’’تحریک انصاف‘‘ کی حکومت کے گزرے ہوئے تین سال عوام کے لیے کوئی خوش خبری نہیں لائے بلکہ ان تین برسوں میں عمران حکومت نحوست، نفرت اور غربت کو پھیلانے کے علاوہ کوئی تعمیری کام اور مثبت پیش رفت نہ کرسکی۔ غلط فیصلے اور ناکام پالیسیاں تحریک انصاف حکومت کی علامت بن گئے، جو بھی حکمران عوام کے بنیادی مسائل جن میں روٹی، کپڑا اور مکان شامل ہیں حل کرنے میں ناکام ہو، روزگار فراہم کرنے کے بجائے لوگوں کو مزید بے روزگار کرنے کے درپے ہو، مہنگائی کم کرنے کے بجائے انتہائی بے شرمی کے ساتھ یہ کہتا ہو کہ اگلے سال مہنگائی پر کنٹرول ہوجائے گی اور مزید یہ کہ دنیا بھر میں مہنگائی بڑھنے کے حوالے دے کر اپنے عوام کو مایوس اور شرمندہ کرنے کی کوشش کرتا ہو ایسے حکمران کے لیے میانوالی جیل یا جلاوطن ہونا مقدر ہے۔
’’عمران حکومت‘‘ کی گرفت کس قدر کمزور ہے اس کی ایک مثال ’’سانحہ مری‘‘ ہے کہ جس میں اب تک کی اطلاعات کے مطابق 22 افراد کو جن میں معصوم بچے اور خواتین بھی شامل تھیں جاں بحق ہوچکے ہیں جبکہ ہزاروں لوگ اس سانحے کی اذیت سے براہ راست متاثر ہوئے ہیں۔ برف باری، بارش یا زلزلہ وغیرہ میں شدت آنا یقینا قدرتی آفات اور عذاب ہیں جن پر کسی حاکم یا حکمران کا بس نہیں چلتا تاہم جو بات حکومت کے کرنے کی تھی اور جو اس کی بنیادی ذمے داریوں میں شامل تھی وہ یہ تھی کہ محکمہ موسمیات کی پیشگی اطلاع کہ 31 دسمبر اور 5 جنوری کو شدید برف باری کا امکان ہے جبکہ 6 سے 9 جنوری کے درمیان مری کی سڑکیں برف باری سے بند ہوجائے گی اطلاع بھی دی جاچکی تھی اور مزید یہ کہ ان تمام اطلاعات سے وزیراعظم آفس کو بھی آگاہ کردیا گیا تھا مگر اس کے باوجود وزیراعظم عمران خان اور ان کے درباری وزرا مری میں موجود افراد کو درپیش موسمی خطرات سے بچانے کے لیے کوئی انتظام کیوں نہ کرسکے؟ برفانی طوفان آنے سے پہلے کی خبریں انتہائی افسوسناک ہیں کہ کس طرح سے ہوٹلوں کے کمرے اور انڈہ وغیرہ مہنگے کردیے گئے تھے۔ برفانی طوفان میں پھنسے افراد کو ہوٹل ملازمین نے واش روم تک استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی، حقیقت یہ ہے کہ جن ہوٹل مالکان اور دیگر دکان داروں نے بے بس اور مصیبت زدہ لوگوں کی مدد کرنے کے بجائے ان کو لوٹنے کی کوشش کی ہے ایسے بے ضمیر اور بے غیرت لوگوں پر ’’ایف آئی آر‘‘ درج ہونی چاہیے۔ خبریں یہ بھی ہیں کہ ہزاروں شہریوں کے طوفان میں پھنس جانے کے بعد حکومت اور اس کی انتظامیہ صبح 8بجے ایکشن میں آئے اور ریسکیو شروع کیا گیا۔
سیلاب، طوفان اور دیگر قدرتی آفات سے نمٹنے کے لیے ہر حکومت کے پاس پلان اور انتظام ہوتا ہے جس طرح سے ایک دکان کو آگ سے بچانے کے لیے فائر بریگیڈ موجود ہوتا ہے تو اسی طرح سے ایسے علاقے کے جہاں برف باری زیادہ ہوتی ہو وہاں شہریوں اور سیاحوں کو ممکنہ جانی نقصان سے بچانے کے لیے انتظامات کیوں نہیں تھے؟ وزیراعظم عمران خان کہتے ہیں کہ اس سانحہ کی تحقیقات ہوگی۔ وزیراعلیٰ پنجاب بزدار مری کو ضلع بنانے، سڑکوں کے لیے فنڈز دینے، پارکنگ پلازہ اور دو پولیس تھانے دینے سمیت لواحقین کو 8، 8 لاکھ روپے دینے کے اعلانات کررہے ہیں، مگر سوال یہ ہے کہ اگر کوئی بے اختیار شخص یا اپوزیشن لیڈر اس طرح کی باتیں کرے تو وہ تو سمجھ میں آتا ہے لیکن جن کے پاس اقتدار اور اختیار تھا، خزانے اور وسائل کے مالک تھے، انتظامیہ پر ان کا مکمل کنٹرول تھا، فوج اور دیگر ادارے بھی ان کے ہاتھ میں تھے تو اس طرح کی قوت اور وسائل رکھنے کے باوجود ’’سانحہ مری‘‘ سے بچنے کے انتظامات پہلے سے کیوں نہیں کرلیے گئے تھے، جو آج کیے جارہے ہیں؟؟ وزیراعظم عمران خان کی ناک کے سامنے جس طرح سے مری میں حکومت اور انتظامیہ ناکام ہوئے ہیں اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ پورے ملک میں حکومت کی کارکردگی اور رٹ کیا ہوگی؟
حقیقت یہ ہے کہ وزیراعظم عمران عوام کی اعتماد کھوچکے ہیں، لوگ ان سے محبت کے بجائے نفرت کرتے ہیں لہٰذا بہتر یہ ہوگا کہ خان صاحب عوام کی نفرت کو مزید بڑھانے اور بھڑکانے کے بجائے ازخود مستعفی ہوکر عوام کی نظروں سے اوجھل ہوجائیں بصورت دیگر آنے والے دن خان صاحب کو انتہائی مشکل سے دوچار کرسکتے ہیں۔ اللہ پاک ہم سب کی مدد و رہنمائی فرمائے۔ سانحہ مری میں جاں بحق ہونے والوں کی مغفرت فرمائے اور ان کے لواحقین کو صبر و جمیل عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین۔