کراچی (رپورٹ: قاضی سراج) حکمران مزدوروں کی فلاح و بہبود سے متعلق قوانین پر عملدرآمد کرانے میں ناکام ہیں ‘ 25 ہزار روپے تنخواہ کرنے سے متعلق حکومتی نوٹیفکیشن کا کوئی پرسان حال نہیں‘ سرکاری ادارے لیبر ویلفیئر کے بجائے مالکان کے مفادات کا تحفظ کرتے ہیں‘ مزدور کمیٹیوں میں جعلی لیبر لیڈر بٹھا دیے گئے ہیں۔ان خیالات کا اظہار نیشنل لیبر فیڈریشن پاکستان کے سینئر نائب صدر ظفر خان، متحدہ لیبر فیڈریشن پنجاب کے جنرل سیکرٹری محمد حنیف رامے، پاکستان ورکرز فیڈریشن کے نیشنل یوتھ سیکرٹری اور ورکرز ایمپلائرز بائی لیٹرل کونسل آف پنجاب کے جنرل سیکرٹری چودھری سعد، سائٹ لیبر فورم کراچی کے جنرل سیکرٹری بخت زمین اور پی ٹی سی ایل ورکرز اتحاد فیڈریشن پاکستان اے بی سی کے مرکزی سینئر نائب صدر وحید حیدر شاہ نے جسارت کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ’’محنت کشوں کے مسائل کے حل میں
حکمرانوں کا کیا کردار ہے؟‘‘ ظفر خان نے کہا کہ مزدور اور کسان ملک کا سب سے زیادہ مظلوم اور مجبور طبقہ ہے جو ساری محنت اور معاشی تگ و دو کے باوجود اپنے بچوں کو 2 وقت کی روٹی تک نہیں کھلا پاتا‘ تعلیم و صحت اور دیگر ضروریات تو بہت دور کی بات ہے‘ ہر حکمران نے مزدور کی حالت بدلنے کے دعوے تو بہت کیے مگر اقتدار میں آنے کے بعد اس مظلوم طبقے کو یکسر نظر انداز کردیا جس کی وجہ سے مزدوروں کی حالت زار بہتر ہونے کے بجائے مزید بگڑتی چلی جا رہی ہے‘ مزدوروں کی تعداد7 کروڑ سے زاید ہے لیکن ای او بی آئی اور سوشل سیکورٹی اور دیگر حکومتی اداروں میں رجسٹرڈ مزدوروں کی تعداد تقریباً32 لاکھ ہے ان کے لیے حکومتوں کی طرف سے قانون سازی تو کی جاتی ہے مگر وہ صرف پوائنٹ اسکورنگ اور سیاسی مفاد کے لیے ہوتی ہے‘ اکثر و بیشتر ان قوانین پر عملدرآمد ہی نہیں ہوتا‘مہنگائی میں بے پناہ اضافے کے باوجود وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی طرف سے مزدوروں کے لیے 20 ہزار سے 25 ہزار روپے تک کم از کم تنخواہ کا نوٹیفکیشن جاری کیا گیا مگر اس پر بھی عملدرآمد برائے نام ہے‘ اس کے علاوہ مزدور مفادات کے تحفظ کے لیے بنائے گئے حکومتی ادارے اور اس کے افسران ہی سب سے زیادہ مزدور کا استحصال کر رہے ہیں۔ محمد حنیف رامے نے کہا کہ 1967ء میں ایوب خان کے خلاف عوامی تحریک چلی تو طلبہ کے ساتھ مزدور طبقے نے بھی بھرپور انداز میں اس تحریک میں حصہ لیا‘ اس جدوجہد کے نتیجے میں انڈسٹریل ریلیشنز آرڈی نینس1969ء لاگو ہوا جس کے ذریعے یونین سازی کی آزادی تو ملی مگر اس میں ایک ادارے میں ایک سے زیادہ یونین بنانے کی اجازت کا بعد میں غلط استعمال ہوا اور مزدور تحریک دھڑے بندی کا شکار ہوئی‘ اس کے بعد ذوالفقار علی بھٹو کا دور حکومت آیا تو 1972ء سے 1977ء کے5 سالہ دور میں مزدور تحریک کو عروج ملا جس میں بہت بڑی تعداد میں یونین رجسٹرڈ ہوئیں اور لاکھوں کی تعداد میں مزدور منظم ہوئے۔ اس دور میں ای او بی آئی جیسے نئے ادارے بھی بنے اور لیبر قوانین پر عملدرآمد بھی ہوا۔