دھرنے کی نہیں ’’ ہاتھ دھرنے‘‘ کی ضرورت

459

جماعت اسلامی (کراچی) نے حقوقِ کراچی کے سلسلے میں سندھ اسمبلی کے سامنے جس دھرنے کا آغاز کیا ہے۔ 3 جنوری 2022 کو چوتھا دن تھا۔ ’’دھرنے‘‘ کی تاریخ پر اگر نظر ڈالی جائے تو سیاسی جماعتوں کی ’’گھیراؤ‘‘ مہمات کو ’’دھرنے‘‘ کا نام جس پارٹی نے دیا وہ جماعت اسلامی نے قاضی حسین احمد کی قیادت میں 1996 میں اسلام آباد کا گھیراؤ کرنے کے وقت دیا تھا۔ اس وقت کے بعد آج تک دھرنے کا لفظ اتنی مقبولیت حاصل کر گیا کہ کوئی پارٹی بھی ’’گھیراؤ‘‘ کا لفظ استعمال نہ کر سکی اور جب جب، جہاں جہاں، جس جس نے بھی اپنے اپنے مقاصد حاصل کرنے کے لیے ’’گھیراؤ‘‘ مہم چلائی اس نے اس نے اپنی مہم کا نام ’’دھرنا‘‘ ہی دیا۔ چنانچہ اسلام آباد کا 126 دن کا دھرنا ہو یا پورے ملک میں کیے جانے گھیراؤ، سب کے سب گھیراؤ ’’دھرنے‘‘ ہی کہلائے۔
آج سے چند برس پہلے جماعت اسلامی کی جانب سے کراچی الیکٹرک کے خلاف بھی، کراچی کے مختلف مقامات پر دھرنے دینے کا اہتمام کیا گیا تھا جس کو عوامی سطح پر بڑی پذیرائی حاصل ہوئی تھی
جماعت اسلامی ملک کے سیاسی میدان میں ہر اس مسئلے کو اٹھاتی رہی ہے جس کا تعلق ملک کی بہتری اور عوام کی فلاح و بہبود سے ہو۔ بے شک جماعت اسلامی قانونی دائرے میں رہ کر ہر اس مقصد کے لیے جد و جہد کرتی چلی آ رہی ہے جس میں پاکستان اور پاکستان کے عوام کی خوشحالی مضمر ہو۔ یہ بھی نہیں کہ جماعت ذہنی جمود کو توڑنے اور عوام کو بیدار کرنے میں ناکام رہی ہو لیکن ہوتا یہ آیا ہے کہ جماعت کی جانب سے چلائی جانے والی تحریکوں اور مچائی جانے والی ہر ہلچل کے ثمرات دوسری پارٹیاں ہی اٹھاتی نظر آئیں جس کی وجہ سے ایسے مثبت نتائج جس میں عام انسان کی فلاح وابستہ ہو، حاصل نہیں ہو سکے اور نتیجہ ڈھاک کے تین پات کی صورت میں ہی سامنے آتا رہا۔ جماعت کی جانب سے ملک بھر میں اور خصوصاً کراچی میں بڑے بڑے جلسے، جلوس، دھرنے اور ریلیوں کا اہتمام کیا جاتا رہا ہے لیکن لوگ اس سے آگے نہیں بڑھتے۔
اس بات میں بھی کوئی شک نہیں کہ جماعتِ اسلامی کی مہم نہایت منظم اور پر امن انداز میں شروع ہوتی ہے اور اسی طرح اختتام پذیر بھی ہوجاتی ہے۔ کسی بھی مقام پر امن و امان کا کبھی کوئی مسئلہ پیدا کرنے سبب بھی نہیں بنتی۔ بلا شبہ یہ ایک اچھا، جمہوریت پسندانہ اور مہذبانہ طریقہ کار ہے لیکن کیا پاکستانی سیاست میں یہ طریقہ کار کوئی انقلاب یا تبدیلی لا سکتا ہے؟۔
ایک جانب تو یہ بات بھی بہت قابل توجہ ہے کہ حقوقِ کراچی کا نام لیکر جس مہم کا آغاز جماعت اسلامی کرتی نظر آرہی ہے اس میں شاید بہت زیادہ تاخیر ہو چکی ہے۔ کراچی کے ساتھ سوتیلا سلوک کوئی آج کا نہیں ہے۔ اس کا آغاز ایوبی دور سے اس وقت ہو چکا تھا جب یہاں کے عوام نے ایوبی الیکشن میں بانی پاکستان کی بہن، محترمہ فاطمہ جناح، کا ساتھ دیتے ہوئے ایوب خان کے خلاف فیصلہ دیا تھا جس کے نتیجے میں گوہر ایوب کی قیادت میں کراچی میں آگ اور خون کی ہولی کھیلی گئی اور پاکستان میں نسلی نفرتوں کی داغ بیل ڈالی گئی۔ فاطمہ جناح کا ساتھ دینے کا فیصلہ جماعت اسلامی ہی کا تھا جس پر کراچی کے عوام نے جماعت کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اس کا بھر پور ساتھ دیا تھا۔ پھر یہ سلسلہ رکا نہیں بلکہ بھٹو کے دور میں کوٹا سسٹم کے نفاذ کے ساتھ ہی ایک واضح لکیر سرحد کے اِس اور اْس پار کے لوگوں کے درمیان کھینچ دی گئی۔ اگر ایسے قانون کے خلاف ’’چار‘‘ دستخط نہیں ہوئے ہوتے تب بھی یہ ظالمانہ قانون نافذ العمل ہو ہی جاتا۔ اس قانون نے سندھ میں دو قومی نظریے کی ایک اور بنیاد سندھی اور غیر سندھی کی ڈالی گئی اور شہری حقوق کی پامالی در پامالی کی ایسی روایت پڑی کہ آج تک اہل کراچی اس کی سزا بھگت رہے ہیں۔ کوٹا سسٹم نے تعلیمی اداروں سے لے کر ہر شعبہ زندگی میں سرحد کے اْس پار والوں کو دیوار سے لگ جانے پر مجبور کردیا جس کے نتیجے میں ایم کیو ایم نے جنم لیا اور یوں یہ شہر مزید گرفتارِ بلا ہوتا گیا۔
اب آواز جماعت اسلامی نے اٹھائی ہے ثمرات کوئی اور سمیٹے گا
برسبیل تذکرہ اس پر بھی غور کرلیں۔۔۔
ایک نہایت شریف مولوی کو ایک وسیع خطہ اراضی تحفتاً دیا گیا۔ وہ اس پر فصل اگاتے اور محافظت کے لیے وظیفہ پڑھنا شروع کر دیتے۔ ہر مرتبہ گدھے آکر تیار فصل کھا جایا کرتے۔ وہ وظائف میں اضافہ کرتے رہے مگر گدھوں کی تعداد میں ہر مرتبہ اضافہ ہوتا گیا۔ زمین عنایت کرنے والے نے کہا کہ حضرت آپ فصل کی حفاظت میں ناکام کیوں ہیں تو عرض کرتے میں تو ہر مرتبہ وظائف میں اضافہ کرتا جا رہا ہوں۔ مالک نے ایک موٹا سا ڈنڈا اٹھا کر گدھوں کی ایسی مار لگائی کہ ان کو راہ فرار کے سوا اور کچھ نہ سوجھا۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستانی سیاست میں دھرنے کی نہیںہاتھ ٹکا کر ’’دھرنے‘‘ کی ضرورت ہے کیونکہ لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانا کرتے۔