارش پر محمود خان کو وزارت اعلیٰ کے ہارٹ فیورٹ اور عمران خان کے قریب سمجھے جانے والے عاطف خان کو نظر انداز کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ مقرر کیا گیا تھا۔ اسی طرح اب جب پارٹی پر دوبارہ کڑا وقت آیا ہے تو صوبے میں دوسرے مرحلے کے بلدیاتی انتخابات میں پارٹی کی گری ہوئی سیاسی ساکھ کی بحالی کے لیے پارٹی قائد عمران خان کی نظر التفات پرویز خٹک پر پڑی ہے لیکن گزشتہ دنوں پارٹی کے پارلیمانی اجلاس میں پرویز خٹک اور عمران خان کے درمیان تلخ کلامی کی جو اطلاعات منظر عام پر آئی ہیں اور پی ٹی آئی کی عوامی حمایت کے ساتھ ساتھ مقتدر حلقوں کی سرپرستی سے محرومی کا جو تاثر ابھر رہا ہے اس کو مد نظر رکھتے ہوئے لگتا ہے کہ آنے والے دن پی ٹی آئی کے لیے مزید مشکلات اور شاید مزید سیاسی ابتری کا باعث ثابت ہوں گے۔
پی ٹی آئی کی سیاسی پسپائی پر بات کرتے ہوئے ہمیں جہاں صوبے میں ہونے والے بعض ضمنی انتخابات کے غیر متوقع نتائج کو نہیں بھولنا چاہیے وہاں 19 دسمبر کو سترہ اضلاع میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں پشاور سمیت وسطی اضلاع سے پی ٹی آئی کا جس بڑے پیمانے پر صفایا ہوا ہے وہ خود پی ٹی آئی کے سیاسی مستقبل پر ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔ واضح رہے کہ ان انتخابات میں پی ٹی آئی کو اگر ایک طرف صوبے کی 45 تحصیلوں میں شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے تو دوسر ی جانب پشاور، مردان اور چارسدہ جہاں سے 2018 کے انتخابات میں پی ٹی آئی نے تقریباً کلین سویپ کیا تھا وہاں بھی اسے شدید ہزیمت سے دوچار ہونا پڑا ہے جس کی نمایاں مثال پشاور کی چھے تحصیلوں میں صرف ایک حسن خیل تحصیل پراس کی کامیابی ہے جبکہ بقیہ پانچ تحصیلوں میں سے ایک چمکنی تحصیل پر اے این پی کے امید وار نے کامیابی حاصل کی ہے جب کہ باقی چار تحصیلوں پر جمعیت (ف) کے امیدواران نے واضح اکثریت سے کامیابی حاصل کی ہے۔ اسی طرح پشاور شہر کے میئرکی نشست پر بھی پی ٹی آئی کو شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
گزشتہ بلدیاتی انتخابات کے نتائج کا اگر جماعتی بنیادوں پر جائزہ لیا جائے تو یہ انتخابات ایک طرف پی ٹی آئی کے لیے سیاسی رسوائی کا باعث بنے ہیں تو دوسری جانب جمعیت علماء اسلام (ف) نے غیر متوقع طور پر نمایاں کامیابی سمیٹ کر پہلی پوزیشن حاصل کی ہے۔ دوسرے مرحلے کے انتخابی نتائج سب سے زیادہ جہاں پیپلز پارٹی کے لیے دھچکے کا باعث بنے ہیں وہاں 2002 اور 2008 کے انتخابات میں بہترین نتائج کے ساتھ خیبر پختون خوا کی سیاست میں حیران کن انٹری دینے والی قومی وطن پارٹی کے لیے بھی انتہائی مایوسی کن رہے ہیں لہٰذا اس پس منظر کے ساتھ آنے والے بلدیاتی انتخابات کے دوسرے مرحلے جو مارچ کے آخری ہفتے میں متوقع ہیں حتیٰ کہ آئندہ عام نتخابات بھی حکمران پی ٹی آئی سمیت جماعت اسلامی، پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ن) اور قومی وطن پارٹی کے لیے ایک بڑا چیلنج ثابت ہوں گے۔