۔3دسمبر 2021ء کو سیالکوٹ میں اسپورٹس گارمنٹ کی ایک فیکٹری میں انتہائی افسوس ناک اور ناخوشگوار سانحہ رونما ہوا، وزیر اعظم اور تمام سیاسی ومذہبی قائدین سے لے کر عام شہری تک اور تمام مکاتبِ فکر کے علماء نے اس پر تاسّف کا اظہار کیا اور اس کی شدید مذمت کی، اظہارِ مذمت کی بابت بیان ریکارڈ پر موجود ہے۔ ہجوم نے قانون کو ہاتھ میں لیا، یہ بے حد قابلِ افسوس ہے، اس طرح کی روش سے معاشرے میں انارکی، بے امنی اور لاقانونیت پھیلتی ہے، جس کے نتائج وعواقب ملک کے لیے قومی اور عالمی سطح پر انتہائی نقصان دہ ہیں۔ ہم نے فوری طور پر اپنی طرف سے تاسّف اور مذمت کا اظہار مندرجہ ذیل کلمات سے کیا:
’’کل سیالکوٹ میں ایک انتہائی ناخوشگوار سانحہ رونما ہوا ہے، ہمیں اس سانحے کے حقائق اور واقعات کا علم نہیں ہے، بہرصورت ہم اس پر تاسّـف کا اظہار کرتے ہیں اور اس کی شدید مَذمّت کرتے ہیں۔ ہمارے ملک میں ایک آئینی اور قانونی نظام موجود ہے، اگرچہ اس کی شفافیت اور غیر جانبداری پر سوالات اٹھتے رہتے ہیں، تاہم اس کے ہوتے ہوئے قانون کو ہاتھ میں لینے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ اس سے معاشرے میں انارکی اور لاقانونیت پھیلتی ہے، جو کسی بھی صورت میں ملک وملّت کے مفاد میں نہیں ہے اور عالمی سطح پر بھی پاکستان کا منفی تاثّرپیدا ہوتا ہے، پاکستان پرکئی برسوں سے ویسے بھی ایف اے ٹی ایف کی تلوار لٹک رہی ہے۔ نیز میڈیا پر بھی لازم ہے کہ تحقیق وتفتیش اور اس کے نتائج آنے سے پہلے کسی فرد یا گروہ کو ذمے دار قرار نہ دیں، کیونکہ یہ رویـّہ بھی شرعی، قانونی اور اخلاقی اعتبار سے درست نہیں ہے‘‘۔
ایسے واقعات رونما ہونے کے بعد لازم ہوتا ہے کہ جذباتیت اور دبائو سے عاری ہوکر ان واقعات کا تجزیہ کیا جائے، آئندہ اس طرح کے واقعات کے سدِّباب اور پیش بندی کے لیے اس کے پیچھے کارفرما اسباب ومحرّکات کی کھوج لگائی جائے، ملکی ایجنسیوں اور تحقیق وتفتیش کے اداروں کو دبائو سے آزاد ہوکر غیر جانبدارانہ اور منصفانہ انداز میں تحقیق کا موقع دیا جائے، تحقیق وتفتیش کے نتائج آنے سے پہلے فیصلہ صادر نہ کیا جائے۔ مگر ہمارے ہاں نہ ایسا ہوتا ہے اور نہ ہوسکتا ہے، کیونکہ ہمارا میڈیا ایسا ماحول اور ایسی فضا پیدا کرتا ہے کہ تحقیق وتفتیش کے ادارے دبائو میں آجاتے ہیں اور معروضی انداز میں تحقیق کرنے کے بجائے موضوعی انداز میں تحقیق شروع ہوجاتی ہے، اس کے نتیجے میں اصل اسباب ومحرّکات سے صرفِ نظر ہوجاتا ہے اور پھر کچھ وقت گزرنے کے بعد یہ معاملہ فراموش کردیا جاتا ہے، ماضیِ قریب میں نورمقدّم کا کیس اس کی نمایاں مثال ہے۔
