ملک کس طرف جارہا ہے

633

ملک کو معرضِ وجود میں آئے 74 سال ہوچکے ہیں۔ ہر ادارہ انحطاط پزیر ہے۔ قوانین اور اُن کے طریقہ کار کو بالائے طاق رکھ دیا ہے۔ ملک کو کس سمت میں، کیسے چلانا ہے؟ ابھی تک یہی طے نہیں ہوسکا جس محکمے کا جو کام ہے وہ نہیں کرایا جارہا ہے یا اُس کو کرنے نہیں دیا جارہا ہے۔ یا محکمہ چلانے والوں میں اہلیت ہی نہیں ہے۔ ہر محکمے میں بادشاہت اور شہنشاہیت کا نظام چل رہا ہے۔ انگریز جب کوئی محکمہ قائم کرتا تھا تو باقاعدہ غور وخوص کے بعد ہر پہلو سے جائزہ لے کر اُس کے اصول و ضوابط بناتا تھا۔ پھر اُسے محکمے کے کام کی تفصیلات وضع کرتا تھا اور اس کا (Manual) بنتا تھا، جس میں ہر بڑے چھوٹے کام اس کے کرنے کے فرائض، کمرے کا سائز، کرسی، ٹیبل وغیرہ اور اس کا دائرہ کار (well defined) ہوتا تھا جس پر بیورو کریسی عمل کرتی اور کراتی تھی۔ وزرا حضرات اُس میں دخل دینے کے مجاز نہیں ہوتے تھے اور نہ خلاف قانون حکم جاری کرنے کی جرأت کرتے تھے۔
1972ء کے بعد جب آدھا مغربی پاکستان پورا پاکستان بن گیا تو حکومتی اور سیاسی کلچر بدل گیا۔ صنعتوں، بینکوں، انشورنس کمپنیوں، تمام تعلیمی اداروں اور بڑی بڑی فیکٹریوں کو سوچے سمجھے بغیر بیک جنبشِ قلم قومیالیا گیا۔ اب قومیائے گئے ادارے چلانے کے لیے سرکاری افسران کی ضرورت تھی۔ چناں چہ افسر شاہی کی تعداد میں دھڑادھڑ اضافہ ہونے لگا۔ اُن قومیائے گئے اداروں میں سفارش، اقربا پروری اور سیاسی بنیادوں پر نالائق اور نااہل افراد کی ایک فوج ظفر موج بھرتی کرلی گئی، تمام قومیائے گئے اداروں کو سرکاری افسروں کی تحویل میں دے دیا گیا۔ دوسرے جو وزیر آئے وہ اپنے ساتھ اپنے سیاسی کارکنوں کی طویل فہرست بھی لائے جن کو لیٹرل انٹری (ذیلی بھرتی) کے نام پر ان محکموں میں شامل کرلیا گیا۔ اب ہوا یہ کہ آدھا تیتر آدھا بٹیر کے مصداق وہ نہ تو اچھے سرکاری افسر بن سکے اور نہ ہی اس قابل رہے کہ نجی اداروں کو منافع بخش بنیادوں پر چلا سکیں۔ جس کا نتیجہ اب سامنے آرہا ہے۔ ہر ادارہ تباہ ہوچکا ہے اور بجائے بہتری کے تباہی کی طرف گامزن ہے۔ دنیا کے کسی ملک میں آج تک نہیں ہوا کہ تمام بڑے اداروں کے سربراہوں کی پوسٹوں کے لیے اخبارات میں اشتہار دیا گیا ہو۔ اس طرح اداروں کے سربراہ بھرتی ہوں گے تو اُن محکموں کے اہل ترین ماتحت افسر جو کئی کئی سال سے اپنی ترقی کے منتظر ہیں، فرسٹریٹ یا بد دل ہوجائیں گے جس کا اثر محکمے کی کارکردگی پر پڑے گا۔ اِسی طرح یونیورسٹیوں میں پہلے طریقہ کار یہ تھا کہ سینئر ترین ڈین وائس چانسلر بن جاتا تھا۔ باہر سے کوئی نہیں آتا تھا۔ اس سسٹم کو دوبارہ رائج کرنا چاہیے، بجائے اس کے کہ کوئی ریٹائرڈ سرکاری افسر، فوجی، دانشور، صحافی، دوست احباب وغیرہ وغیرہ، یہاں وہاں کہیں سے اٹھاتے ان کو محکمے کا افسر اعلیٰ، وائس چانسلر، سفیر، مشیر وغیرہ وغیرہ لگادیا گیا، بغیر سوچے سمجھے کہ وہ اس کے اہل بھی ہیں؟ اُن کا تجربہ ہے کہ نہیں؟ تو نتیجہ تو یہی نکلے گا۔
