مارکیٹ زبر دست بے یقینی و بے چینی کا شکار ہے ، میاں زاہد حسین

384

 

 

کراچی (اسٹاف رپورٹر)نیشنل بزنس گروپ پاکستان کے چیئرمین، پاکستان بزنس مین اینڈ انٹلیکچولز فورم وآل کراچی انڈسٹریل الائنس کے صدراورسابق صوبائی وزیرمیاں زاہد حسین نے کہا ہے کہ حکومت کی جانب سے ٹیکسٹائل پالیسی 25-2020 کی اچانک واپسی کے فیصلے سے ملک کے پیداواری شعبہ میں بھونچال آ جائے گا۔ اس سے پیداواراوربرآمدات دونوں بری طرح متاثرہوں گی اوران کی بحالی ایک خواب بن جائے گی۔ اس فیصلے سے سرمایہ کاروں اور برآمد کنندگان کی راتوں کی نیند اڑ گئی ہے جبکہ زبردست بے یقینی اور بے چینی پھیلی ہوئی ہے۔ میاں زاہد حسین نے کاروباری برادری سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ سب سے زیادہ برآمدات اورکروڑوں افراد کوروزگارفراہم کرنے والے ٹیکسٹائل کے شعبہ سے کھلواڑملکی مفادات کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ اس پالیسی کی روشنی میں سرمایہ کاروں نے اربوں ڈالرکی سرمایہ کاری کے منصوبے بنائے ہوئے ہیں جبکہ بہت سے منصوبوں پربھاری سرمایہ بھی لگ چکا ہے اور یہ صنعت ٹیک آف بھی کرچکی ہے مگراس فیصلے سے یہ کریش کرجائے گی اورساری محنت خاک میں مل جائے گی جبکہ برآمدی منڈیوں میں ملکی ساکھ داؤ پرلگ جائے گی۔ میاں زاہد حسین نے کہا کہ وزارت خزانہ کا کہنا ہے کہ ٹیکسٹائل شعبہ کوکئی سوارب روپے کی مراعات دی جا رہی ہیں مگراس کی کارکردگی وہ نہیں جس کی حکومت کو توقع تھی۔ سرمایہ کار بھی برآمدات میں خاطرخواہ اضافہ کے وعدے پورے نہیں کر سکے اوروہ اپنی موجودہ کارکردگی کے مقابلہ میں بہت زیادہ مراعات وصول کررہے ہیں جو بلا جواز ہیں۔ وزارت توانائی اور وزارت خزانہ کے مطابق ٹیکسٹائل برآمد کرنے والے سرمایہ کارذمہ داری کا مظاہرہ نہیں کر رہے ہیں۔ میاں زاہد حسین نے مزید کہا کہ اگرحکومت ٹیکسٹائل شعبے کی کارکردگی سے مطمئن نہیں اورمراعات واپس لینے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے تو متعلقہ ایسوسی ایشنز سے مذاکرات کے بعد یہ بتدریج واپس لی جائیں تاکہ سارے سلسلہ کو شفاف رکھا جاسکے اوربرآمدی شعبہ کے اعتماد کو دھچکا نہ لگے اورمارکیٹ میں کنفیوژن نہ پھیلے۔ ٹیکسٹائل سیکٹرکا کہنا ہے کہ حکومت کے غیرمتوازن اورغیرمتوقع اقدامات کی وجہ سے ٹیکسٹائل سیکٹر مایوسی کا شکار ہو گیا ہے اوراس سے بہت سی صنعتیں دیگرممالک کو منتقل ہو جائیں گی جہاں پالیسیوں میں تسلسل ہے۔