ہمارے لبرل میڈیا نے پہلے سے طے شدہ اپنی ذہنی ساخت اور سوچے سمجھے منصوبے کے مطابق اور تحقیق وتفتیش کے نتائج آنے سے پہلے اس کا رخ چند نعروں کی آڑ لے کر ایک مذہبی تنظیم کی طرف موڑ دیا، یہ رویہ بحیثیت ِ مجموعی غیر حقیقت پسندانہ ، عقل ودانش اور تدبر وتفکّر کے سراسر خلاف ہے، یہ ایسا ہی ہے کہ ڈاکوئوں یا مجرموں کا کوئی گروہ لوٹ مار کرے ، پھر ’’پاکستان زندہ باد‘‘ کا نعرہ لگا کر منتشر ہوجائے اور سننے اور دیکھنے والے یہ نتیجہ اخذ کریں کہ یہ واقعہ پاکستانی اداروں یا حکومت ِ پاکستان کے ایماء اور آشیرباد کے نتیجے میں رونما ہوا ہے۔ الغرض منصوبہ بندی کے ساتھ کوئی بھی نعرہ لگایا جاسکتا ہے اور اس کا رخ کسی کی طرف بھی موڑا جاسکتا ہے، ہمارے ایک بزرگ کہا کرتے تھے: ’’اگر کوئی آپ کو کہے: کوا آپ کا کان لے اڑا‘‘، تو کوے کے پیچھے دوڑنے سے پہلے اپنے کان کو ہاتھ سے چھو کر دیکھ لینا چاہیے کہ وہ اپنی جگہ صحیح سلامت ہے یا نہیں ہے۔ اس لیے ہم نے گزارش کی تھی: ’’کوئی نتیجہ اخذ کرنے سے پہلے تحقیقاتی رپورٹ کا انتظار کرنا چاہیے،‘‘ بعد میں وزیر اعظم کے معاون برائے بین المذاہب ہم آہنگی مولانا طاہر اشرفی نے کہا: ’’اس واقعے کے پیچھے کوئی مذہبی تنظیم نہیں ہے، یہ انتظامی نا اہلی کا معاملہ ہے‘‘، مگر اس دوران مین اسٹریم کے درجنوں ٹیلی ویژن چینل اور سوشل میڈیا پر اسٹوڈیوز میں بیٹھ کر عدالتیں لگانے والے اینکر پرسن اور تجزیہ نگار تو اپنا حتمی فتویٰ صادر کرچکے تھے، یہ رویہ شرعی، قانونی اور اخلاقی اعتبار سے درست نہیں ہے، لیکن چونکہ ہمارے الیکٹرونک میڈیا پر لبرل عناصر کا غلبہ ہے، تو وہ دین کو ہدف بنانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے، اب جبکہ اصل واقعات چھَن کر سامنے آرہے ہیں، تو اُن پر کوئی بات نہیں کر رہا اور سب نے چپ سادھ لی ہے۔
جب ہم حقیقت پسندانہ تجزیے کی بات کرتے ہیں اور دیگر اس طرح کے واقعات کا حوالہ دیتے ہیں تو بدنیتی کی بنیاد پر یہ کہا جاتا ہے کہ گویا اس سانحے کا جواز پیش کیا جارہا ہے، حالانکہ اللہ بہتر جانتا ہے کہ ایسا ہرگز نہیں ہوتا اور کسی مسلمان کی نیت پر ایسا شبہ بھی نہیں کرنا چاہیے۔ ہمارے ہاں ایسے مواقع پر اپنے مذہب، قوم وملک اور حکومت کو طعن وتشنیع کا ہدف بنانا شروع کردیتے ہیں، حالانکہ اگر دوسرے ممالک میں ایسے واقعات رونما ہوں تو ہمارا رویہ مختلف ہوتا ہے۔ چند سال پہلے نیوزی لینڈ میں عین نمازِ جمعہ کے وقت دہشت گردی کا بڑا سانحہ رونما ہوا، کئی نمازی شہید کردیے گئے، اس پر نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم جسینڈا آرڈن نے بہتر کردار ادا کیا تو ہمارے میڈیا اور پوری قوم نے ان کی تعریف وتوصیف شروع کردی، یہ اچھی بات ہے۔ لیکن یہاں تو ایک فرد کو ظالمانہ انداز میں قتل کیا گیا اور اس موقع پر ہماری حکومت نے مثبت رویہ اختیار کیا، اسے ایک طرح سے قومی المیہ قرار دیا، متاثرہ خاندان او ر سری لنکا کی حکومت کے ساتھ اظہارِ ہمدردی کیا، مقتول شخص کی میت کو خصوصی انتظامات کے تحت اسپیشل فلائٹ کے ذریعے سری لنکا بھیجا گیا، لیکن ہمارے میڈیا نے اس مثبت رویے پر حکومت یا قوم کی تعریف نہیں کی، کیونکہ ہمیں صرف اپنے عیب تلاش کرنے اور خود کو ملامت کرنے میں لطف آتا ہے۔ ایسا بھی نہیں کہ ایسا واقعہ روئے زمین پر پہلی بار رونما ہوا ہو، لاہور ہی میں مسیحی برادری نے دو مسلمانوں کو جلادیا تھا، میانمر میں کون سا ظلم ہے جو مسلمانوں پر نہ ڈھایا گیا ہو، بھارت میں مسلمانوں پر کون سے مظالم ہیں جو نہیں ڈھائے گئے،کینیڈا میں ایک ٹرک ڈرائیور نے ایک مسلمان پاکستانی فیملی کو صرف اس لیے اپنے ٹرک تلے کچل دیا کہ وہ مسلمان تھے، لیکن جس طرح محض ایک واقعے پر پاکستان کو نشانے پر رکھا گیا، دوسروں کے ساتھ یہ رویہ نہیں برتا جاتا۔
اسی طرح ایسے مواقع پر باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت ’’قانونِ تحفظ ناموسِ رسالت‘‘ کو ہدف بنایا جاتا ہے، ہر برائی کو گھماپھرا کر اس قانون کے ساتھ نتھی کردیا جاتا ہے اور ہمارا میڈیا اس حوالے سے دانستہ یا نادانستہ طور پر عالمی ایجنڈے کا حصہ بن جاتا ہے، ماضی کے واقعات کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر اس کے ساتھ جوڑا جاتا ہے تاکہ اس قانون کے بارے میں منفی ردِّعمل پیدا ہو، یہ رویہ بھی درست نہیں ہے۔ ان مواقع پر خاص طور پر علماء سے رابطہ کیا جاتا ہے اور اس کے پیچھے بھی یہ سوچ کارفرما ہوتی ہے کہ ان سانحات کی وجوہ واسباب مذہب میں پیوست ہیں، یہ درست نہیں ہے، یہ بھی پوچھا جاتا ہے کہ اس میں علماء کا کردار کیا ہونا چاہیے، تو جواباً عرض ہے: ’’علماء کی ذمے داری تقریر اور تحریر کے ذریعے اسلام کے پرامن پیغام کو پہنچانا ہوتا ہے، نفرتوں کو مٹانا ہوتا ہے، انسانی حقوق کی پاسداری اور قانون کی عملداری کی ضرورت کا احساس دلانا ہوتا ہے، علماء کے پاس کوئی حکومتی یا انتظامی اختیارات نہیں ہوتے اور نہ کوئی حکومت اپنے اختیارات سے دست بردار ہونے کے لیے تیار ہوتی ہے‘‘۔ اگر سوال کا مقصد یہ ہے کہ لوگوں میں آگہی پیدا کی جائے، اسلام کی تعلیمات سے آگاہ کیا جائے، انسانی جان ومال اور آبرو کی حرمت کی بابت اسلام کے احکام کو بیان کیا جائے، انسانی حقوق کی پاسداری کی تلقین کی جائے، تو گزارش ہے کہ علماء اپنے پلیٹ فارم سے ایسا کرتے رہتے ہیں، لیکن اب جدید الیکٹرونک میڈیا کے سبب اطلاعات کی بہم رسانی، کسی سوچ اور فکر کو عام کرنے اور اصلاحی کردار ادا کرنے کے حوالے سے الیکٹرونک میڈیا کو سب سے زیادہ رسائی حاصل ہے، لیکن ان کا مزاج ٹھیرائو اور تلقین وتربیت کا نہیں ہوتا، بلکہ باہمی مسابقت کی وجہ سے سنسنی پھیلانے کو ترجیح دی جاتی ہے، شورو غوغا زیادہ کیا جاتا ہے، اپنے مذہب، قوم اور ملک وملّت کو ملامت کرکے لطف اٹھایا جاتا ہے، جتنا ہمارا میڈیا اپنے ملک کا منفی تاثر دنیا کے سامنے پیش کرتا ہے، شاید ہی دنیا کے کسی ملک کا میڈیا اس طرح کرتا ہو۔ تصوّف میں ایک ’’فرقۂ ملامتیہ‘‘ ہوتا ہے، کہا جاتا ہے کہ وہ دانستہ ایسی حرکات کرتے ہیں کہ لوگوں کی توجہ کا مرکز نہ بنیں، مرجعِ عقیدت نہ بنیں، لوگ اُن سے اور وہ لوگوں سے دور رہیں، سو ہمارا میڈیا بھی اپنی قوم وملک کا تاثّر ’’خود ملامتی‘‘ اور ’’خود مذمتی‘‘ قوم کے طور پر پیش کرتا ہے، اس لیے ہم میڈیا سے اپیل کرتے رہتے ہیں کہ خدارا! کبھی اپنے ملک وملّت اور قوم کا اچھا تاثّر اور اچھا تشخّص بھی دنیا کے سامنے پیش کرلیا کریں۔
نیز ایسے مواقع پر تسلسل اور تکرار کے ساتھ اس موقف کا اعادہ کیا جاتا ہے کہ ’’قانونِ تحفظِ ناموسِ رسالت مآبؐ‘‘ کو ذاتی انتقام کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، ہم بارہا کہہ چکے ہیں کہ اس قانون کے ضوابط کو آسان بنایا جائے،
ایف آئی آر کو فوراً درج کیا جائے، اس طرح ملزَم پولیس کی حفاظتی تحویل میں چلا جائے گا اور لوگ قانون کو ہاتھ میں نہیں لے سکیں گے اور پھر ان مقدمات کا ٹرائل براہِ راست فیڈرل شریعت کورٹ میں کیا جائے اور تحقیق وتفتیش اور مقدمات کے فیصَل ہونے کی مدت ایک ماہ مقرر کردی جائے، فیڈرل شریعت کورٹ میں دینی علم اور اچھی شہرت رکھنے والے قابل اور اہل ججوں کی تعیناتی کی جائے، اگر ملزَم بے گناہ ہوگا تو جلد باعزت رہا ہوجائے گا اور اگر خدانخواستہ اس نے جرم کا ارتکاب کیا ہوگا تو اُسے سزا ملے گی، لیکن ہمارے ہاں ایف آر کے اندراج ہی کو مشکل ترین بنادیا گیا ہے اور اس کا فائدے کے بجائے نقصان زیادہ ہورہا ہے، سابق صدر جنرل پرویز مشرف بھی کہہ چکے ہیں کہ اہانتِ رسول کی آڑ لے کر لوگ مغربی ممالک جانے کے لیے اپنے لیے مواقع پیدا کرتے ہیں۔