زندگی کو عزت دو

438

برصغیر میں مسلمانوں نے اپنے لیے ایک الگ مسلم ریاست کے قیام کی کوشش اس لیے کی تھی کہ وہ ہندو بنیے کی ذہنیت کے دبائو سے آزاد ہو کر ہر قسم کے سماجی، معاشی، سیاسی اور معاشرتی نظام کے تحت زندگی گزاریں گے جہاں امن ہوگا، عدل ہوگا اور انصاف ہوگا، پاکستان بنانے والی سیاسی قیادت نے بھی عہد کیا کہ پاکستان میں بسنے والے ہر شہری کو قانون کے تابع رہ کر روزگار کمانے اور اپنے مذہب کے مطابق زندگی گزارنے کا پورا حق ملے گا پھر یہ ضمانت آئین میں پاکستان میں دی گئی، انسان کے جتنے بھی حق کسی مذہب یا معاشرتی قانون میں تسلیم کیے گئے ہیں ان میں زندہ رہنے کا حق سب سے اہم ہے کسی شخص کو یہ حق نہیں دیا گیا کہ وہ کسی دوسرے کو نا حق زندگی سے محروم کردے۔
آج اگر ہم اپنے وطن عزیز کے چہرے پر نظر دوڑائیں تو ہمیں اس کے چہرے پر بیرونی قرضوں کی جابجا سلوٹیں نظر آتی ہیں، یہ قرض47 ہزار ارب کی حد کو چھو چکا ہے، تحریک انصاف کی حکومت کے اگلے ڈیڑھ سال ابھی باقی ہیں، ساڑھے تین سال یہ حکومت 23 ہزار ارب قرض لے چکی ہے، یا اللہ… یہ قرض کیسے اترے گا؟ اور ایسی قوم جس کے خط غربت کی حالت یہ ہے کہ حکومت پاکستان کا ایک پیغام ہر موبائل فون کال سے پہلے سنائی دے رہا ہے اگر آپ کی آمدنی پچاس ہزار روپے سے کم ہے تو آپ یا آپ کے گھر کا کوئی فرد احساس راشن پروگرام میں خود کو رجسٹرڈ کرائے تاکہ اسے آٹا، دال چاول، گھی کی خریداری پر ایک ہزار روپے کی رعایت مل سکے، یہ پیغام کیا ہے؟ کیا اس کا مطلب یہ لیا جائے کہ پاکستان میں جس بھی شخص کی ماہانہ آمدنی پچاس ہزار روپے سے کم ہے وہ اب خود کو احساس راشن پروگرام میں رجسٹریشن کے لیے جائے، اندازہ لگائیے کہ پاکستان میں ماہانہ پچاس ہزار روپے سے کم آمدنی والے کتنے شہری ہیں اور کتنے خاندان ہیں، اور جب کہ حکومت نے قومی معیشت کے حساب کتاب کے بعد یہ فیصلہ بجٹ میں دیا ہو کہ کم از کم آمدنی بیس ہزار روپے ہوگی، اب گویا پچاس ہزار ماہانہ کمانے والے بھی کم از کم اجرت کی سطح پر آگئے ہیں؟
یہ حکومت برسر اقتدار آئی تو سب سے پہلا وار میڈیا پر کیا اور اس حکومت کے دور میں اب تک ذرائع ابلاغ کے اداروں میں کام کرنے والے سیکڑوں کارکن بے روزگار ہوچکے ہیں، اور میڈیا کی ہی بات کی جائے تو اس شعبہ میں پچاس ہزار روپے ماہانہ تنخواہ والے ملازمین تو اب احساس پروگرام میں خود کو رجسٹر کرانے پر مجبور نہیں کر دیے گئے؟ جیسا کہ موبائل فون کال سے پہلے جو رنگ ٹون سنائی دیتی ہے وہ تو یہی پیغام دے رہی ہے۔
آج کا یہ کالم اور گزارش، پاکستان فیڈرل یونین آف جر نلسٹس کے لیے سوچنے کا مقام ہے… اور ذرائع ابلاغ کے اداروں کے لیے بھی… یہ ہے وہ معاشی ترقی جو ہمیں اس حکومت کے دور میں ملی ہے، حد تو ہے کہ اب دفاع کے لیے قرض لینا پڑ رہا ہے، کہا گیا تھا کہ دو سو ارب آئی ایم ایف کے منہ پر مار دیے جائیں گے، اس حکومت نے دو سو ارب کیا پورا اسٹیٹ بینک ہی اس کے حوالے کردیا، ابھی اس حکومت کا ڈیڑھ سال باقی ہے، جہاں تک زندہ رہنے کے حق کی بات ہے، زندہ رہنے کے لیے خوراک بنیادی ضرورت ہے، اقوام متحدہ کی تنظیم برائے خوراک و زراعت کی رپورٹ بتاتی ہے کہ 2021ء میں خوراک کی قیمتیں اس سے پچھلے سال کے مقابلے میں اوسطاً 25فی صد بلند ہوکر جنوری 2022ء میں 28برسوں کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہیں عالمی ادارے کی رپورٹس ہوں یا ملکی اعداد وشمار ہوں یا معاشی تبصرے اور تجزیے ان سے مہنگائی یا سہولتوں کی سطح کا اندازہ تو ضرور ہوتا ہے مگر حقیقی کرب کا اندازہ کسی کے پیٹ کے اندر جھانکنے سے ہوتا ہے جس سے کوئی شخص دوچار ہوتا ہے عالمی ادارے رپورٹ کا صرف ایک یہی حصہ اس لحاظ سے قابل غور ہے کہ ہمارے ہاں کی حکومتیں ملک میں خوراک کی فراہمی کے لیے کیا کچھ کر سکتی تھیں اور کیا کیا ہے؟ حال ہی میں قومی اسمبلی میں منی بجٹ پیش کیا گیا ہے جس میں جن ’’اشیائے تعیش‘‘ کی درآمد پر سترہ فی صد جنرل سیلز عائد کیا گیا ان میں بچوں کے استعمال کا خشک دودھ بھی شامل ہے، بس اتنا ہی کا کہنا کافی ہے۔