حکومت اور میڈیا اپنی ثقافت کے فروغ کیلیے کردار ادا نہیں کررہے

532

کراچی(رپورٹ: حماد حسین)ہمارا حکمران طبقہ مغرب سے مرعوب ہے اور ان کے قوانین اور کلچر کو یہاںفروغ دینے کی کوشش کرتا ہے جس کی وجہ سے مغربی ثقافت پھیل رہی ہے‘ بدقسمتی سے ہم ترقی کا ذریعہ کہیں نا کہیں مغربی ثقافت کو اپنانے میں سمجھتے ہیں‘دو غلہ یا کثیرالاجہتی نظام تعلیم بھی ہے جس میں پاکستانی ثقافت کے بجائے مغربی ذریعہ تعلیم یا ثقافت کو ہم سب کے لیے کامیابی کی ضمانت بنا دیا جاتا ہے‘ والدین اور اساتذہ اپنی ثقافت، تہذیب وتمدن کو صحیح طرح سے نئی نسل میں منتقل نہیں کر پا رہے ہیں۔ ان خیالات کا اظہار وفاقی جامعہ اردو کے شعبہ نفسیات کے ڈاکٹر شاہد اقبال، ناظمہ جماعت اسلامی کراچی اسما سفیر اور کراچی یونیورسٹی کے شعبہ قرآن و سنہ کے ڈاکٹر مفتی نوید انور نے جسارت کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ’’ملک میں مغربی ثقافت پھیلنے کی وجوہات کیا ہیں؟‘‘ ڈاکٹر شاہد اقبال کا کہنا تھا کہ جب بھی کوئی غالب ثقافت ہوتی ہے تو وہ چھوٹی ثقافت کو مغلوب کر دیتی ہے‘ بدقسمتی سے پاکستانی ثقافت اس وقت مغلوب ہو چکی ہے کیونکہ مغربی ثقافت کی ہر جگہ اور ہمہ وقت تشہیر بہت زیادہ کی جا رہی ہے‘ بدقسمتی سے ہمارا ذرائع ابلاغ اس سلسلیمیں اپنا کردار احسن طریقے سے نہیں نبھا رہا ہے‘حکومت اپنی ثقافت کی نگہداشت بھی نہیں کر رہی ہے‘ ہم بحیثیت قوم احساس کمتری کا شکار ہیںکیونکہ بدقسمتی سے ہم ترقی کا ذریعہ کہیں نہ کہیں مغربی ثقافت کو اپنانے میں سمجھتے ہیں‘ ایک اور بڑی وجہ ہمارا دوغلہ یا کثیرالاجہتی نظام تعلیم بھی ہے جس میں پاکستانی ثقافت کے بجائے مغربی ذریعہ تعلیم یا ثقافت کو ہم سب کے لیے کامیابی کی ضمانت بنا دیا جاتا ہے‘ ہم بحیثیت والدین اور اساتذہ اپنی ثقافت، تہذیب وتمدن کو نئی نسل میں منتقل نہیں کر پا رہے ہیں‘ دنیا اس وقت ایک گلوبل ویلیج میں تبدیل ہوچکی ہے‘ ہم ایک دوسرے کی ثقافت سے ناآشنا بھی نہیں رہ سکتے مگر کبھی اپنے محور سے دور نہیں ہونا چاہیے‘ اپنی ثقافت میں ہی ہماری بقا ہے اور ہم سب کو مل کر اس کی ترویج میں اپنا بھرپور کردار ادا کرنا چاہیے۔ اسما سفیرکا کہنا تھا کہ جب ایک قوم ترقی کے زینے طے کرتی ہے تو ساتھ ساتھ اس کی تہذیب و ثقافت بھی عروج کی جانب سفر شروع کردیتی ہے اور رفتہ رفتہ دوسری اقوام ان سے متاثر ہو کر اس کی نقالی کی کوشش کرتی ہیں‘ اس وقت چونکہ مغربی تہذیب ترقی یافتہ مانی جاتی ہے لہٰذا باقی اقوام ان کی پیروی کرنے کی کوشش کرتی ہیں‘ ہمارے ملک میں بھی ان سے مرعوب و متاثر لوگ ان کی نقل کرکے خود کو ماڈرن ثابت کرنے کی کوشش کر تے ہیں اور احساس کمتری میں مبتلا ہوکر اپنی معاشرتی اقدار کو چھوڑنے اور مغربی کلچر اپنانے میں ان کو شرمندگی کے بجائے فخر محسوس ہوتا ہے چونکہ اس طرح کے لوگ زیادہ تر بااثر افراد ہیں اور اہم عہدوں پر فائز ہیں تو پورے ملک کی ثقافت کو بھی اسی رنگ میں ڈھالنے کی کوشش میں لگے ہوتے ہیں‘ اسی طرح الیکٹرونک اور سوشل میڈیا پر بھی اسی کا رنگ نمایاں ہے‘ ہمارے ٹی وی چینلز کے پروگرامات اور ڈرامے بھی اس کو بڑا خوش نما بنا کر پیش کر رہے ہیں تو عام افراد بھی تیزی سے اثر قبول کر رہے ہیں یہاں تک کہ ان کے مذہبی تہوار بھی منائے جانے لگے ہیں جبکہ مغرب کی وہ اچھائیاں جس کی وجہ سے وہ ترقی یافتہ بنے مثلاً سچائی، صفائی، وقت کی پابندی جیسی خصوصیات جو کہ انہوں نے ہمارے مذہب سے لی ہیں‘ ہم وہ چھوڑتے جا رہے ہیں‘ بحیثیت مسلمان ہم اس بات پر ایمان رکھتے ہیں کہ ہمارا مذہب اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے اور ہمارے نبی محمدؐ نے دوسری قوموں کی نقالی کو ناپسند فرمایا ہے تو چاہے کوئی قوم کتنی ہی ترقی کرلے ہمارے لیے ان کی نقل کرنا یا ان جیسا بن جانا کسی طرح بھی قابل تحسین نہیں ہے۔ ڈاکٹر مفتی نوید انورکا کہنا تھا کہ مغربی ثقافت پھیلنے کی سب سے اہم وجہ ہمارا تعلیمی نظام ہے کیوں بچے کو زمانہ طالبعلمی سے ہی مغرب سے روشناس کرایا جاتا ہے اور اسکولز، کالجز اور یونیورسٹیز میں مغربی کلچر کو فروغ دیا جاتا ہے‘ پھر قوم کو اور قوم کے معماروں کو یہ باور کرایا جاتا ہے کہ ملک پر حکمرانی کا حق بھی انہی 8 لاکھ بچوں کو حاصل ہے، جو انگریزی تعلیم اور کلچر سے آشنا ہیں‘ نا کہ وہ ساڑھے 3 کروڑ بچے جو اردو میڈیم میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں، یا وہ 26 لاکھ بچے جو مدارس میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں اور اسی طرح ہمارا حکمران طبقہ بھی چونکہ مغرب سے مرعوب ہے اور ان کے قوانین اور کلچر کو یہاں فروغ دینے کی کوشش کرتے ہیں جس کی وجہ سے مغربی ثقافت پھیل رہی ہے۔