صحافی سیاسی جماعتوں کی ترجمانی کرتے نظر آتے ہیں

414

کراچی ( رپورٹ \محمد علی فاروق ) صحافت اور سیاست کا چولی دامن کا ساتھ ہے، صحافتی تاریخ میں یہ دونوں گوشت اور ناخن کی مانند ہیں، سیاست تو زندگی کے مسائل کو درست علمی بنیادوں پر سمجھنے کے لیے بہتر سر گرمیوں کی انجا م دہی کا نام ہے،آج کی سیاست بازی ہمارے حکمران طبقے کی سازشی طرز عمل کی عکاسی کرتا ہے ، پاکستان میں صحافت پر سیاست کا غلبہ اس قدر ہے کہ صحافیوں کو سیاسی شخصیات کانمائندہ بنے پر کسی قسم کی ندامت بھی نہیںہوتی اور وہ کبھی کسی جماعت اور کبھی کسی دوسری جماعت کی ترجمانی کرتے نظر آتے ہیں،صحافیوںکو بھی اقتدار کے حصول کے لیے لڑائی جھگڑے بلیک میلنگ اور ایک دوسرے کو نیچا دیکھانے میں مزا آتا ہے ۔ان خیالات کا اظہار نائب امیر جماعت اسلامی کراچی اسامہ بن رضی ، سابق صدر شعبہ اِبلاغ عامہ جامعہ کراچی پروفیسر ڈاکٹر سیمی نغمانہ طاہراور پی ایف یو جے (دستور)کے سیکرٹری جنرل سہیل افضل خان نے ’’جسارت‘‘ سے خصوصی گفتگو میں کیا ۔ اسامہ رضی نے کہا کہ سیا ست تو زندگی کی گاڑی میں گھوڑے کی حیثیت رکھتی ہے یہ زندگی کی پوری گاڑی کے ہر چیز کو متاثر کرتی ہے ، بلکہ اس کا زندگی کے دائرے پر غلبہ بھی ہوتا ہے ، افسوس سیاست کو آج کے دور میں
ایک غلیظ مفہوم پہنادیا گیا ہے ،حالانکہ سیاست تو زندگی کے مسائل کو درست علمی بنیادوں پر سمجھنے کے لیے بہتر سر گرمیوں کی انجا م دہی کا نام ہے ، صحافت اور سیاست کو چولی دامن کا ساتھ ہے اور ہماری پوری صحافتی تاریخ میں یہ دونوں گوشت اور ناخن کی مانند ملیں گے ، ہم سر سید احمد خان ، مولانا محمد علی جوہر ، سید مولا نا ابولاعلی مودی کی بات کریں یہ وہ نمایاں نام ہیں جو برصغیر میں صحافت کے ساتھ سیاست بھی کیا کرتے تھے ،ان کی صحافت ان کی سیاست کی ہی بنیاد پر ہواکرتی تھی ،ان کے سیاسی تصورات اور سیاسی جدوجہد کے ساتھ صحافت منسلک تھی سیاست کا صحافت پر غلبہ ہونا کو ئی معیوب بات نہیں ہے ، بلکہ ایسا ہونا چاہیے اور ایسا نہ ہونے پر ہمیں تشویش ہونی چاہیے کہ ایسا کیو ں نہیں ہے ، ہم صحافت کو الگ خانے میں اور سیاست کو الگ خانے میں تقسیم کر رہے ہیں، زندگی نہ اس طرح خانوں میں بٹی ہوئی ہے اور نہ ہمیں اس کو اس طرح تقسیم کرنا چاہیے اس طرح کرنا ایک غیر علمی روش ہے اور یہ ایک طرح کی جاہلانہ تفہیم ہے یہ کہنا غلط نہ ہوگا ،ہاں جس مفہوم میں آپ کا سوال ہے وہ شاہد آج کے معاشرے میں مروجہ سیاست کے نام پر جو کچھ ہورہا ہے اس کا غلبہ صحافت پر کیو ں ہے تو میں اس حوالے سے یہ کہوں گا کہ یہ سیاست بازی ہے اور ہمارے حکمران طبقے کے سازشی طرز عمل کی عکاسی کر تا ہے اور اس عمل سے جو چیز سامنے آتی ہے اسی کو سیاست بازی کہا گیا ہے ۔