صدر ولادیمیر پیوٹن بیت المقدس کو بچاؤ؟

705

العربیہ ڈاٹ نیٹ، اور اسرائیلی خبر ایجنسیاں فلسطینی صدر محمود عباس کی اسرائیلی وزیر دفاع سے ملاقات کے فوری بعد فلسطینی صدر نے پورے عالم اسلام کو چھوڑ کر جس اہم شخصیت سے رابطہ کیا اور ان سے درخواست کی وہ بیت المقدس کو گرانے کی اسرائیل کی تیاری میں رکاوٹ ڈالنے لیے فوری طور پر اس سے مذاکرات اور جو کچھ اس سے ہو سکتا ہے کریں اس لیے کہ اسرائیلی وزیر دفاع نے ان سے ملاقات میں کہا کہ اسرائیل جلد ہی ٹیمپل کی تیاری کے لیے بیت المقدس کو توڑ دے گا اور فلسطینی حکومت کو اس کا ساتھ دینا ہو گا۔ اس ملاقات کو اسرائیلی وزیر دفاع اعتماد سازی پر تبادلہ خیال کا نام دیا ہے لیکن فلسطینی صدر محمود عباس نے اسرائیل کے وزیردفاع بینی گینز سے ملاقات کے بعد یہ تاثر دیا ہے کہ ملاقات اعتماد سازی سے زیادہ دھمکی تھی۔ فلسطینی صدر نے ایک طویل عرصے کے بعد پہلی مرتبہ اعلیٰ اسرائیلی حکام سے بات چیت کی ہے۔ جی ہاں! فلسطینی صدر محمود عباس نے کسی اسلامی ملک سے نہیں روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن کو فون کر کے ان سے کہا کہ وہ فوری طور پر فلسطین کو بچا لیں اور اسرائیلی بیت المقدس کو توڑنے کی تیاری مکمل کر چکے ہیں۔ اس سلسلے میں ماہرین کا کہنا ہے اسرائیل اس مرتبہ ’’بیت المقدس‘‘ کو تباہ کرنے کے لیے مصنوعی زلزلے کا سہارا لے گا جس کی نشاندہی تین سال قبل فلسطین کے مفتی اعظم نے کر دی تھی۔ اس بات کا سب کو علم ہے کہ اسرائیل نے بیت المقدس کے نیچے طویل اور گہرے علاقوں پر تعمیرات کر رکھی ہے اور متعدد مرتبہ ان زیرِ زمین علاقوں میں بڑے بڑے کنسرٹ کا انعقاد بھی کیا جاچکا ہے جس میں دنیا بھر فنکاروں نے مسجد کے نیچے ناچ گانوں کی محافل سجارکھی تھیں۔
اسرائیلی خبر ایجنسیوں کا کہنا ہے کہ ایک سینئر فلسطینی عہدے دار نے بتایا ملاقات اسرائیل کے وسطی علاقے میں واقع وزیر دفاع بینی گینز کے گھر میں ہوئی ہے۔ یہ پہلا موقع ہے جب صد محمود عباس نے 2010ء کے بعد اسرائیل میں کسی اعلیٰ عہدے دار سے ملاقات کی ہے۔ گزشتہ ایک دہائی کے دوران فریقین کے درمیان کوئی ٹھوس امن مذاکرات نہیں ہوئے ہیں۔ بینی گینزنے کہا کہ ’’اس سے قبل بھی فلسطینی صدر سے ہونے والی ملاقات میں دوطرفہ اعتماد کو بحال کرنے پر تبادلہ خیال کیا گیا تھا اور سیکورٹی کے شعبے میں ہم آہنگی کو مزید مضبوط بنانے پراتفاق کیا گیا تھا‘‘۔ محمود عباس کے ایک معاون خصوصی حسین آل شیخ نے کہا کہ اس ملاقات میں نئے سیاسی افق کی تلاش کی اہمیت کے علاوہ آباد کاروں کے طرزعمل کی وجہ سے بر سر زمین کشیدہ حالات پر غور کیا گیا۔ سلامتی، اقتصادی اور انسانی امور پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔ اسرائیلی وزیر اعظم نفتالی بینیٹ فلسطینیوں کی آزادی کے مخالف ہیں اور وہ ان سے باضابطہ امن مذاکرات سے انکاری ہیں۔ لیکن انہوں نے کہا ہے کہ وہ فلسطینی اتھارٹی کے ساتھ تنازع کو کم کرنا چاہتے ہیں اور اسرائیل کے زیرقبضہ مغربی کنارے میں حالاتِ زندگی کو بہتربنانا چاہتے ہیں۔ ان وعدوں کے باوجود حالیہ ہفتوں میں فلسطینی علاقے میں تشدد کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ مغربی کنارے اور مقبوضہ بیت المقدس (مشرقی یروشلم) میں اسرائیلیوں پر فلسطینیوں کے حملوں میں اضافہ ہوا ہے تو دوسری جانب فلسطینی شہریوں کے خلاف اسرائیلی آبادکاروں کے تشدد میں اضافہ ہوا ہے۔