ماضی کے حکمرانوں سے بہت بڑی بڑی غلطیاں ہوئی جو اُن کے لیے باعث پریشانی بھی بنی، جس طرح سے ایوب خان نے بھٹو صاحب کی سیاسی پرورش کی۔ بھٹو صاحب نے ضیا الحق کو آرمی چیف بنایا پھر سر پکڑ کر پھانسی پر لٹک گئے۔ ضیا الحق صاحب کی غلطی کے نواز شریف کو بیٹا بنالیا جو ملک کو لوٹ کر خود باہر جا کر بیٹھ گیا۔ پھر نواز شریف کی غلطی کہ پرویز مشرف کو آرمی چیف بنادیا، یہ غلطی میاں صاحب کی زندگی کی بڑی غلطی تھی مگر قوم پرویز مشرف کے دور حکومت کو آج بھی یاد کرتی ہے جب کہ ابن آدم کے مطابق اُن کو این آر او نہیں دینا چاہیے تھا ان کے این آر او کے اثرات آج تک باقی ہیں۔ پرویز مشرف کی غلطی کہ بے نظیر بھٹو سے صلح کی کوشش کی دونوں کام میں آئے اور سارا فائدہ زرداری صاحب کے حصے میں آگیا۔ عمران خان صاحب کے گرد بے شمار غلطیاں کروانے والے موجود ہیں ایسا لگتا ہے کہ وہ بے حد مجبور ہیں۔ ہمارے ملک میں آج تک کسی بڑے کو سزا نہیں ملی، سوائے سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے اگر وہ اُس وقت کے حاکم سے معافی مانگ لیتے تو شاید زندہ رہتے، وجہ یہ ہے کہ ہر بڑے کا الزام چھوٹے پر ڈال دیا جاتا ہے، ہمارے ملک میں سب سے پہلے ایوب خان کے دور حکومت میں کمیشن بنا مگر اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوا بعد میں آنے والوں نے ٹاسک فورس، سینڈیکیٹ، تھنک ٹینک، جوڈیشل کمیشن اور کمیٹیاںوغیرہ وغیرہ بنائیں۔ اس میں ملزم اپنی عرض داشت پیش کرتا ہے لیکن بڑا آدمی سزا نہیں پاتا بلکہ چھوٹے سے چھوٹے ملازم کو موردِ الزام ٹھیرا کر سزا سنادی جاتی ہے۔ دل روتا ہے جب اپنے ملک کا یہ حال دیکھتا ہوں کیا پاکستان اس لیے بنایا تھا کہ غریب کا گلا دبا دیا جائے، کرپشن اور رشوت ماضی میں بھی لی جاتی تھی مگر غلط کاموں پر آج تو پنشن کا کیس بنوانے کے لیے رشوت، EOBI کا کیس پھنس جائے تو رشوت، عدالتوں میں انصاف کے لیے جائیں تو رشوت، جائز ایف آئی آر کٹوانی ہو تو رشوت پولیس والے پولیس والوں سے رشوت لیتے ہیں۔ سرکاری فنڈز کی اعلیٰ افسران میں بندر بانٹ، 1 ارب کا سرکاری ٹھیکہ ملے تو 50 لاکھ ٹھیکے والے افسران کا حصہ دینا ہے۔ اب وہ کس طرح سے معیاری کام کرسکے گا، آج کراچی کا جو حال ہے اس کی ذمے دار سندھ حکومت اور بلدیہ قصور وار ہے۔ اللہ قوم کو عقل و شعور دے کہ جماعت اسلامی کو حکومت کا ایک موقع دے۔