کراچی (رپورٹ: منیر عقیل انصاری) جنوبی ایشیا میں چین معاشی لحاظ سے مضبوط اور مستحکم پوزیشن رکھتا ہے اور 100 سال تک جنگ نہ کرنے کی پالیسی نے چین کو معاشی لحاظ سے مضبوط کر دیا ہے‘ جنوبی ایشیا کے طاقت کا توازن کسی ایک ہاتھ میں نہیں ہے‘ بھارت اب غیر جانبداری چھوڑ کر امریکا کی گود میں بیٹھ گیا ہے اورچین کے مقابلے میں بھارت امریکا کا ساتھ دے رہا ہے جو چین کی ترقیاتی اور مالی منصوبوں کے ذریعے اپنے قدم مضبوط بنانے کی حکمت عملی کو کمزور کرنے کی کوششوں کی ایک کڑی ہے‘ ابھی تک مجموعی صورتحال میں چین زمینی اور سمندری پروجیکٹس کے ذریعے جنوبی ایشیا کی کمزور معیشت کو سنبھالنے، افغانستان کے معاملے پر پاکستان کی خاموش حمایت کرنے اور مغربی طاقتوں کے گٹھ جوڑ کو روس کے ساتھ مل کر بے اثر کرنے میں کامیاب رہا ہے۔ ان خیالات کا اظہار وفاقی جامعہ اردو شعبہ بین الاقوامی تعلقات کی اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر رضوانہ جبیں، سینئر صحافی و تجزیہ نگار، معروف بلاگر20 برس سے زاید اردو اور انگریزی زبان کے مختلف قومی اخبارات سے وابستہ اور موجودہ جی این این ٹی وی کے ہیڈ آف انٹر نیشنل ڈیسک ڈاکٹر محمد آصف شاہد اور ڈی ایچ اے صفہ یونیورسٹی کراچی کی پروگرام منیجر انٹرنیشنل ریلیشنز سدرہ احمد نے جسارت کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ ’’کیا جنوبی ایشیا بھارت کے ہاتھ سے نکل کر چین کے اثر میں چلا گیا ہے؟ ڈاکٹر رضوانہ جبیں نے کہا کہ جنوبی ایشیا کے 7 ممالک میں بھارت آبادی اور رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑا ملک ہے تاہم چین کے پاکستان کے ساتھ تعلقات بھارت کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے جبکہ سی پیک کا منصوبہ بھی بھارتی معیشت کے لیے ایک بڑا خطرہ ثابت ہو سکتا ہے‘ علاقائی حکمت عملی اور استحکام کے تناظر میں دیکھا جائے تو ہمیں اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ اس وقت خطے میں چین معاشی لحاظ سے مضبوط اور مستحکم پوزیشن رکھتا ہے اور100 سال تک جنگ نہ کرنے کی پالیسی نے چین کو معاشی لحاظ سے مضبوط کر دیا ہے‘ اس کے علاوہ جدید ٹیکنالوجی اور وبائی امراض سے فوری نمٹنے کی صلاحیت نے چین کو استحکام بخشا ہے‘ چین نے پاکستان کو سپورٹ کرنے کے ساتھ ساتھ بھارت سے بھی اپنی خاموش سفارت کاری کے ذریعے معاشی روابط استوار رکھے ہیں‘ اگرچہ چین کا معاشی استحکام اور تکنیکی صلاحیت بھارت کے خدشات میں اضافہ کرتی ہے کیونکہ بھارت نے پاکستانی کشمیر سے سی پیک کا راستہ گزارنے پر بھی تحفظات کا اظہار کیا ہے‘ چین کی پالیسی میں توازن کی وجہ سے اب جنوبی ایشیا پر بھارت کے بجائے چین کا غلبہ نظر آتا ہے‘ کشمیر کے حوالے سے اگر بات کی جائے تو چین صرف پاکستان کا حمایتی ہونے کے بجائے جنوبی ایشیا میں کشیدگی میں کمی پر زور دیتا ہے‘ اس کا مطلب یہ ہے کہ چین زمینی حقائق کو مدنظر رکھ کر اپنی پالیسی ترتیب دیتا ہے‘ اگرچہ تزویراتی پالیسیوں میں چین کا بھارت سے اختلاف ہے تاہم معاشی انضمام کی وجہ سے چین خطے میں دیگر ممالک کی نسبت اہم کردار ادا کر رہا ہے‘ چین کی بہترین تزویراتی حکمت عملی کی وجہ سے اب جنوبی ایشیا بھارت کے ہاتھ سے نکل کر چین کے اثر میں چلا گیا ہے۔ ڈاکٹر آصف شاہد نے کہا کہ جنوبی ایشیا کے طاقت کا توازن کسی ایک ہاتھ میں نہیں ہے‘ بھارت اب غیر جانبداری چھوڑ کر امریکا کے گود میں بیٹھ گیا ہے اور چین کے مقابلے میں بھارت امریکا کا ساتھ دے رہا ہے‘ چین کو روکنے کے لیے امریکا نے ایک غیر رسمی اتحاد بنا رکھا ہے جو ’’کواڈ‘‘ کہلاتا ہے یہ مستقبل میں باضابطہ اتحاد کی شکل اختیار کرسکتا ہے‘ چین کی پالیسی محض تزویراتی نکات پر مشتمل نہیں ہے بلکہ معاشی و تجارتی معاملات سے بھی منسلک ہے ‘ چین کا معاشی طور پر پاکستان اور بھارت کے ساتھ رابطہ چین کو خطے میں مصروف رکھے گا اور اس کی ترجیحات جنوبی ایشیا میں کشیدگی میں کمی لانا اور مسائل کو حل کرنا ہو گی‘ درحقیقت چین اس خطے میں بحرانی کیفیات کو کم کرنے میں سب سے بہترین پوزیشن رکھتا ہے چونکہ اس کے بیک وقت پاکستان کے ساتھ دوستانہ اور بھارت کے ساتھ گہرے معاشی روابط استوار ہیں‘ اصل میں چین نے خطے میں موجود معاشی مفادات کی وجہ سے محض پاکستان کو سپورٹ کرنے کے ساتھ ساتھ ایک متوازن پوزیشن اختیار کر لی ہے۔