حکومت وزرات محنت اور مزدور یونینز لیبر قوانین پر عدم عملدرآمد کی ذمہ دار ہیں

334

(رپورٹ: قاضی سراج) اداروں میں کام کرنے والے ملازمین کے لیے لیبر قوانین بنے ہوئے ہیں۔ لیبر قوانین کا اہم نکتہ تقررنامہ ہے لیکن مالکان تقررنامے دیتے ہی نہیں جس کی وجہ سے وہ قانونی حقوق سے محروم رہتے ہیں۔ اسی وجہ سے وہ سوشل سیکورٹی اور EOBI میں رجسٹرڈ ہونے سے محروم ہوجاتے ہیں۔ لیبر قوانین پر عملدرآمد کے اولین ذمہ محکمہ محنت کے لیبر انسپکٹر ہوتے ہیں۔ لفافہ پکڑ کر سب اچھا کی رپورٹ اعلیٰ حکام کو پیش کردیتے ہیں۔ اس سلسلے میں جسارت نے مزدور رہنمائوں سے سروے کیا تو پاکستان اسٹاک ایکسچینج ایمپلائز یونین کے جنرل سیکرٹری شاہد منشی نے کہا کہ لیبر قوانین پر عمل درآمد کراناحکومت کا کام ہے لیکن حکومت نے ہمیشہ لیبر یونینز پر پابندی لگاوانے میں پیش پیش ہوتی ہیں۔ لیبر یونین اگر نہ ہوں تو کوئی ایسا راستہ نہیں ہے جو ان مزدوروں کو ان کے حقوق دلاسکے۔ میں جسارت اخبار کو خراج تحسین پیش کرتا ہوکہ وہ مزدوروں کی پشت پناہی کرتا ہے اور ہمیشہ مزدور یونین اور ان کی سرگرمیوں کو اجاگر کرتا ہے ۔انہوں نے کہا کہ لیبر قوانین پر عمل نہ ہونے سے مزدوروں کا ستحصال ہوتا ہے‘بیروزگاری بڑھتی ہے جس سے مزدور کی حالت مزید ابتر ہوتی جارہی ہے۔شاہین ائرپورٹ سروسز ہارڈ ورکرز یونین کے جنرل سیکرٹری فیض محمد نے کہا کہ فیکٹریوں میں لیبر قوانین پر عملدرآمد نہ ہونے کے ذمہ دار سب سے پہلے حکومت اور پھر ٹریڈ یونین اور آخر میں مالکان ہیں محکمہ محنت کے اہلکاروں کوجاکر کے دیکھنا چاہیے کہ فیکٹریوں میں لیبر قوانین پر عملدرآمد ہورہا ہے یا نہیں، سندھ گورنمنٹ نے کم از کم 25 ہزار روپے تنخواہیں دینے کا نوٹس جاری کیا ہے مگر افسوس کی بات ہے کہ ابھی تک اس پر عملدرآمد نہیں کرایاجاسکا۔ وفاقی حکومت نے اعلان کیا ہے کہ جس کی تنخواہ 50 ہزار سے کم ہے ان کو ایک ہزار روپے رعایت پرراشن دیاجائیگا‘یہ الفاظ سن کر بہت ہنسا بھی کہ ادھر کسی کو 15 ہزار روپے تنخواہیں نہیں مل رہی ہیں گورنمنٹ کو اس بات پر بھی سروے کروانا چاہیے، لیبر کورٹ سے مزدور کے حق میں فیصلے اور ڈگری بھی مل جاتی ہے مگر عملدرآمد نہیں ہوتا ہے ۔ انصاف محنت کش یونین کے جنرل سیکرٹری غلام مرتضیٰ تنولی نے کہا کہ سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ہمارے لیبر قوانین تو بن جاتے ہیں لیکن اس پر لیبر کے ادارے عملدرآمد نہیں کراتے ہیں، رخانوں کے ملازمین کو تقرر نامہ نہیں دیا جاتا ہے جو یہ لیبر قوانین کی خلاف ورزی ہے۔ لیبر قوانین پر عملدرآمد کروانے کی لیبر فیڈریشنوں اور ٹریڈ یونینوں کے عہدیداران کی ہے چند فیڈریشنوں اور ٹریڈ یونینوں کے کردار بہت اچھے نظر آتے ہیں اور کچھ ٹریڈ یونینز ایسی ہیں کہ رجسٹرڈ تو ہیں لیکن سرمایہ داروں اور لیبر کے اداروں کے اشارے پر کام کرتی ہیں۔ مالکان کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ مزدور کو ای او بی آئی اور سوشل سیکورٹی میں رجسٹر کرائے لیکن وہاں پر تھرڈ پارٹی اور آئوٹ سورس کا مسئلہ آجاتا ہے اور اس طرح مزدوروں کو ان کے بنیادی حقوق نہیں مل پاتے ہیں۔ کراچی انٹرنیشنل کنٹینر ٹرمینل سی سی بی اے کے جنرل سیکرٹری رضوان علی نے کہا کہ قوانین نافذ کرنے والے ذمہ دار ہیں کہ لیبر قوانین پر عمل درآمد کروایا جائے اور جو لیبر فیڈریشنز ہیں ان کو چاہیے کہ لیبر قوانین کو نافد کرائیں جب لیبر قوانین پر عمل نہیں ہوتا ہے تو مزدور معاشی پریشانیوں سے دوچار ہوتا ہے۔محنت کش اسٹار یونین کورنگی انڈسٹریل ایریا کے جنرل سیکرٹری احمد حسن نے کہا کہ لیبر قوانین بنے ہوئے ہیں اس سے مزدوروں کو کچھ فائدہ نہیں ہے اور یہ جو حکومت سندھ کالا قانون پاس کیا ہے اس سے مزدوروں اور عوام کو کچھ بھی فائدہ نہیں ، 25 ہزار روپے تنخواہ پر ابھی تک عمل درآمد نہیں ہورہا ہے اور سرمایہ داروں نے اس بل کو بھی عدالت عظمیٰ میں چیلنج کردیا ہے۔نیشنل لیبر فیڈریشن لانڈھی کورنگی کے جنرل سیکرٹری شہادت علی نے کہا کہ جو لیبر سے متعلق ادارے ہیں ان کو ہمارے مسائل کو حل کرنے میں مزدوروں کی مدد کرنا چاہیے، حکومت محکمہ لیبر کے ملازمین کو تنخواہیں دیتی ہے وہ ہمارے کام کرنے کے لیے دیتی ہے لیکن یہ لوگ مزدوروں کے لیے کام نہیں کرتے ہیں انہوں نے کہا کہ لیبر ڈیپارٹمنٹ کو فعال کیا جائے۔ٹرائی پیک یونین سی بی سی کے صدر نیاز حسین نے کہا کہ لیبر قانون ہر جگہ بنے ہوئے ہیں لیکن ان پر عمل درآمد کہیں نظر نہیں آتا۔ محکمہ لیبر کو کارخانوں، آفسوں، فیکٹریوں میں جاکر لیبر قوانین کا نفاذ کرائے ‘ آج پاکستان کا وزیراعظم نعرہ لگاتا ہے مزدوروں کو نوکریوں کااور حقوق کا لیکن مزدور منسٹری کے پاس جاتا ہے تو منسٹری اس کو بلیک میل کرتی ہے جس کہ باعث مزدور خاموش ہوجاتا ہے، جب تک مزدور ہیں تو یہ سرمایہ دار ہیں، یہ سرمایہ دار ہیں تو یہ انڈسٹری ہیں اور اگر انڈسٹری نہیں ہے تو محکمہ لیبر کچھ نہیں ہے۔ آل کراچی ہوزری گارمنٹس لیبر یونین اتحاد یونین کے ایک مزدور رہنما ذکی الدین نے کہا کہ جو لیبر قوانین موجود ہیں اور ان پر عملدرآمد نہیں ہوتا ہے تو مزدوروں کو متحد ہونا پڑے گا، بہت بڑی طاقت بن کر مزدوروں کو سامنے آنا پڑے گا، پھر امید ہے کہ لیبر قوانین پر عملدرآمد ، کراچی میں بہت بڑا مافیا ہے جو مزدوروں کا استحصال کررہا ہے۔زین پیکیجنگ CBA یونین کے رہنما شیر زمان خان نے کہا کہ لیبر قوانین پر عملدرآمد نہیں ہونے سے مزدور طبقہ کو بہت معاشی نقصان ہورہا ہے۔ حکومت سندھ کی ذمہ داری ہے کہ لیبر قوانین پر عملدرآمد کرائے۔ نیشنل لیبر فیڈریشن پاکستان اور جماعت اسلامی مزدوروں کے حقوق دلوانے میں تحریک کو تیز کریں اور ہم ان کے ساتھ ہیں۔ لانڈھی کے محنت کش سعید الرحمان قریشی نے کہا کہ کہ کالے قانون کے ذریعہ کراچی کے بلدیاتی اداروں پر قبضہ کیا گیا ہے، جعلی اور کالے بلدیاتی قانون کو مسترد کرتے ہیں، وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ بلدیات کے اس کالے قانون کو فوری طور پر واپس لیں، اور جب تک اس کالے قانون کو واپس نہیں لیا جائے گا ہمارا دھرنا جاری رہے گا، اور انہوں نے کہا کہ روٹی کپڑا اور مکان کا نعرہ لگانے والے اب غریبوں سے ان کی چھت بھی چھین لینا چاہتے ہیں۔ہم صرف بلدیاتی اداروں کے اختیارات کی بحالی چاہتے ہیں۔پاکستان اسٹیل ریٹائرڈ ایمپلائز یونٹی کے انفارمیشن سیکرٹری شیخ محمد ہاشم نے کہا کہ مزدور قوانین کی عملدرآمد نہ ہونے کے ذمہ وہی ہیں جنہوں نے دور آمریت میں مزدورتحریک کو کچلا جس کے نتیجے میں مزدور تحریک کو بہت جھٹکا لگا آج مزدور کی آواز ایک فیصد سے بھی کم رہ گئی ہے۔میکٹر انٹرنیشنل لمیٹڈ کے جنرل منیجر ایڈمن اینڈ صنعتی تعلقات خالد انور نے کہا کہ لیبر قوانین پر عمل درآمد کی ذمہ داری جتنی فیکٹری مالکان پر عائد ہوتی ہے اتنی ہی ذمہ داری لیبر انسپکٹرز جو کہ عوام کے ٹیکس سے تنخواہ لیتے ہیں ان پر بھی عائد ہوتی ہے ‘اکثر مل مالکان مزدوروں کا نہ صرف خیال رکھتے ہیں بلکہ ان کو اپنی فیملی کا حصہ سمجھتے ہیں اور نہ صرف وہ لیبر قوانین سے زیادہ سہولیات مہیا کرتے ہیں مثال کے طور پر پر حج کرانا بچوں کی پڑھائی کا خرچہ اٹھانا بیماری میں ان کے گھر والوں کا خیال رکھنا اور دیگر مراعات۔ مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس معاشرے میں ایسے بھی موجود ہیں جو لیبر ڈیپارٹمنٹ کے ساتھ گٹھ جوڑ کرکے لیبر قوانین کی دھجیاں اڑا تے ہیں جبکہ چند ایک لیبر نمائندے اور یونینز کے نام نہاد رکھوالے نہ صرف لیبر کو بلکہ کمپنی مالکان کو بھی بلیک میل کرتے ہیں جس کا کا زیادہ تر نقصان غریب مزدور ہی کا ہوتا ہے ۔