ایران اورامریکا میں پابندیوں کے خاتمے اور جوہری قدغنوں پراختلافات برقرار

291

برسلز: مغربی سفارت کاروں نے کہاہے کہ ایران اورامریکا ویانا میں جاری بالواسطہ جوہری مذاکرات میں بنیادی امور پربہت کم لچک کا مظاہرہ کررہے ہیں۔

میڈیارپورٹس کے مطابق مغربی حکام کا کہنا تھا کہ اس معاہدے کو دوبارہ زندہ کرنے کا وقت ختم ہورہا ہے جبکہ ایرانی حکام اس بات کی تردید کرتے ہیں کہ ان پر وقت کا دبائو ہے۔ان کاکہنا تھا کہ چین کو تیل کی فروخت کی بدولت ایران کی معیشت زندہ رہ سکتی ہے۔جبکہ ایرانی عہدہ دارنے کہا کہ ایران کے حکمرانوں کو یقین ہے کہ ان کا سمجھوتانہ کرنے کا نقطہ نظر سودمند ثابت ہوگا۔سینئر ایرانی عہدہ دار کا کہنا تھا کہ امریکیوں کویقین دہانی کرانی چاہیے کہ مستقبل میں ایران پرکسی لیبل کے تحت کوئی نئی پابندیاں عاید نہیں کی جائیں گی۔اس کے علاوہ ہمیں اس بات کی ضمانت کی ضرورت ہے کہ امریکا دوبارہ اس معاہدے کو ترک نہیں کرے گا۔تاہم دوسری جانب امریکی حکام کا کہنا تھا کہ صدر جو بائیڈن ایسا کوئی وعدہ نہیں کرسکتے کہ امریکی حکومت اس معاہدے سے انحراف نہیں کرے گی کیونکہ جوہری معاہدہ ایک غیرپابند سیاسی مفاہمت ہے نہ کہ قانونی طور پر کوئی پابند معاہدہ ہے۔

امریکیوں کے اس موقف تبصرہ کرتے ہوئے ایک ایرانی عہدہ دار نے کہاکہ یہ ان کا اندرونی مسئلہ ہے۔ایرانی عہدہ دار کا کہنا تھا کہ امریکا اور تہران کے درمیان پابندیوں کے خاتمے کے نظام الاوقات پربھی اختلاف ہے۔ ایران کو پابندیوں کے خاتمے کی تصدیق کے لیے دو ہفتوں کی ضرورت ہے لیکن دوسرے فریق کا کہناتھا کہ جہازوں پرتیل چڑھانے، اسے برآمد کرنے اور بنک کاری نظام کے ذریعے اس کی رقم منتقل کرنے کے لیے چند روزہی کافی ہوں گے۔واضح رہے کہ ویانا میں گذشتہ سال اپریل سے اب تک امریکا اورایران کے درمیان بالواسطہ مذاکرات کے آٹھ دور ہوچکے ہیں۔ سب سے اختلافی نکات تہران پر پابندیاں اٹھانے کی رفتار اور ایران کی جانب سے جوہری سمجھوتے کی پاسداری ہے۔ان کے علاوہ ایران کی جانب سے امریکا سے مزید تعزیری اقدامات نہ کرنے کی ضمانت کا مطالبہ کیا جارہا ہے۔