اسامہ بن رضی نے کہا کہ اپنے اقتدار اور اپنی بالا دستی کو دوام بخشنے کے لیے سیاست بازی کی جاتی ہے اور یہ طبقہ بنیادی طورپر جاگیر داروں، سرمایہ داروں ، اور بیروکریسی کی بالادستی پر مشتمل ہے یہ طبقہ گندی سیاست کرتا ہے اور اس ہی غلیظ سیاست کے ذریعے یہ اس ملک خداداکے معاملات ،اس ملک کے عوام پر اپنی بالا دستی قائم رکھنا چاہتا ہے، اس لیے یہ طبقہ اپنی گندی سیاست میں صحافت کو استعمال کر تا ہے اور صحافت پر ان کا غلبہ اس لیے ضروری ہے کہ یہ ابلاغ کے ذرائع کو اپنے کنٹرول میں رکھنا چاہتے ہیں اور یہ چاہتے ہیں کہ دنیا وہ دیکھے ، بولے اورسنے جو ہم چاہتے ہیں ، اس اعتبار سے چند ظالموں کے پنجو ں میںجکڑی ہوئی ہے اور یہ حکمران طبقہ ایک فیصد بھی نہیں ہے ، اسی حکمران طبقے کی گندی سیاست جو صحافت کو بھی پر گندہ کر رہی ہے یہی وجہ ہے کہ صحافت اب اس طرح کا مشن نہیں رہا بلکہ سیاست بازی نے ایسے بھی آلودہ کر دیا ہے اور یہ ایک کاروباری دھندہ بن گیا ہے ، چنانچہ حکمران طبقے نے صحافت کو یر غمال بنالیا ہے، ایسی حکمران طبقے کے مراعات یافتہ یا انہوں نے خود ہی پرائیوٹلی صحافت یا ابلاغ عامہ کے ذرائع پر اپنی سرمایہ کار ی کر کے جاگیر دار ، بیروکریسی ، سمیت اپنی اجارہ داری کے لیے اپنی گندی سوچ کو عوام کے زہنوں پر مسلط کر تے ہیںاب صحافت پہلے کی طرح آزاد نہیں رہی پورا معاشرہ اور انسانیت کی آزادی سلب ہوگئی ہے اور انسانوںسے ان کے صحیح مشن کو بھی سلب کر لیا گیا ہے ، اس کا ذمہ دار یہ حکمران طبقہ ہی ہے جو پورے ملک کی تباہی، بربادی، پسماندگی اور ملک کی بدترین بدحالی کا بھی ذمہ دار ہے، جب تک یہ غلیظ حکمران طبقہ اس ملک کی عوام پر مسلط رہے گا پاکستان کبھی بھی آگئے نہیں بڑھ سکتا ۔سابق صدر شعبہ اِبلاغ عامہ، جامعہ کراچی پروفیسر ڈاکٹر سیمی نغمانہ طاہر نے کہا کہ پرائیوٹ سیکٹر میں الیکٹرونک میڈیا کو آئے ہوئے بہت زیادہ عرصہ نہیں ہوا ،پرنٹ میڈیا میںبھی صحافیوںکی اکثریت تعلیم یافتہ اور تربیت یافتہ نہیں ہے،یہی وجہ ہے کہ صحافیوں کو معاشرے کے اصل مسائل سمجھ نہیںآتے ،وہ کو ن سے مسائل ہیں جن سے شہریوںکو آگاہی کی ضرورت ہے ،اس وقت میڈیا پاکستان میں ایک ایسا کاروبار بن چکا ہے جو دیکھتا ہے وہ بکتا ہے اور بیچنے والے بھی زیادہ ہی مرچ مصالحہ لگا کر چیزوں کو پیش کر تے ہیں،بس کسی طرح چینل کی ریٹنگ بڑھ جائے لو گوںکی دلچسپی جس چیز میں زیادہ وہوتی ہے وہی چیز ٹی وی ، اخبار اور ریڈیو پر نشر کی جاتی ہے صحافیوں کو اپنے سوشل ایشوز کا صحیح معنی میں اداراک ہی نہیں ہے کہ میڈیا کی ترجیحات کیا ہونی چاہیے ، کن مسائل پر گفتگو ہونی چاہیے اور کو ن سے ایسے مسائل ہیں جن پر عوامی سطح پر گفتگو نہیںہونی چاہیے ۔