کالا بلدیاتی قانون۔ جماعت اسلامی کا جہاد

441

اے ابن آدم نیا سورج وڈیروں اور جاگیرداروں سے آزادی کی نوید ہوگا۔ ہماری جدوجہد فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہوچکی۔ حکومت سندھ کو کالا قانون واپس لینا ہوگا۔ ’’حق دو کراچی کو‘‘ یہ الفاظ ہیں کراچی کے اصلی شیر کے جو زبانی سیاست یا اخباری بیان کا قائل نہیں، جو ہمہ تن میدان عمل میں موجود رہتا ہے۔ سلام پیش کرتا ہوں جماعت اسلامی کے ذمے داران کو، علاقائی عہدیداروں کو، خواتین کو جو باپردہ اس عملی تحریک میں موجود ہیں۔ میرے دوست میرے علاقے نارتھ کراچی سیکٹر 11-K کے شرافت بھائی جس طرح سے علاقے میں جماعت کا کام سرانجام دے رہے ہیں لگتا ہے آنے والے الیکشن میں یہ علاقہ ایم کیو ایم کے ہاتھ سے نکل کر جماعت اسلامی کے پاس ہوگا۔ خیر بات ہورہی ہے دھرنے کی جس میں امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق نے کراچی کے مسائل اور کالے بلدیاتی بل پر خطاب میں کہا کہ کراچی پورے ملک کی ماں ہے، اگر یہ شہر توانا اور مضبوط ہوگا تو پورا ملک مضبوط ہوگا۔ بدقسمتی سے موجودہ اور ماضی کی حکومتوں اور پیپلز پارٹی، ن لیگ اور پی ٹی آئی تینوں حکمران پارٹیوں نے کراچی کا خون چوسا ہے اور اس جرم میں سب حکومتیں شریک ہیں۔ جس طرح گوادر کے لوگوں نے عظیم جدوجہد کے ذریعے ہدایت الرحمن کی قیادت میں اپنا حق لیا۔ اس طرح کراچی کے عوام کو اس جدوجہد سے کراچی کی عوام کو ان کا حق ضرور ملے گا۔ جماعت اسلامی کراچی کے عوام کی پشت پر کھڑی ہے اگر مطالبات پورے نہیں ہوئے تو ہم کراچی سے چترال تک گلی گلی، کوچہ کوچہ کراچی کا مقدمہ لڑیں گے۔ 14 سال میں پیپلز پارٹی نے نہ صرف کراچی بلکہ اندرون سندھ کو بھی تباہ و برباد کردیا۔
حافظ نعیم الرحمن جو ایک ایماندار، باعمل رہنما ہیں جو بلاخوف اپنی رائے کا اظہار کرتے ہیں۔ کیا خوب کہا کہ پیپلز پارٹی جمہوریت کی صرف بات کرتی ہے لیکن وراثت اور وصیت کے نام پر پارٹی چلائی جارہی ہے۔ پیپلز پارٹی کی اس آمرانہ سوچ اور جمہوریت دشمن طرز عمل سے 1971ء میں ملک دولخت ہوا اور پھر یہ ہی لوگ لسانی بل لے کر آئے۔ ایم کیو ایم آج مگرمچھ کے آنسو بہا رہی ہے جب کہ وہ اس تباہی میں برابر کی شریک ہے۔ کراچی کو خیرات نہیں مسائل کا حل چاہیے۔ حکمران 162 اور 1100 ارب کے پیکیج سے دھوکا دینے کا سلسلہ بند کریں۔ ہمیں کراچی سرکلر چاہیے، کے فور منصوبہ مکمل چاہیے، ماس ٹرانزٹ پروگرام پر پورا عمل درآمد ہونا چاہیے، کراچی ٹرانسفارمیشن پلان کے نام پر بھی کراچی کی عوام کو دھوکا دیا جارہا ہے۔ کراچی ٹیکس کی مد میں ہزاروں ارب روپے دیتا ہے لیکن کراچی کو جواب میں کچھ نہیں ملتا۔ ڈاکٹر اسامہ رضی نے کہا کہ کراچی کے ساتھ حق تلفی، ناانصافی اور ظلم و زیادتی کا یہ سلسلہ اب نہیں چلنے دیا جائے گا۔ جمہوریت کے نام پر غیر جمہوری رویے، آمرانہ اور جاگیردارانہ سوچ اور وڈیرہ شاہی تسلط قائم نہیں ہونے دیا جائے گا۔ دھرنے کا یہ سلسلہ جاری ہے۔ گوادر حق دو تحریک کے مرکزی رہنما مولانا ہدایت الرحمن بلوچ نے کہا کہ وڈیرے جاگیردار نچلی سطح پر اختیارات منتقل نہیں کرنا چاہتے۔ حمید اللہ خان ایڈووکیٹ سابق رکن صوبائی اسمبلی نے کہا کہ پیپلزپارٹی کالے بلدیاتی قانون کے تحت کراچی پر اپنی اجارہ داری قائم کرنا چاہتی ہے۔ محمد حسین محنتی نے کہا کہ منی بجٹ ملک کے لیے تباہی کا نسخہ ہے۔ حکمرانوں نے غریب آدمی کی زندگی اجیرن بنادی ہے۔ ملک و قوم کو عالمی اداروں کے پاس گروی رکھ دیا ہے۔
اس دھرنے میں ہر علاقے سے لوگ شریک رہے ہیں، بارش کے باوجود عوام اپنے حقوق کے لیے دھرنے میں آرہے ہیں۔ میری ملاقات عام لوگ اتحاد پارٹی جس کے بانی سابق چیف جسٹس وجیہہ الدین احمد ہیں اُن کی پارٹی کے کراچی کے صدر عامر ضیا اور خواتین ونگ کراچی کی صدر محترمہ ناہید خان سے ہوئی جو اپنے پارٹی کے کارکنوں کے ساتھ دھرنے کے مقام پر موجود تھیں اور اپنی باری کے انتظار میں تھیں کیوں کہ دھرنے میں ہر علاقے کے لوگ اپنے خیالات کا اظہار کررہے ہیں۔ محترمہ ناہید خان ایک کالم نگار بھی ہیں جب میں نے اُن سے دھرنے میں آمد کے حوالے سے سوال کیا تو انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر صاحب ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ کراچی کے ہر گھر سے مائیں، بہنیں، بیٹیاں نکل کر آتی تو حکومت سندھ اس کالے بلدیاتی بل کو واپس لینے پر مجبور ہوجاتی۔ ہمارے قائد وجیہہ الدین یہ چاہتے ہیں کہ قیادت عام آدمی کے ہاتھوں میں آجائے کیوں کہ ایک عام آدمی دوسرے عام آدمی کے مسائل کو آسانی سے سمجھ سکتا ہے اور اس کالے بلدیاتی قانون نے عام آدمی کا راستہ روک دیا ہے۔ دنیا بھر کے مہذب جمہوری معاشروں میں مقامی حکومتوں کے نظام کو بڑی اہمیت دی جاتی ہے۔ ملکی سطح پر مضبوط جمہوریت و پارلیمانی نظام کی بنیاد وہاں کا فعال، مربوط، مستحکم اور بااختیار بلدیاتی نظام قرار دیا جاتا ہے مگر افسوس 74 برس سے ملک پر جاگیرداروں، سرمایہ داروں، چودھریوں، وڈیروں کا ہر جگہ راج ہے۔ اور اس راج کو ختم کرنے کے لیے آج میں اور میری پارٹی عام لوگ اتحاد جماعت اسلامی کے اس عوامی دھرنے میں موجود ہیں۔
دھرنے کے دوران تیز بارش مرکزی پنڈال میں بھی پانی ٹپکنا شروع ہوا، شدید بارش، ٹھنڈ اور سرد ہوائوں کا سلسلہ جاری رہا۔ حافظ نعیم الرحمن نے اعلان کیا بزرگ اور بچے اپنے گھروں کی طرف جاسکتے ہیں اور اگر نوجوان بھی گھروں کو جانا چاہیں تو جاسکتے ہیں۔ آوازیں آئیں ’’ہم نہیں جائیں گے، دھرنا ہوگا‘‘ شرکا نے جانے سے انکار کردیا۔ میں ہمیشہ اپنے کالم میں یہ بات تحریر کرتا رہتا ہوں کہ اصل جماعت وہی ہوتی ہے جس کی جڑیں عوام میں ہوتی رہیں۔ اب تھوڑی سی اہم بات بلدیاتی اداروں کے حوالے سے کرنی ہے۔ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ کسی بھی ملک کی ترقی و خوشحالی اور کامیابی کا راز اس بات میں مضمر ہے کہ وہاں نچلی سطح پر رائج مقامی حکومتوں کا نظام کس قدر توانا، شفاف اور بااختیار ہے۔ بدقسمتی سے وطن عزیز میں سات دہائیاں گزرنے کے باوجود صوبائی اور وفاقی سطح پر جمہوریت ہی اپنی جڑیں مستحکم نہ کرسکی تو بلدیاتی نظام کس طرح سے پروان چڑھ سکتا ہے۔ ان 70 برسوں میں نصف کے قریب آمریت کی نذر ہوگیا اور ملک بھی دولخت ہوا۔ سیاسی رہنمائوں کے عاقبت نااندیش و غیر حکیمانہ طرز عمل کے باعث جمہوریت کی بساط پر آمریت کے مہرے اپنی چالیں بدلتے رہے اور ملک جمہوریت اور آمریت کے درمیان پنڈولم بنارہا، اسی طرح بلدیاتی ادارے بھی کبھی فعال اور کبھی غیر فعال رہے۔ ایوب خان کے بنیادی جمہوریت کے تجربے سے لے کر موجودہ وزیراعظم عمران خان کے خیبر پختون خوا میں متعارف کرائے گئے بلدیاتی نظام تک کئی اتار چڑھائو سے گزرنے والا یہ نظام ابھی تک کسی ایک کروٹ نہیں بیٹھ سکا۔ بلدیاتی انتخابات میں پہلے مرحلے میں پی ٹی آئی کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ وجہ عوام پر مسلط والا مہنگائی کا عذاب، غربت و بے روزگاری میں اضافہ۔ بجلی، گیس، پٹرولیم مصنوعات کی قلت اور قیمتوں میں ہوش ربا اضافہ کہ غریب آدمی روزہ مرہ استعمال کی اشیا خریدنے سے قاصر ہے، قرضوں کا بار بڑھ رہا ہے۔ غریب خودکشیوں پر مجبور ہے یہ وہ وجوہات ہیں جس کا غصہ عوام نے بلدیاتی الیکشن میں نکالا ہے۔ کے پی کے پی ٹی آئی کا گھر تھا اب اس کے بعد پنجاب اور سندھ میں بھی پی ٹی آئی کا یہی حال ہونے والا ہے۔ پیپلز پارٹی جو سندھ کارڈ کی کھلاڑی ہے اس کو بھی کامیابی حاصل نہیں ہوگی۔ اس مرتبہ بلدیاتی الیکشن میں کامیابی جماعت اسلامی کے حصے میں آنے والی ہے اگر الیکشن صاف و شفاف ہوئے۔ عوام کو بھی سوچنا ہوگا کہ اُن کا مخلص کون ہے، اُن کے حقوق کی آواز کو کون بلند کررہا ہے۔ آج (جمعہ کو) سراج الحق کی دوبارہ آمد ہونے والی ہے، مجھے قوی اُمید ہے کہ اس دھرنے کا ضرور فائدہ ہوگا۔ ابن آدم صرف عوامی مسائل کا حل چاہتا ہے۔ اس وقت سندھ کی پوری بیورو کریسی پیپلز پارٹی کے اشاروں پر چل رہی ہے، مگر ایک بات ضرور یاد رکھنے والی ہے کہ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ بیورو کریسی پر اُس کا کنٹرول ہے تو وہ خواب کی حالت میں ہے، یہ بیوروکریسی جب چاہتی ہے طاقتور سے طاقتور حکمرانوں کا دھڑم تختہ کردیتی ہے۔ ابن آدم دعاگو ہے کہ اس عوامی دھرنے کے ثمرات عوام کو مل جائیں۔ آخر میں ابن آدم کا درس کہ سب کو آزما کر دیکھ لیا نتیجہ تمہارے سامنے ہے، اب اگر ملک کو بچانا ہے تو جماعت اسلامی کو ووٹ دینا ہوگا۔