مزدور مسائل اور ان کا حل

370

مزدور تو جناب مجبور ہوتا ہے محنت کش سے مستفید ہونے والوں میں ڈاکٹر ،وکیل ،جج اور ہمارے بڑے بڑے سیاست دان بھی شامل ہیں۔ جن کے گھروں، کار خانوں، صنعتوں اور کھیتوں میں یہ مزدور اپنے خون پسینہ بہا رہے ہیں۔ اگر اب فریق سرکار کی بات کریں تو وہ محنت کشوں کے دکھوں میں اضافے کی سب سے زیادہ ذمہ دار ہے۔افسوس سے کہنا پڑرہا ہے کہ پاکستان میں کسی بھی آمرانہ یاجمہوری حکومت نے اس مسئلہ کو سنجیدہ نہیں لیا بلکہ ہر دور میں بڑھتے ہوئے مہنگائی کے سیلاب اورحکومت وقت کی غریب کش پالیسیوں نے عام آدمی سے جینے کا حق ہی چھینا ہے۔آج ملک میں غربت کا یہ حال ہے کہ پاکستان میں غربت کی شرح چالیس فی صدہے اب جو محنت کش طبقہ اپنے بچوں کو دو وقت کی روٹی تک نہیں کھلا سکتے وہ کیسے اْن کو زیور تعلیم سے آراستہ کریں۔ درحقیقت ہماری حکومتوں کی ناکام معاشی پالیسیوں سے غربت میں جو اضافہ ہوا ہے وہ ہی محنت کشوں کے حقوق کے حصول میں بڑی وجہ ہے۔ اْلٹاہر سال یکم مئی کو
سرکاری سطح پر لیبر ڈے منایا جاتا ہے۔ حکومت لیبر کے حوالے سے زمینی حقائق سے ہٹ کر میڈیا میں اشتہارات دیتی اور سیمینار منعقد کرواتی ہے۔مگر یہ حکومتی اقدامات لیبر کے حقوق کی آواز کے لیے نہیں بلکہ ایک نمائش اور انٹرنیشنل لیول پرچند ایک تنظیموں کو دکھانے کے لیے کرتی ہے۔سرکاری سطح پر منایا جانے والا یہ دن حکومت وقت اورآنے والے حکومت کی سنجیدگی کا منتظر ہوتاہے۔حکومت کی جانب سے لیبر کے لیے اشتہارات، سیمینار،چند کے چھاپے یا ریلیاں ہر گز محنت کشوں کے مسائل کو ختم کرنے میں کارگر ثابت نہیں ہوں
گے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ ریلیاں اور سیمینار مزدوروں میں شعور پیدا کرنے کیلئے منعقد کیے جاتے ہیں کیالوگوں میں شعور آنے سے کبھی مزدور کے دکھ کم ہو سکے گی۔کیا لوگوں میں شعور آجانے سے ان کی معاشی قوت بڑھ جائے گی کہ جس سے وہ اپنا گھر کا دو وقت چولہابھی جلائیں گے اور بچوں کی اچھی تعلیم و تربیت بھی کریں گے یقینا نہیں۔ میری حکومت وقت سے گزارش ہے لیبر قوانین پر عملدرآمد کے لیے عملی اقدامات اْٹھائے جائیں۔ ایسے سو سال تک بھی دن مناتے رہیں تو بھی محنت کشوں کے دکھوں کا خاتمہ نہیں ہو گا۔ اس ناسور کا خاتمہ صرف تب ہو گا جب ملک میں مہنگائی اور غربت کی شرح کم ہوگی اور ہمارا مزدور معاشی طور پر مضبوط ہوگا تو ملک خوشحال ہوگا۔