زرداری کے خلاف نیویارک پراپرٹی ریفرنس قانون سے تجاوز ، اسلام آباد ہائی کورٹ

517
اسلام آباد ہائیکورٹ کا وزیراعظم عمران خان کی درخواست پر الیکشن کمیشن کو نوٹس

اسلام آباد ہائیکورٹ چیف جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس عامر فاروق پر مشتمل دو رکنی بینچ نے سابق صدر آصف زرداری کے خلاف نیب نے  نیویارک پراپرٹی ریفرنس کو قانون سے تجاوز قرار دیدیا۔ دوران سماعت عدالت نے ریمارکس دیئے کہ قانون کے مطابق نہ ہونے کی وجہ سے نیب کے سارے کیسز خراب ہو جاتے ہیں۔

عدالت نے نیب کو انکم ٹیکس کا معاملہ نکال کر 18 جنوری تک نیا ریفرنس بنانے کا ٹاسک دیدیا ۔نیب کو ریفرنس بنانے سے پہلے یہ معاملہ ایف بی آر کو بھیجنا چاہیے تھاایف بی آر کا اختیار تھا کہ آصف علی زرداری کا مکمل آڈٹ بھی کر سکتا ہے ،انکم ٹیکس کے کسی آرڈر کو ریفر کیے بغیر آصف زرداری کے خلاف ریفرنس بنا کر دکھائیں نیب جس راستے پر چل رہا ہے وہ صرف اپنا وقت ضائع کر رہا ہے ،نیب قانون سے بالاتر نہیں ہے ،وہ انکم ٹیکس کا آرڈر خود سے کالعدم کیسے قرار دے  سکتا ہے ،ایف بی آر کے اسسمنٹ آرڈر کو کالعدم قرار دینے کا اختیار نیب کے پاس نہیں ہے نیب کیس ایف بی آر کو بھیج دے انکے پاس معاملے کو دیکھنے کا اختیار ہے اس موقع پر آصف زرداری کے وکیل فاروق نائیک نے عدالت کو بتایا کہ آصف علی زرداری پر فرد جرم عائد کرنے سے پہلے بریت کی درخواست دائر کی۔ احتساب عدالت کا نیب کو نوٹس جاری کر کے جواب طلب کرنا چاہیے تھاآصف زرداری نے نیب کے دوسرے ترمیمی آرڈیننس کے تحت بریت کی درخواست دائر کی تھی عدالت نے نیب پراسیکیوٹر سے استفسار کیا کہ کیا نیب ریفرنس دائر کر چکا ہے –

جس پر فاروق ایچ نائیک نے عدالت کو بتایا کہ آصف زرداری نے پراپرٹی خریدی اور رقم کیش میں ادا کی گئی عدالت نے استفسار کیا کہ آصف زرداری کے خلاف ریفرنس نیب آرڈیننس کی کونسی شق کے مطابق ہے ،جس پر وکیل  صفائی نے عدالت کو بتایا نیب آرڈیننس کی کسی شق کے تحت کیس بنتا ہی نہیں یہاں نیب پراسیکیوٹر نے عدالت کو بتایا کہ ریفرنس نیب آرڈیننس کے سیکشن دو، چار اور بارہ کے تحت بنایا گیا ہے وکیل صفائی کا کہنا تھا نیب کہتا ہے کہ آصف زرداری نے پبلک آفس ہولڈر ہوتے ہوئے پراپرٹی کیوں خریدی نیب کے مطابق پبلک آفس ہوتے ہوئے کوئی پراپرٹی خرید ہی نہیں سکتا جج احتساب نے میرے دلائل سنے بغیر ہی بریت کی درخواست مسترد کر دی –

نیب پراسیکیوٹر نے عدالت کو بتایا کہ سپریم کورٹ نے نیب کو فیک اکاونٹس کی تحقیقات کا حکم دیا تھافیک اکاونٹ سے 150 ملین روپے کی پراپرٹی خریداری کی ٹرانزیکشن ہوئی رقم پراپرٹی فروخت کرنے والے محمد باری کو ادا کی گئی پراپرٹی فروخت کرنے والے نے مجسٹریٹ کے سامنے بیان میں مانا کہ 150 ملین کی رقم چیکس کے ذریعے وصول کی اس موقع پر جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیئے کہ سپریم کورٹ کے فیصلوں کے مطابق صرف مجسٹریٹ کے سامنے بیان کی کوئی وقعت نہیں جس پر نیب پراسیکیوٹر کا کہنا تھا کہ ویلتھ سٹیٹمنٹ میں آصف زرداری نے پراپرٹی کی قیمت 53 ملین لکھی عدالت نے استفسار کیا کہ نیب انکم ٹیکس ڈکلیریشن کے معاملے میں کس طرح پڑ سکتا ہےکیا انکم ٹیکس کے اسسمنٹ آرڈر کو نیب کالعدم قرار دے سکتا ہے

انکم ٹیکس آرڈر کو کالعدم قرار دلوائے بغیر نیب ریفرنس کس طرح بنا سکتا ہے بدقسمتی سے ہمارے ملک میں پراپرٹی کی سرکاری قیمت اور لکھی جاتی ہے اصل اور ہوتی ہے کیا اس پر نیب کا ریفرنس بنتا ہے اگر بنتا ہے تو پورا پاکستان یہ کر رہا ہے جس پر وکیل صفائی کا کہنا تھا کہ یہ فیک اکاو¿نٹ کہہ رہے ہیں، اکاو¿نٹ ہولڈر موجود ہیں تو اکاو¿نٹ فیک کیسے ہو گئے عدالت نے استفسار کیا کہ کیا نیب کے تفتیشی افسر نے ایف بی آر سے کوئی رپورٹ لی ہے جس پر نیب پراسیکیوٹر نے عدالت کو بتایا کہ یہ منی لانڈرنگ کا کیس ہے ویلتھ سٹیٹمنٹ اسکا ایک ثبوت ہے عدالت نے ریمارکس دیئے کہ اگر منی لانڈرنگ ہے تو کیا صرف 53 ملین کا کیس ہے

جس پر نیب پراسیکیوٹر نے عدالت کو بتایا کہ یہ 53 ملین نہیں 150 ملین کا کیس ہے عدالت نے استفسار کیا کہ نیب اپنے اختیار سے تجاوز کس طرح کر سکتا ہے ،نیب اس 53 ملین سے باہر نہیں جا سکتا یا اس 53 ملین کا حوالہ نہیں دے سکتانیب کے پاس آپشن موجود ہے کہ کیس ایف بی آر کو بھیج دے ،ایف بی آر کے پاس دونوں چیزوں کو بیک وقت دیکھنے کا اختیار ہے نیب اپنے ریفرنس کا دوبارہ جائزہ لے کر 53 ملین کو نکال دے53 ملین کا معاملہ نکال کر بھی اگر نیب کا ریفرنس بنتا ہے تو بنا لیں نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ میں عدالت کی بات کی تائید کرتا ہوں، ان کیسز کی تفتیش ایف آئی اے نے کی، سپریم کورٹ کے حکم پر نیب کو منتقل ہوئے جس پر چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ سپریم کورٹ نے نیب کو غیرقانونی اقدام کرنے کا تو نہیں کہااحتساب عدالت نے اس اہم نکتے کو بھی دیکھنا ہے، یا پھر یہ عدالت اس کو سوال بنا کر احتساب عدالت کو بھیج د ۔ عدالت نے کیس کی سماعت 18جنوری تک ملتوی کر دی۔