سدرہ احمد نے کہا کہ مشہور نیول آفیسر، تاریخ دان اور بحری حکمت عملی کے ماہر الفریڈ تھائیر کا کہنا ہے “مستقبل میں جو بحر ہند پر قبضہ کرلے گا وہ ایشیا پر حکومت کرے گا”. جنوبی ایشیا میں چین کے عزائم کچھ اسی طرح کے ہیں جو کہ یقیناً بھارت کو جنوبی ایشیا پر بلا شرکت غیر حکومت کرنے کے خواب غفلت سے بیدار کرنے کے لیے کافی ہیں‘ جنوبی ایشیا پر بھارت کی اجارہ داری کا نظریہ اب قصہ پارینہ بن چکا ہے‘ چین 21 ویں صدی کی جدید طرز حکمت عملی کے تحت اپنی توجہ معیشت، سیاست، ماحولیات، آبادیات اور توانائی کے شعبوں پر مرکوز کیے ہوئے ہے اور انہی ترجیحات کے تحت چین بحر ہند سے متعلق اپنی پالیسیاں ترتیب دے کر ان پر تیزی سے عملدرآمد کر چکا ہے جن کی ہمہ گیری اور وسعت کا اسی طاقت اور استعداد کے ساتھ تن تنہا مقابلہ کرنا اب بھارت کے لیے یقیناً ناممکن ہے کیونکہ اس کی کورونا زدہ معیشت اور وہاں شدید سماجی تقسیم بھی ہے‘ علیحدگی پسند تحریکوں اور تیزی سے بڑھتی شدت پسندی نے بھارت کا برا حال کیا ہوا ہے‘ چین ایک طرف BRI جیسے ملٹی ٹریلین میگا پروجیکٹ کے ذریعے اپنا زمینی اثر و رسوخ بڑھانے کے لیے مشرقی ایشیا سے لیکر یورپ اور افریقا تک پہنچنے کے لیے روڈز اور ریلوے کا نیٹ ورک بچھانے کے لیے پوری طرح سرگرم ہے، بلکہ بحر ہند میں” اسٹرنگز آف پرلز” نامی مشہور چینی حکمت عملی کے تحت سری لنکا، پاکستان، بنگلادیش، مالدیپ اور میانمار میں پر امن دفاعی شراکت کے اصول کے تحت بحری بندرگاہیں قائم کر کے بھارت کی ہر دفاعی و جنگی پیش قدمی پر کڑی نظر رکھے ہوئے ہے‘ بھارت کی حالت اس وقت ایک ایسے بے بس تماشائی کی سی ہے جو اپنے سالہا سال پرانے خواب کو تکمیل سے محروم ہوتے ہوئے دیکھنے کے سوا کچھ نہیں کرسکتا‘ کر سکتا ہے تو بس اپنے ہمدرد مغربی ممالک کی مدد کا انتظار کر سکتا ہے‘ دلچسپ بات یہ ہے کہ بھارت اس وقت چین کی بنیادی دفاعی، جنگی یا اسٹریٹجک پالیسی کا مرکز ہے ہی نہیں، اس کی موجودہ پوزیشن درحقیقت چین و امریکا کی بحر ہند پر جاری دفاعی و سمندری برتری کی نفسیاتی جنگ میں استعمال ہونے والے پراکسی کی سی ہے‘ جس کے ذریعے امریکا چین کو بحر ہند میں مکمل کنٹرول حاصل کرنے کے مقصد میں مسلسل انگیج کر کے رکھنا چاہتا ہے تاکہ چین کی پیش قدمی محدود رہے اور اسی مقصد کے تحت امریکا، آسٹریلیا، بھارت اور جاپان نے QUAD یعنی ’’کواڈ‘‘ نامی ایک اتحاد بنایا ہے جبکہ ایک اور کثیر مالیاتی و ترقیاتی منصوبہ B3W جس کے ممبرز میں مشرقی ممالک میں سے صرف بھارت شامل ہے، یہ منصوبہ بھی چین کی حکمت عملی کو کمزور کرنے کی کوششوں کی ایک کڑی ہے۔ فی الحال خطے کی مجموعی صورتحال میں چین کا زمینی اور سمندری پروجیکٹس کے ذریعے جنوبی ایشیا کی کمزور معیشت کو سنبھالنے، افغانستان کے معاملے پر پاکستان کی خاموش حمایت اور مغربی طاقتوں کے گٹھ جوڑ کو روس کے ساتھ مل کے بے اثر کرنے میں ابھی تک چین نہایت عمدگی سے کامیاب رہا ہے‘ یہ کہنے میں یقیناً کوئی حرج نہیں ہونا چاہیے کہ جنوبی ایشیا میں اب فیصلے اور پالیسی میکنگ چین کی بلا واسطہ یا بلواسطہ حمایت کے بغیر ہونا ممکن نہیں رہا‘ چین بھارت کا سب سے بڑا تجارتی پارٹنر بھی ہے اور بھارتی پالیسی میکرز اپنی نئی حکمت عملی طے کرتے ہوئے اپنے بڑے کاروباری شراکت دار کو حقیقی چیلنج دینے سے پہلے کئی مرتبہ سوچیں گے۔