افکار سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ

342

اختلاف کی جائز حدود
قرآن مجید اپنے مدعا کو بغیر کسی ابہام کے صاف صاف بیان کرتا ہے، اور اس نے کسی ایسی حقیقت کو جس کا جاننا آدمی کی ہدایت کے لیے ضروری تھا، واضح کیے بغیر نہیں چھوڑا مگر اختلافات پیش آنے کے دو بڑے اسباب ہیں:
ایک یہ کہ جب لوگ کسی قرآنی حقیقت کو اپنے الفاظ میں تعبیر کرتے ہیں اور قرآن مجید کی حدود سے آگے بڑھ کر تشریحات پیش کرتے ہیں تو رائے کے اختلافات، اور بسا اوقات سخت اختلافات کی گنجائش نکل آتی ہے۔
دوسرے یہ کہ جب لوگ اپنے آپ کو ایسے سوالات کا جواب دینے کا مکلف سمجھتے ہیں جن کی تکلیف خدا اور رسولؐ نے ان کو نہیں دی تھی تو جھگڑوں کا دروازہ کھل جاتا ہے۔
اس پر بھی بات نہ بڑھے، اگر ایک شخص اپنے بیان پر اور دوسرا اس کی تردید پر قناعت کرے۔ لیکن پہلے بھی بار ہا ایسا ہوا ہے اور آج بھی ہو رہا کہ ایک شخص اپنی بات کہنے پر اکتفا نہیں کرتا بلکہ اسے عین قرآن کی بات اور اس کے منکر کو صراحتہً یا کنایتہً قرآن کا منکر ٹھہرا دیتا ہے اور دوسرا شخص اس کی تردید پر اکتفا نہیں کرتا، بلکہ اسے ضال و مضل، اور بسا اوقات کافر تک ٹھہرا دیتا ہے۔ پھر اس سے آگے بڑھ کر ہر ایک متبعین اپنے اپنے پیشوا کی بات کی پچ کرتے ہیں اور مزید تشدد برتنے لگتے ہیں۔ ان طریقوں سے مختلف فرقوں کی بنا پڑ جاتی ہے اور ہر ایک دوسرے سے نماز اور مسجد اور شادی بیاہ تک کے تعلقات توڑ لیتا ہے اور اپنے مخصوص مسائل پر کفر و ایمان کی بنا رکھ دیتا ہے۔
یہ ہے خرابی کا اصل سبب! ورنہ اگر نص کو نص کی جگہ رہنے دیا جائے اور تعبیر و تشریح و استنباط کو مثل نص نہ بنایا جائے، اور بحث کو صرف اختلاف رائے کی حد تک ہی رہنے دیا جائے تو اکثر خرابیاں سرے سے رونما نہ ہوں اور نہ وہ سوالات پیدا ہوں جن پر آپ نے پریشانی کا اظہار کیا ہے۔
جن بزرگوں کے آپ نے نام لیے ہیں اور جن کے نام نہیں لیے ہیں، ان کے درمیان جن مسائل میں اختلافات اور شدید اختلافات ہوئے ہیں، ان میں سے اکثر مسائل پر میں بھی اپنی ایک رائے رکھتا ہوں، اور لامحالہ میری رائے ان میں سے بعض کے موافق اور بعض کے خلاف ہے۔ مگر میں صحیح کو صحیح اور غلط کو غلط کہنے پر ٹھہر جاتا ہوں، اس سے آگے بڑھ کر ان لوگوں پر کوئی حکم چسپاں نہیں کرتا جن کی رائے سے میں نے اختلاف کیا ہے اور نہ بحث کا یہ طریقہ اختیار کرتا ہوں کہ ’’میرے نزدیک فلاں شخص کی فلاں بات سے یہ لازم آتا ہے، اور یہ کفر یا فسق یا ضلالت ہے، فلاں شخص ضال اور مضل یا کافر یا فاسق ہے‘‘۔ اس طرح کے حکم لگانے کو میں حق سے تجاوز سمجھتا ہوں، کیوں کہ ہماری منطق کی رو سے اگر کسی شخص کے کسی قول سے ایک بری بات لازم آتی ہو تو ہم اسے یہ الزام نہیں دے سکتے کہ اس ’’لازم‘‘ کا بھی وہ التزام کرتا ہے، اس لیے اسے اس کا ملتزم ٹھہرا کر اس پر وہ حکم لگانا جو اس بری بات کے ملتزم پر ہی لگایا جاسکتا ہو، کسی طرح جائز نہیں۔
(ترجمان القرآن، اپریل، مئی 1952ء)