سانحہ مری: تجزیہ و تجاویز

1014

سانحہ مری کا ہر پہلو المناک، درد ناک، کربناک اور ناقص انتظامات و ظالمانہ رویوں کی وجہ سے شرمناک ہے۔ کتنا بڑا انسانی المیہ ہے کہ تفریحی وسیاحتی مقاصد کے لیے نکلے ہوئے خاندانوں کے لیے ان کی اپنی گاڑیاں میت گاڑیاں بن گئیں۔ کتنے دکھ بھرے وہ مناظر ہوںگے کہ جب پانچ پانچ سات سات جنازے اکٹھے اٹھے ہوں گے، پورا ملک ابھی تک صدمے کی شدید کیفیت سے نکل نہیں سکا۔
حکومتی نااہلی، ناکافی اور ناقص انتظامات، ریسکیو، ریلیف میں غیر معمولی تاخیر کے معاملات اور مستقبل کے لیے تجاویز سے پہلے مجھے اس غیر انسانی، غیر اخلاقی، غیر اسلامی رویے کی مذمت اور تذکرہ کرنا ہے جس کا مظاہرہ ہوٹل والوں، دکانداروں اور اوباش صفت نوجوانوں نے کیا لیکن انہیں اہل مری نہ کہا جائے، کہ مری کے عام شہریوں، الخدمت فائونڈیشن، جماعت اسلامی دیگر دینی جماعتوں کے کارکنان نے مصیبت زدگان کے ساتھ بھرپور تعاون کیا۔ لوگوں نے اپنے گھر کھول دیے ان کے لیے کھانے تیار کیے۔ ان کی ہر ممکنہ معاونت کی۔ جماعت اسلامی نے دختران اسلام اکیڈمی بانسرہ گلی مری میں ریسکیو سینٹر قائم کیا۔ مختلف مقامات پر ریلیف سینٹرز قائم کیے، اسی طرح مدرسہ عربیہ سنی بینک نے متاثرہ افراد کے قیام و طعام کا اہتمام کیا۔ اہل بانسرہ گلی، چٹا موڑ، سموٹ دیول۔ دریا گلی، سندھیاں بن، خانس پور وغیرہ نے میلوں برف میں پیدل چل کر خوراک و امداد پہنچائی، گھروں میں رہائش دی، بہترین میزبانی کی۔ افواج پاکستان نے بھی متاثرین کی امداد کا منظم کام کیا، ظاہر ہے کہ اہل علاقہ یہ کام نہ کرتے تو نقصان بہت زیادہ ہوتا۔ تاہم ہوٹل والوں کا ایک رات کا کمرہ کا پچاس پچاس ہزار روپے کرایہ وصول کرنا، دوکانداروں کا پانی کی بوتل ہزار روپے، ڈبل روٹی آٹھ سو روپے اور ایک انڈہ پانچ پانچ سو روپے میں فروخت کرنا اور اوباش صفت نوجوانوں کا کسی کو بھی پھنسی ہوئی گاڑی ازخود نکالنے نہ دینا اور خود چار چار ہزارروپے فی گاڑی وصول کرنا غیر اسلامی غیر اخلاقی غیر انسانی اور ظالمانہ حرص پر مبنی وہ درندگی ہے جس نے اہل مری کو پوری دنیا میں بدنام کردیا ہے۔ اب اہل مری، بالخصوص علمائے کرام، مقامی دینی، سیاسی و سماجی راہنمائوں اور انتظامیہ کا یہ اخلاقی فرض ہے کہ وہ مری کے چہرے پر کالک ملنے والے ان عناصر کا بائیکاٹ کریں۔ باہر والوں کے بائیکاٹ سے پہلے اہل مری کو خود ان عناصر کا محاسبہ کرنا چاہیے۔ ان سے وصول کیے گئے زائد کرائے اور زائد قیمتیں متاثرین کو واپس دلائیں اور آئندہ کے لیے عہد نامہ اہل مری کا اہتمام کریں، جس میں پورے علاقے کے اجتماعی شعور کی بھرپور عکاسی ہو۔ ہوٹل کے کمروں اور کھانوںکی کیٹیگریز مقرر کر کے کرائے اور قیمتیں مقرر کی جائیں اور زائد وصولی کرنے والوں پر بھاری جرمانے کیے جائیں۔ واضح رہے کہ اہل مری کی عزت کی اصل بحالی، اس طرح کے عہد نامے پر مکمل عمل درآمد کے بعد ہی ہو سکے گی۔ حکومت کے ناقص انتظامات، ناقص منصوبہ بندی کا ایک ایک پہلو نمایاں ہو چکا ہے۔
۱۔ برفانی طوفان کی وارننگ کو یکسر نظر انداز کر دیا گیا۔۲۔ دو سال سے مقامی سڑکوں کی مرمت تک نہیں ہوئی۔۳۔ چار ہزار گاڑیوں کی پارکنگ والے شہر میں ایک لاکھ بیالیس ہزار گاڑیاں داخل ہونے دی گئیں۔ جمعہ کی صبح انٹری بند کرنی چاہیے تھی، لیکن شام تک گاڑیاں آتی رہیں۔ تاثر یہی ہے کہ ایسا ہوٹل مافیا اور انتظامیہ کی ملی بھگت سے ہوا۔ ۴۔ محکمہ ہائی وے کی طرف سے پہلے کلڈنہ، باڑیاں، جھیکا گلی، مری گھڑیال میں برف ہٹانے کی 20سے زائد مشینیں موجود ہوتی تھیں اور برف پڑتے ہی ان کا کام شروع ہو جاتا تھا، لیکن اس سال برف ہٹانے کی مشینیں قریباً نہ ہونے کے برابر تھیں۔ سنی بنک سے مشینری نکالی ہی نہیں گئی صرف ایک مشین سڑک پر چل رہی تھی۔ ۵۔ ایکسپریس وے پر یوٹرن کے سلیب نہ ہٹائے گئے یعنی واپس جانے کی آپشن ہی نہ تھی یا بہت دور اور عملاً ناممکن تھی۔۶۔ ٹریفک اور عام پولیس اہلکار بہت ہی کم تھے۔۷۔ لا اینڈ آرڈر کے قیام اور سیاحوں کو لٹنے سے بچانے کا کوئی انتظام نہ تھا۔۸۔ ہوٹل اور کھانے پینے سے متعلق مافیاز کے غیر انسانی، بے رحمانہ رویے کی شکایتیں گزشتہ کئی سال سے ہیں۔ ان کی طرف سے اکٹھے ہو کر مردوں ہی کو نہیں عورتوں کی بھی مارپیٹ کے واقعات کی وجہ سے پہلے بھی مری بائیکاٹ کی مہمیں چل چکی ہیں، لیکن انتظامیہ کی طرف سے اس غیر انسانی طرز عمل کے سدباب اور کرایوں کی قیمتوں کے تعین اور اس کی پابندی کا کوئی انتظام نہ تھا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہوٹل مافیا کا تعلق مقامی و غیر مقامی برسرا قتدار سیاسی اشرافیہ سے ہے۔
آئندہ کے لیے تجاویز حسب ذیل ہیں:
۱۔ ذمے داران کے تعین کے لیے سیاسی دبائو سے آزاد بااختیار جوڈیشل کمیشن قائم کیا جائے۔
۲۔ ہر سال موسم سرما کے شروع ہوتے ہی برف ہٹانے کی جدید، کارآمد اور زیادہ سے زیادہ تعداد میں مشینوں کا اہتمام کیا جائے۔ ڈرائیور گاڑیوں کے ساتھ ہوں تاکہ یہ مضحکہ خیز بہانہ نہ کیا جا سکے کہ راستے بند ہونے کی وجہ سے ڈرائیور نہ پہنچ سکے۔