پاکستان میں صحافت پر سیاست کا غلبہ اس قدر ہے کہ صحافیوں کو سیاسی شخصیات کا نمائندہ بنے پر کسی قسم کی ندامت بھی نہیں ہوتی اور وہ کبھی کسی جماعت اور کبھی کسی دوسری جماعت کی ترجمانی کرتے نظر آتے ہیں ۔پروفیسر ڈاکٹر سیمی نغمانہ طاہرنے کہا کہ صحافیوںکے تجزیوں ،تبصروں اور رپوٹنگ سے واضح ہوجا تا ہے کہ وہ کس کی زبان بول ر ہے ہیں ،پرنٹ میڈیا کا تو اس وقت بہت زیادہ براحال ہے اسے کون درست کر سکتا ہے داراصل زیادہ سے زیادہ تنازعات کوبڑھا یا جاتا ہے جس سے چینل کی ریٹنگ بڑھ جاتی ہے میڈیا اسی بھیڑ چال کا ہوگیا ہے ،اینکر کو بھی اس وقت مزا آتا ہے جب کسی بات پر دو گرپوں کے درمیان گرما گرمی پید اہوجائے اور پروگرام لاؤڈ ہوجائے ،پاکستان میں صحافت بھی آزاد نہیںہے معاشرے میں تعلیم کی کمی ہے عوام کو بھی شعور نہیں ہے کہ وہ یہ بات محسوس کرسکیں کہ کیاسچ ہے اور کیا پروپیگنڈہ ہے ناظرین کی اکثریت ایک حوالے سے بہت معصوم ہے وہ دیکھائی دینے والے پیغام کے پس پردہ جھانک کر یہ بات سمجھنے سے قاصر ہے کہ اس کا مثبت او منفی پہلو کیا ہے ،الیکٹرانک میڈیا مالکان کا کہنا ہے کہ ہمارا نشانہ عام شہری ہیں جن کو اس بات کا علم نہ ہوسکے کہ چینل کے مالکان کے پس پردہ کیا عوامل کار فرما ہیں ، ہمارے ملک میں بھی اتنی گنجائش نہیںتھی کہ جتنے چینل کے لائسینس جاری کردیئے گئے ہیںپھر اس بھڑ چال میں مفادات حاصل کرنے والے لوگ آہی جاتے ہیں۔پی ایف یو جے (دستور)کے سیکٹر ی جنرل سہیل افضل خان نے کہا کہ دراصل پاکستان کے وجود میں آنے کے پہلے دن سے ہی سمت درست نہیں رہی ،اقتدار کی پرامن متتقلی کا کوئی نظام نہیں بن سکا، بندوق کی طاقت سے سیاست پر قبضہ ہونے لگا ، یہ طے ہی نہیں ہوسکا کہ ہم نے کیا کرناہے ، اقتدار کی پر امن منتقلی کا طریقہ طے نہ ہونے سے بالائی طبقوں میں کشمکش اور لڑائی شروع ہوئی جو کہ آج تک جاری ہے ،اقتدار کی اس لڑائی اور بڑے پہلوانوں کے دنگل کی وجہ سے نچلی سطح پر مسائل زیر بحث ہی نہیں آتے ،،اگر اقتدار کی منتقلی معمول کا طریقہ بن جائے تو خود بخود بحث اور دلچسپی دوسرے مسائل کی طرف چلی جائے گی جب بڑے مسائل طے کرلیے جائیں گے، تب ہیلتھ ، ایجوکیشن ، ٹرانسپورٹ اور روز مرہ کے دیگر وعوامی مسائل کی طرف توجہ مرکوز کی جائے گی، افسوس کہ ہم ابھی تک یہ طے نہیں کرپائے کہ پاکستان کو کس ڈگر پر چلانا ہے ،اب اقتدار کے حصول اور لڑائی جھگڑے بلیک میلنگ اور ایک دوسرے کو نیچا دیکھا نے کی کوشش میں ہی سارا وقت لگ جاتا ہے ، میڈیا کے لئے بھی یہ لڑائی دلچسپ اور چسکے والی ہے ،70سال میں عوام کا مزاج بھی یہ بن گیا ہے کہ انھیں یہ کشمکش اور جھگڑے سنجیدہ مسائل کی نسبت اچھے لگتے ہیں ، اس ہی لیے صحافت میں بھی سیاست کا غلبہ نظر آتا ہے۔