ذہنی پسماندہ افراد جدیدیت کی آڑ میں عریانیت پھیلانے کا سبب بن رہے ہیں

865

کراچی (رپورٹ: حماد حسین) اسلام جتنا روشن خیال اور وسعت النظرمذہب ہے اس کی کہیں کوئی مثال نہیں دی جاتی‘ اسلام میں جو حقوق خواتین کو حاصل ہیں وہ کسی اور کو حاصل نہیں ہیں‘ اسلام تو خواتین کو ہر چیز کی اجازت دیتا ہے مگر ایک حد میں رہ کر، حد سے تجاوز کرنا تو کسی بھی چیز کے لیے نقصان دہ ہے‘70 برس گزرنے کے بعد بھی ہم چند فیصد انگریزوں کے غلاموں اور محکوم ذہنیت رکھنے والوں سے چھٹکارا نہیں پاسکے‘ جو بے دینی اور بے راہ روی کو ’’جدیدیت ‘‘سے تعبیر کرتے ہیں جو دین کے منافی چلنے کو نعوذ باللہ ترقی سمجھتے ہیں‘ بے ہودہ اور غیراسلامی لباس پہننے کو فیشن سمجھتے ہیں‘ ناچ گانوں کی محفلوں میں رقص کو سرور کو اسٹیٹس سمبل اور ایلیٹ ہونے کی نشانی جانتے ہیں‘ ایسے ذہنی طور پر پسماندہ افراد جنہیں دینی تعلیمات اور احکامات کی الف ب بھی نہیں معلوم‘ ہمارے ذرائع ابلاغ اور سیاست میں گھس گئے ہیں اور بے دینی کو فروغ دے رہے ہیں۔ان خیالات کا اظہارجناح یونیورسٹی برائے خواتین کے شعبہ اسلامک ایجوکیشن کی چیئرپرسن ثریا قمر، علما یونیورسٹی کے شعبہ میڈیا سائنسز کی چیئرپرسن ڈاکٹر یاسمین فاروقی اور طاہرہ فاروقی نے جسارت کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ ’’فیشن کے نام پر عریانیت پھیلنے کے اسباب کیا ہیں؟‘‘ ثریا قمر کا کہنا تھا کہ فیشن کا مطلب ہے کہ بننا سنورنا اور تراش خراش کے لباس کو ملبوس کرنا برا نہیں ہے جبکہ وقت اور زمانے کے ساتھ ساتھ جو اچھی تبدیلی ہو رہی ہے اسے اپنانا چاہیے لیکن اس میں بے حیائی کا عنصر نہ ہو‘ لباس کامطلب ہے جسم کو ڈھانپنا لیکن وہ لباس جو جسم کو ڈھانپ نہ سکے تو اس سے وہ مقصد پورا نہیں ہوگا اور اگر اس سے وہ مقصد پورا نہیں ہو رہا ہے تو وہ لباس نہ پہننا زیادہ بہتر ہو گا‘ دنیا میںاتنی اقوام اور مذاہب ہیں ‘کیا وہ اسلامی مذہب پر چلنے کو تیار ہوتے ہیں؟ کیا وہ اسلامی رسم و رواج کو اپنا رہے ہیں‘ نہیں وہ تو اپنے رسم و رواج اور اپنے لباس کے پابند ہوتے ہیں‘ ذرائع ابلاغ جیسے الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیاسے مختلف فیشن کی تحریک پیدا ہوتی ہے‘ مختلف پروگرام اور ڈراموں میں خواتین جو لباس پہن کر آتی ہیں ان کو معاشرے میں فروغ ملتا ہے ‘ اب آپ کسی شاپنگ مال اور دکاندار کے پاس جائیں تو وہ 2 پیس سوٹ دے رہا ہوتا ہے‘ گویا دوپٹے کا تصور ہی غائب کردیا گیا ہے‘ ہمارے یہاں آبادی کا ایک حصہ وہ ہے جو مغربی لباس پہننے میں خوشی محسوس کرتا ہے۔ اس کے پاس لڑکیوں کے لباس کو لے کے کوئی تصور ہی نہیں ہے‘ چاہے وہ کتنا ہی چھوٹا کیوں نہ ہو۔ میڈیا نے بہت بیڑا غرق کر کے رکھا ہے اس کے ذریعے سے یہ فیشن پروان چڑھتا ہے اور بے حجابی اور بے حیائی کا کلچر پروان چڑھتا ہے‘اس بات پر کوئی توجہ نہیں ہے کہ اللہ نے ہمیں مسلمان پیدا کیا ہے‘ ہم شریعت پر چلنے کے دعویدار بھی ہیں اپنے نبیؐ سے محبت کا دعویٰ بھی کرتے ہیں تو کہیں سے اسے ثابت بھی تو کریں‘ہمیں اپنے مقصد زندگی کو سمجھنے کی ضرورت ہے ورنہ یہ بھیڑ چال چلتی رہے گی‘ میڈیا کو بھی معاشرے کی اصلاح کے لیے کردار ادا کرنا چاہیے جو وہ نہیں کر پا رہا۔ فیشن ایک بہت بڑی انڈسٹری مگر اس کا مقصد بہرحال جسم کو ڈھانپنا ہے ناکہ آپ لباس پہن کے بھی عریاں رہیں ‘ جب بھی کوئی خاتون یا مرد جب گھر سے نکلتاہے تو کیا ماں باپ میں سے کوئی نہیں دیکھ رہا ہے کہ ان کی تربیت کہاں گئی‘ اگر انہوں نے پہننے اوڑھنے کا طریقہ اور معاشرے کے رسم و رواج نہیں سکھائے تو اس کے ذمے دار والدین اور تعلیمی ادارے ہیں‘ تربیت کا نظام جب کمزور پڑتا ہے تو ایسی چیزیں سامنے آتی ہیں اور اگر دینی تعلیمات ہمارے ذہن میں راسخ ہو تو ہم اس کے مطابق ہی عمل کرتے ہیں۔ ڈاکٹر یاسمین فاروقی کا کہنا تھا کہ جس طرح چہرہ شخصیت کا عکاس ہوتا ہے اسی طرح لباس کی وضع قطع اور طرز زندگی کسی بھی معاشرے کے آئینہ دار ہوتے ہیں‘ پاکستان بہت جدوجہداور قربانیوں کے بعد اسلامی اقدار کے مطابق زندگی گزارنے کے لیے حاصل کیا گیاتھا تاکہ یہاں اسلامی نظام نافذ ہوسکے مگر افسوس کہ آج 70 برس گزرنے کے بعد بھی ہم انگریزوں کے غلاموں اور محکوم ذہنیت رکھنے والوں سے چھٹکارا نہیں پا سکے جو بے دینی اور بے راہ روی کو ’’جدیدیت‘‘ اور نعوذباللہ ترقی سمجھتے ہیں‘ بے ہودہ لباس پہننے کو فیشن سمجھتے ہیں‘ ناچ گانے کی محفلوں میں رقص و سرور کو اسٹیٹس سمبل اور ایلیٹ ہونے کی نشانی جانتے ہیں‘ ایسے ذہنی طور پر پسماندہ افراد جنہیں دینی تعلیمات اور احکامات کی الف، ب بھی نہیں معلوم ہمارے ذرائع ابلاغ اور سیاست میں گھس گئے ہیں اور بے دینی کو فروغ دے رہے ہیں‘ کوئی سا بھی چینل دیکھ لیجیے، کسی بھی اشتہار پر نظر ڈالیں‘ خواتین کا لباس زیادہ نامناسب ہوتا ہے‘ کبھی کبھی قابل اعتراض بھی ہوجاتا ہے‘ اگر کسی بھی پڑھی لکھی، روشن خیال خاتون کو دکھانا ہو تو وہ مغربی لباس میں دکھائی جاتی ہے‘ فیشن دکھانا ہو تو نامناسب اور غیر شائستہ لباس دکھایا جائے گا‘ ابھی ایک پاکستانی ٹی وی چینل نے ایوارڈ کی تقریب منعقد کی‘ اس میں ہمارے فنکاروں خاص طور پر اداکارائوں نے جو لباس زیب تن کیے وہ کسی بھی مہذب معاشرے میں پہننے کے قابل نہیں تھے‘ ایسے لباس کو پہننے سے منع کیا گیا ہے جو جسم کی نمائش کرے‘ سمجھ نہیں آتا کہ یہ آخر اپنے غیر مہذب پہناوے کے ذریعے کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں‘ کیا یہ فیشن ہے کہ ہم انگریزوں کے غلام ہیں اور ان ہی جیسے نظر آنا چاہتے ہیں یا ہمیں مسلمان ہونے پر شرمندگی ہے؟ میڈیا ایک طاقتور پلیٹ فارم ہے اس سے جو کچھ دکھایا جاتا ہے وہ بہت اثر رکھتا ہے‘ آپ اندازہ کریں کہ فیشن کے نام پر بے ہودگی اور بداخلاقی کا معصوم بچیوں پر کیا اثر ہو رہا ہوگا‘ ان کے سادہ ذہنوں میں یہ بات بیٹھ جائے گی کہ مشرقی لباس، اسکارف وغیرہ دقیانوسی چیزیں ہیں‘ اگر آگے بڑھنا ہے تو مغربی انداز زندگی اپنا ہوگا‘ اگر ہم آنکھیں کھول کر دیکھیں تو ملکہ برطانیہ اور شاہی خاندان جب کہیں جاتے ہیں تو سر پر ہیٹ اور ہاتھوں پر دستانے اور لمبے اسکرٹ پہنتے ہیں‘ ان کے ہاں بھی شائستگی کا خیال رکھا جاتا ہے اور ایک ہم ہیں کہ جو ان کی نقالی میں اپنا دین، تہذیب و تمدن سب دائو پر لگاچکے ہیں‘ فیشن کے نام پر بے حیائی پھیلائی جا رہی ہے۔ PEMRAکے اخلاقی ضابطے پر کوئی عمل درآمد نہیں ہوتا‘ اسلام کے روشن خیال اور وسعت النظر مذہب ہونے کی کہیں کوئی مثال نہیںملتی‘ اسلام میں جو حقوق خواتین کو حاصل ہیں‘ وہ کسی اور کو حاصل نہیں ہیں‘ اسلام تو خواتین کو ہر چیز کی اجازت دیتا ہے مگر ایک حد میں رہ کر، حد سے تجاوز کرنا تو کسی بھی چیز کے لیے نقصان دہ ہے‘ ہمیں اپنے ذرائع ابلاغ کے لیے پالیسی بنانے والوں کو دینی تعلیم سے روشناس کرنا پڑے گا تا کہ انہیں معلوم ہو کہ معاشرتی و دینی اقدار کسے کہتے ہیں‘ یہ ایک اسلامی ملک ہے لہٰذا ضابطے بھی اسلامی ہونے چاہئیں‘ بے حیائی کو فروغ دینا ایسا ہی ہے جیسے اندھے کنویں میں چھلانگ لگانا۔ فرمان نبویؐ ہے: ’’جب تم حیا نہ کرو تو پھر خواتین مردوں کے حلیے اختیار کرلیں گی مرد عورت بن کر خوش ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ایسے مردوں پر لعنت بھیجی ہے جو خواتین کے حلیے اختیار کریں اور ایسی عورتوں پر لعنت ہے جو مرد کا حلیہ بنائیں جو جی چاہے کرو‘‘۔ یہ ایک ایسا طوفان ہے جو سب کچھ بہالے جائے گا‘ ہماری عافیت اپنی دینی حدود میں رہنے میں ہی ہے‘ ارباب اختیار کو اس بارے میں سنجیدگی سے سوچنا چاہیے اور میڈیا کا قبلہ درست کرنا چاہیے تاکہ ہماری بچیاں اور صف نازک نام نہاد فیشن کے نام پر پھیلنے والی غیر اخلاقی چیزوں میں وقت برباد کرنے کے بجائے کچھ مثبت سرگرمیوں میں حصہ لیں ملک و ملت کی ترقی اور سربلندی کے لیے کام کریں۔طاہرہ فاروقی کا کہنا تھا کہ اصل بات یہ ہے کہ صرف خواتین میں بے حیائی نہیں پھیل رہی ہے بلکہ پوری قوم میں بالعموم بے حیائی سرایت کرگئی ہے‘ خواہ وہ مرد ہو یا عورت‘ سب کا ایک ہی حال ہے‘ خواتین اس لیے ذمے دار قرار دی جاتی ہیں کہ ان کے بے حجاب اور مختصر لباس سے جذبات برانگیختہ ہوتے ہیں لیکن ان کو یہاں تک لانے میں سب سے پہلے والدین کا کردار ہوتا ہے جو بچی کو خوش لباسی کے نام پر غیراسلامی لباس اور سماجی سرگرمیوں کے نام پر بے حجابانہ سرگرمیوں میں حصہ لینے کی اجازت دیتے ہیں‘ اس کے بعد میڈیا فیشن انڈسٹریز اور تفریحی پروگرام سب ہی ملکر زیادہ سے زیادہ بے حجابی اور ناشائستگی پر اُکساتے ہیں‘عروسی ملبوسات لاکھوں روپے کے ہونے کے باوجود ستر پوشی سے عاری ہی ہوتے ہیں ۔