۳۔ مری، گلیات اور مظفر آباد کے لیے ایک ہی راستہ ہے۔ اسلام آباد سے گلیات کے لیے علٰیحدہ راستہ بنانے کی طرف بھی توجہ دی جائے۔
۴۔ علٰیحدہ راستوں والے نئے ہل اسٹیشن پروموٹ کیے جائیں مثلاً راولا کوٹ، کوٹلی ستیاں وغیرہ۔
۵۔ نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ کے ادارے کا مکمل کا پرفارمنس آڈٹ کیا جائے۔ قوم اور پارلیمنٹ کے سامنے آنا چاہیے کہ اس ادارے نے گزشتہ سترہ سال میں کتنا بجٹ خرچ کیا اور اس نے ریسکیو ریلیف کے کتنے کام کیے۔ ان کے پاس آفات سے نمٹنے کی کیا منصوبہ بندی اور مشینری ہے۔ اس کی گزشتہ کئی سال پر پھیلی ہوئی ناکامی کو مدنظر رکھتے ہوئے اسے مکمل ختم کر دیا جائے یا تشکیل نو کی جائے۔ انتظامی اخراجات پندرہ فی صد سے زیادہ نہ ہوں چالیس چالیس لاکھ روپے ماہانہ تنخواہیں لینے والے فرمائشی اور نمائشی افسران کے بجائے درخواستیں طلب کرکے اور میرٹ پر تقرریاں کی جائیں۔
۶۔ الخدمت فائونڈیشن اور حقیقی امداد کے کام کرنے والی دیگر تنظیموں کو ریسکیو ریلیف کے کام کی منصوبہ بندی میں شامل رکھا جائے۔ اسی طرح افواج پاکستان کے نمائندگان بھی شامل کیے جائیں، لیکن کنٹرول سول انتظامیہ کے پاس ہو۔
۷۔ نئی رابطہ سڑکوں کی پلاننگ کی جائے۔
۸ ۔ مری گلیات وغیرہ کے لیے مستقل ہیلپ لائن قائم کی جائے جس پر تازہ ترین صورت حال کی معلومات مل سکے۔
۹۔ ہوٹلوں کے زیادہ سے زیادہ کرائے مشتہیر کیے جائیں۔ زیادہ کرایہ یا زیادہ بل وصولی کرنے والوں کے خلاف آن لائن شکایت درج کرانے کی سہولت موجود ہو۔ ان شکایات کا نوٹس بھی لیا جائے اور سخت ایکشن لیا جائے۔ اسی طرح سیاحوں کو برف باری کے دوران ہیٹر نہ چلانے اور شیشے قدرے کھلے رکھنے کی ہدایات دی جائیں۔ دیگر علاقوں کے سیاح معلومات لینے کے بعد روانہ ہوں۔ لوگ مری کو چھوڑ کر دیگر علاقوں کی طرف توجہ کریں مثلاً میں ذاتی معلومات کی بنا پر خانسپور کو بہترین گرمائی مقام اور وہاں کے عوام اور دکانداروں کو بہترین اسلامی روایات و اخلاقیات کا حامل سمجھتا ہوں۔ اسی طرح وادی سون سکیسر، فورٹ منروو دیگر علاقوں کی طرف بھی توجہ کی جائے۔ برفباری کو محض دیکھ کر واپس آ جانے کے کلچر کو پروموٹ کیا جائے۔ چٹا موڑ، کلڈنہ، جھیکاگلی اور لوئر ٹوپہ کے مقامات پر پارکنگ ایریاز بنا کر مری کے لیے شٹل سروس فراہم کی جائے۔ کسی وقت ریل گاڑی چلانے کے آپشن پر غور ہوا تھا اس کی بھی فزیبلٹی دیکھ لی جائے۔