1977ء میں ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹ کر ضیا الحق برسراقتدار آئے، انہوں نے آتے ہی طلبہ یونینز پر پابندی لگا دی اور مزدور یونینز کے خلاف بہت سے اقدامات کیے گئے‘ 1978ء میں کالونی ٹیکسٹائل ملز کے مزدوروں پر فائرنگ کرکے لاتعداد مزدوروں کو شہید کردیا گیا‘ ضیا الحق کا پورا دور حکومت مزدور تحریک کے لیے پابندیوں کا دور رہا‘ اس کے بعد آنے والی حکومتیںآئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کی پالیسیوں پر عمل پیرا رہیں اوروہ حکومتیں بھی مزدوروں کی فلاح وبہبود کے لیے کوئی خاطر خواہ کام نہیں کرسکیں‘ محنت کشوں کو تحریک انصاف سے توقعات تھیں کہ شاید یہ کچھ مزدوروں کے لیے کام کرے‘ اس حکومت سے بھی مایوسی کے سوا کچھ نہیں ملا‘ اس دور میں مزدور کمیٹیوں میں جعلی لیبر لیڈر بٹھا دیے گئے‘ ای او بی آئی ورکرز ویلفیئر فنڈ اور سوشل سیکورٹی کی کارکردگی انتہائی ناقص ہے اور محکمہ محنت کا کردار مکمل طور پر لیبر ویلفیئر کے بجائے مالکان کے مفادات کا تحفظ کرتا ہے۔ چودھری سعد نے کہا کہ حکمران اوراشرافیہ مزدوروں اور پسے ہوئے طبقات کے مسائل سے لاتعلق ہوچکے ہیں‘ مزدور فیڈریشن کے ساتھ کوئی مشاورت نہیں ہوتی چونکہ مزدور تحریک کمزور ہے اور نئی ٹریڈ یونینز وجود میں نہیں آرہیں اس لیے حکمرانوں پر مزدوروں کا سیاسی دبائو بھی کم ہوگیا ہے‘ ذمے دار متعلقہ اعلیٰ افسران اپنے محکموں کے ماتحت افسران و اہلکاروںکی مزدور دشمن پالیسی پر ان سے کوئی جواب طلبی نہیں کرتے‘ اس لیے افسر شاہی بے لگام اور ناقابل احتساب ہوچکی ہے‘ مزدور کے مسائل کے حل کی جدوجہد کے لیے تمام مزدور تنظیموں کو حکومت پر دبائو ڈالنا ہوگا‘ این جی اوز کے چنگل سے نکلنا ہوگا‘ حکمرانوں کی لاتعلقی کا اس سے بڑا اورکیا ثبوت ہوگا کہ کئی سالوں سے مرکزی اور صوبائی سطح پر کوئی سہہ فریقی لیبر کانفرنس منعقد نہیں ہوسکی‘ اٹھار ویں ترمیم کے بعد مرکزی سطح پر لیبر منسٹری کو ختم کردیا گیا ہے جس سے مزدور کے مسائل میں مزید اضافہ ہی ہوا ہے۔بخت زمین نے کہا کہ سندھ ورکرز ویلفیئر بورڈ کے تحت 2012ء میں الاٹ شدہ فلیٹوں( گلشن معمار لیبراسکوائر اور ناردرن بائی پاس لیبر اسکوائر) میں ابھی تک پانی، بجلی اور گیس کے کنکشن فراہم نہیں کیے جاسکے‘ اس لیے کہ یہ ورکرز مجبور ہوکر فلیٹوں کو اونے پونے ان نیب زدہ افسران کے پٹھو بلڈروں کے ہاتھوں فروخت کریں۔ ای او بی آئیکرپشن میں سب سے آگے ہے ‘ ضعیف پنشنرز کو پریشان کیا جاتا ہے‘ یہ ادارہ ورکرز کی کنٹریبوشن پر قائم ہے‘ حکومت اس ادارے کو کوئی رقم نہیں دیتی لیکن ای او بی آئی کے ملازم کی پنشن 20 ہزار سے60 ہزار روپے تک ہے اور جن ورکرز کے کنٹوبیشن پر یہ ادارہ قائم ہیں ان کی پنشن 8500 روپے ہے‘ بدقسمتی سے ان تمام اداروں کی گورننگ باڈی میں حکمرانوں نے صنعتی ورکرز کو نمائندگی نہیں دی اور وہاں پر غیر صنعتی ورکرز کو نمائندگی دی گئی ہے جو ہمارے مسائل سے ناواقف ہیں اور اس لیے ہمارے مسائل کم ہونے کے بجائے بڑھ گئے ہیں‘ مزدوروں کے مسائل کے حل کے لیے نیب زدہ افسران کو ہٹانا، لیبر قوانین پر عملدرآمد اور گورننگ باڈیوں میں صنعتی ورکرز کے حقیقی نمائندوں کو شامل کرنا ہوگا ۔ وحید حیدر شاہ نے کہا کہ مو جودہ دور میں تو مزدور کے مسائل ہیں ہی حکمرانوں کی وجہ سے‘ حکمران ان قوانین پر عمل درآمد نہیں کراتے جو کہ پہلے سے موجود ہیں اور نہ ہی مزدور طبقے کی فلاح و بہبود کے لیے نئی قانون سازی کرتے ہیں۔ نجی شعبے میں جو افراد یونین سازی کے لیے کوشش کرتے ہیں انہیں نوکریوں سے نکال دیا جاتا ہے‘ ان پر جھوٹے مقدمات درج کرائے جاتے ہیں‘ عملی طور پر مزدور تحریک مفلوج ہو کر رہ گئی ہے‘ اس کی تمام تر ذمے داری حکمران طبقے پر عاید ہوتی ہے‘ اگر حکمران پہلے سے موجود لیبر قوانین پر عمل درآمد کرائیں ‘ ان فلاح و بہبود کے لیے قانون سازی کریں تو مزدور طبقے کے مسائل میں کمی آسکتی ہے۔