اسلام آباد: وفاقی شرعی عدالت میں سود کے خاتمے کیلئے دائر درخواستوں پر سماعت کے موقع پر عدالتی معاون انور منصور خان نے دلائل دئیے ہیں کہ آئین کے مطابق ریاست دس سال میں ہر طرح کے استحصال کے خاتمے کی پابند تھی،سود بھی استحصال کی ہی ایک قسم ہے۔
عدالتی دائرہ اختیار صرف 1980 سے 1990 تک نہیں تھا،سال 1990 سے شریعت کورٹ قوانین کو غیراسلامی قرار دینے کا اختیار رکھتی ہے،ربا کا خاتمہ ضروری ہوگیا ہے، سپریم کورٹ بھی قرار دے چکی ہے کہ تمام قوانین کو اسلامی تعلیمات کے مطابق ڈھالا جائے۔
قرآن و سنت کے متصادم کوئی بھی قانون سازی نہیں ہو سکتی،حکومت نے بنک سے لیا گیا قرض کی ریکوری کا قانون ہی ختم کر دیا ہے،سود حرام ہے اس لئے اسکی بنیاد پر ملنے والا قرض اب نہیں جاری ہوسکے گا، ریکوری کا قانون ختم ہونے کا مطلب ہے کہ قرض جاری ہی نہیں ہوگا ،بنک ریکوری ہی نہیں کر سکے گا تو قرض جاری ہی کیوں کرے گا۔
اصل سوال یہ ہے کہ اسلامی بنکاری ہے کیا،پیسے کو خریدا جا سکتا ہے نہ ہی یہ فروخت ہو سکتا،ایک ہزار روپیہ دیکر دو ہزار مانگنا ربا کے زمرے میں آتا ہے،اشیاء فروخت ہوسکتی ہیں پیسہ نہیں۔
معاملہ کی سماعت چیف جسٹس وفاقی شرعیت کورٹ نور محمد مسکانزئی کی سربراہی میں تین رکنی بینچ کی۔دوران سماعت سربراہ جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق نے عدالت کو بتایا کہ کے پی میں فنانس منسٹر تھا تو صوبے میں اسلامی بنکاری شروع کی،آج پوری قوم اس عدالت کی طرف دیکھ رہی ہے۔
سراج الحق کا کہنا تھا کہ قائداعظم کے نعرے پاکستان کا مطلب کیا لا الہ اللہ پر قوم نے لبیک کہا،مشیر خزانہ نے اعتراف کیا کہ سودی نظام سے غریب اور امیر میں فرق بڑھ گیا ہے،میں نے جرمن سرکاری بنک کے سربراہ کو سود سے پاک نظام پر تین گھنٹے بریفنگ دی،آج جاپان سود سے پاک معیشت کی جانب بڑھ رہا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ گزشتہ بجٹ میں 33 ہزار ارب ملک نے سود میں ادا کیا،وزیر خزانہ نے بتایا کہ سود ادا کرنے کیلئے مزید قرض لینا ہوگا،سودی نظام کی وجہ سے معیشت ترقی نہیں کر رہی ہے، 1957 میں 37 کروڑ ڈالر قرض ملا اسکی وجہ سے آج تک مقروض ہیں۔
امیر جماعت اسلامی پاکستان کا کہنا تھا کہ قرض ہمیں چرس کے نشے کی طرح ایسا لگا کہ آج 47 ہزار ارب تک پہنچ گیا ہے،شریعت کورٹ نے ماضی میں سود کیخلاف فیصلہ دیا تھا،دوست ملک سے ملنے والی خیرات پر بھی آج سود ادا کرنا پڑے گا،جو دلائل ہم پیپلزپارٹی اور ن لیگ کی دور میں سنتے تھے آج بھی وہی سنے ہیں،کیا لازمی ہے کہ جب تک لاکھوں لوگ سڑک پر طویل دھرنے نا دیں تب تک حکمران بات نہیں سنیں گے؟
بعد ازاں عدالت نے انور منصور خان کو جمعہ تک ہونے دلائل مکمل کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کیس کی سماعت ایک دن کے لئے ملتوی کر دی ہے۔