قومی سیاست کی توانا آواز

168

نائب امیر جماعت اسلامی پاکستان

26دسمبر 2012کو پر پروفیسرعبدالغفور احمد ؒ صاحب کا انتقال ہوا تو جماعت کے ہر کارکن نے اسے ذاتی صدمہ کے طور پر محسوس کیا،اسی طرح پاکستانی سیاست ایک مدبر سیاستدان،محب وطن پارلیمنٹیرین،ان تھک سیاسی رہنمااور ملک و قوم کے سچے خیر خواہ اور بہی خواہ سے محروم ہوگئی۔
پروفیسرعبدالغفور احمد ؒ صاحب کا نام ساٹھ کی دہائی سے سن رکھا تھا لیکن 70ء کے قومی انتخابات نے ان کا نام اچانک کراچی سے بلند کرکے قومی اور قومی سے اٹھا کر عالمی سطح پرپہنچادیا۔اس دور میں ان سے پہلی ملاقات ہوئی وہ ایسی شخصیت تھے کہ پہلی ہی ملاقات میں دلوں کو فتح کرلیتے تھے۔وہ محبت فاتح عالم کا عملی پیکر تھے۔
70ء کی اسمبلی دستور ساز اسمبلی تھی،اس اسمبلی کے قائد ایوان ذوالفقار علی بھٹو اور اکثر یتی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی تھی۔یہ پروفیسرعبدالغفور احمدؒ صاحب اور ان کے ساتھ علمائے کرام اور متحدہ اپوزیشن کی کامیابی ہے کہ مزاجا ً سیکولر جماعت اورلیڈر سے پاکستان کا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان طے کروایا اور اسلام کو ریاستی مذہب قرار دلوایا۔یہ ایک مشکل بلکہ ناممکن ٹاسک تھا۔اس مرحلہ کی اپوزیشن اور دینی جماعتوںاور رہنمائوں میں محترم پروفیسرعبدالغفور احمد ؒ صاحب ہراول دستہ کی حیثیت رکھتے تھے۔دفعات کی قانونی زبان محترم پروفیسرعبدالغفور احمد ؒ صاحب کی قانونی مہارت کی منہ بولتی تصویر ہے۔
پیپلز پارٹی 70ء والی قومی اسمبلی کے اندر اوربچے کھچے پاکستان میں بڑی اکثریت تھی اور ان کے بعض ارکان زبان دراز بلکہ منہ پھٹ تھے۔اس کے باوجو د اسمبلی کا ریکارڈ گواہ ہے کہ پروفیسرعبدالغفور احمد ؒ صاحب کی گفتگو کے دوران ایوان میں پروقار ماحول پیدا ہوجاتا تھا۔سبھی ان کی بات غور سے سنتے اور ان کا احترام کرتے تھے۔اس زمانے میں ملک کے مشہور اور بزرگ صحافی مصطفی صادق مرحوم اسلام آباد میں پارلیمنٹ کے اجلاس کی جھلکیاں دیکھ کر آئے تو 5.ذیلدار پارک میں مولانا مودودی ؒ سے ملاقات کے لیے حاضر ہوئے۔انہوں نے مولانا سے کہا ’’مولانا ایوان میں بھانت بھانت کی بولیاں سننے کو ملیں مگر سچی بات یہ ہے کہ اگر کسی رکن کی کسی بات میں وزن اور تاثیر تھی یہ وہی ارکان تھے جو جماعت کی تربیت گاہوں سے ہوکر نکلے۔ ‘‘
پروفیسرعبدالغفور احمد ؒ صاحب ؒ آج کے سیاستدانوں کے لیے بہترین مثال ہیں۔سادگی اور عاجزی ان کی شخصیت کے نمایاں ترین پہلو تھے۔انہوں نے سیاست سے محلات نہیں بنائے،فیکٹریاں نہیں لگائیں،مال و دولت دنیا جمع نہیں کی۔وزیر پیدا وار رہے مگر خود کے لیے کچھ بھی ’’پید ا‘‘نہیں کیا۔ان کی متاع حیات ان کا بے داغ کردار ہے۔ان کی اسلام اور پاکستان سے سچی محبت ہے۔ان کا اسلامی نظام کی صداقتوں پر غیر متزلزل ایمان ہے۔ان کی سیاسی کارکنان سے بہترین محبت ہے۔ان کی صرف رزق حلال پر قناعت ہے،وہ کراچی کی آواز تھے،مسائل کے حل کے حوالے سے امید کا چراغ تھے۔انہوں نے سیاست کو شائستگی اور پارلیمنٹ کو وقار بخشا۔وہ حزب اختلاف کے رہنما تھے اور انہوں نے اپنے عمل سے بتایا کہ حزب اختلاف کا اصل کام اور اصل کردار ملک و قوم کے لیے کتنا تعمیر ی اور کتنا ضروری ہوتا ہے۔وہ ایک شاندار زندگی گزار کر گئے۔انہوں نے اپنے پیچھے ہر طرح کے صدقات جاریہ چھوڑے ہیں۔جن میں خدمت خلق اور فلاح انسانیت کے ادارے،علم نافع کے حوالے سے تقریریں اورتحریریں اور پختہ دینی شعور رکھنے والی اولاد صالح شامل ہے۔
اللہ کریم پروفیسرعبدالغفور احمد ؒ صاحب کے درجات بلند فرمائے۔آمین