سپریم کورٹ نے رکن قومی اسمبلی علی وزیر کی ضمانت منظور کرتے ہوئے4 لاکھ روپے کے مچلکے ٹرائل کورٹ میں جمع کرانے کا حکم دیدیا۔
منگل کو سپریم کورٹ میں علی وزیر کی درخواست ضمانت سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی۔ دوران سماعت عدالت میں کالعدم ٹی ٹی پی سے مذاکرات کا نام لیے بغیرتذکرہ بھی ہوا۔ جسٹس سردار طارق نے کہا کہ ریاست مذاکرات کرکے لوگوں کو چھوڑ رہی ہے، ہوسکتا ہے کہ کل علی وزیرکے ساتھ بھی معاملہ طے ہوجائے۔
جسٹس سردارطارق نے ریمارکس دئیے کہ لوگ شہید ہورہے ہیں، کیا وہاں قانون کی کوئی دفعہ نہیں لگتی کیا عدالت صرف ضمانتیں خارج کرنیکی لئے بیٹھی ہوئی ہے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ کیا علی وزیر کے الزامات پر پارلیمان میں بحث نہیں ہونی چاہیے۔علی وزیرنے شکایت کی تھی اور اس کا گلہ دورکرنا چاہیے تھا۔ اپنوں کوسینے سے لگانے کے بجائے پرایا کیوں بنایا جا رہا ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے سوال اٹھایا کہ اگر علی وزیر کا ایک بھی الزام درست نکلا تو کیا ہوگا۔ شریک ملزمان سے رویہ دیکھ کرگڈ طالبان بیڈ طالبان والا کیس لگتا ہے۔ سپریم کورٹ نے ریمارکس دئیے کہ شریک ملزمان کی ضمانت ہوچکی ہے جس کوچیلنج نہیں کیا گیا اور کیوں کہ شریک ملزمان کی ضمانت ہوگئی ہے تو علی وزیرکوبھی جیل میں نہیں رکھاجاسکتا ہے