محمود عباس کے زیر قیادت فلسطینی اتھارٹی ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کی خواہاں ہے جس میں مغربی کنارے کا علاقہ، مقبوضہ بیت المقدس اور غزہ کی پٹی شامل ہے۔ اسرائیل نے 1967ء کی جنگ میں تینوں علاقوں پر قبضہ کر لیا تھا لیکن وہ 2005 ء میں غزہ سے دستبردار ہو گیا تھا۔ اس کے دو سال کے بعد حماس نے غزہ میں انتخابات میں کامیابی کے بعد اپنی حکومت قائم کرلی تھی اور محمود عباس کی زیر قیادت فلسطینی اتھارٹی کی سیکورٹی فورسز اور حکام کو علاقے سے نکال باہر کیا تھا۔ اس طرح فلسطینیوں کے دو علاقوں غزہ اور غرب اردن میں دومتوازی اور حریف حکومتیں قائم ہوگئی تھیں اور اب تک ان میں یہ تقسیم برقرار ہے۔ جس کے بعد اسرائیل کو مغربی کنارے پر قبضہ کا مکمل اختیار اور ایک ہفتے سے وہاں تشدد میں اضافہ اور جیلوں میں بند قیدیوں کو شہید کرنے اور فلسطینیوں کو ان کے گھروں سے بے دخل کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔
روز العربیہ /الحدث نیوز چینلوں کو دیے گئے بیان میں فلسطین کے مشیر محمود الہباش نے زور دے کر کہا ہے کہ منگل کے روز محمود عباس اور اسرائیلی وزیر دفاع بینی گینز کے ساتھ ملاقات میں فلسطینی اتھارٹی کو کچھ حاصل نہ ہو سکا جس کی امید محمود عباس اور ان کے ساتھیوں کو تھی۔ اسرائیلی وزیر دفاع کے دفتر سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ فلسطینی اتھارٹی سے ٹیکس وصول ہونے والی رقوم فلسطینی اتھارٹی کے حوالے کرنا، فلسطینی تاجروں اور اہم ذمے داران کو سیکڑوں پرمٹ جاری کرنا اور مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی میں ہزاروں فلسطینیوں کو قیام کی حیثیت دینا شامل تھا جس پر مذاکرات جاری ہیں۔ اسرائیلی وزیر خارجہ نے گینٹز اور عباس کی ملاقات کو اسرائیل کی سیکورٹی کے لیے اہم قرار دیا۔ اس ملاقات میں سلامتی، اقتصادی اور انسانی امور پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔
یہ بات حقیقت سے عاری نہیں ہے محمود عباس بھی یہودیوں کے ایجنٹ ہیں اور انہوں نے اگر2007ء میں مغربی کنارے سے حماس کو بے دخل کرنے کے لیے اسرائیل سے مدد نہ لی ہوتی تو آج حالات مختلف ہوتے لیکن اب ان کو بھی اس بات کا احساس ہو گیا ہے کہ وہ دنیا میں اکیلے ہیں۔ ایک طرف فلسطینی صدر محمود عباس امن کو فروغ دینے کے لیے ملاقات کر رہے ہیں۔ دوسری جانب نابلوس میں صدر محمود عباس کے قریبی ساتھی پر حملہ کرکے ان کی گاڑی کو تباہ کردیا گیا۔ خبر میں بتایا گیا ہے کہ اسرائیلی عہدے داروں کا کہنا ہے کہ سرحد پر قائم ٹرمینل جو اسرائیل سے غزہ پٹی کو ایندھن مہیا کرتا ہے، وہ کئی دنوں تک بند رہے گا۔ حماس کا کہنا ہے کہ اگر ایندھن کی ترسیل دوبارہ شروع نہیں ہوتی تو علاقے کا واحد بجلی گھر بند ہوجائے گا۔ دوسری جانب نابلوس میں صدر محمود عباس کے قریبی ساتھی اور نابلوس کے گورنر جمال المحسن کی گاڑی پر بلاتا مہاجرین کیمپ جاتے ہوئے مسلح افراد نے حملہ کردیا۔ تاہم سیکورٹی فورسز نے فوری طور پر جمال المحسن اور ان کے عملے کو جائے وقوعہ سے بحفاظت نکال لیا۔ بعد ازاں مسلح افراد نے گاڑی کو آگ لگادی۔ جمال المحسن نے حملے میں کسی کو ذمے دارٹھیرانے سے انکار کردیا جب کہ نابلوس کے سیکورٹی حکام کا کہنا ہے کہ حملے میں اسلامی جہاد ملوث ہے جن کے درجنوں مجاہدین اسرائیل کی جیلوں میں پرُ تشدد ظلم کا شکار ہیں۔ اسرائیلی اخبارات بتا رہے ہیں کہ اسرائیلی عہدے داروں نے بتایا کہ سرحد پر قائم ٹرمینل جو اسرائیل سے غزہ پٹی کو ایندھن مہیا کرتا ہے، وہ کئی دنوں تک بند رہے گا۔ حماس کا کہنا ہے کہ اگر ایندھن کی ترسیل دوبارہ شروع نہیں ہوتی تو علاقے کا واحد بجلی گھر بند ہوجائے گا۔ یہ ساری صورتحال یہ بتا رہی ہے اسرائیل مغربی کنارے پر قبضہ کی تیاری کے لیے غزہ کی پٹی کو مفلوج بنانے میں مصروف ہے۔