فیصلوں میں آزاد ہیں، آج تک کسی ادارے کی بات سنی نہ دباؤلیا، چیف جسٹس پاکستان

272

 چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزار احمد نے کہاہے کہ سپریم کورٹ فیصلے کرنے میں آزاد ہے اور کسی کی ہمت نہیں ہمیں روکے جب کہ آج تک کسی ادارے کی بات سنی اور نہ ہی دباو لیا،عدلیہ کے معاملات میں کوئی مداخلت نہیں ہورہی۔بتادیں کہ کس کی ڈکٹیشن کے اوپر آج تک کون سا فیصلہ ہوا ہے، ایسا نہیں ہے، لوگوں میں غلط فہمیاں پیدا نہ کریں۔ 

میں اپنے ادارے کے بار ے میں بات کرتا ہوں، لوگوں کو غلط باتیں نہ بتائیں، انتشار نہیں پھیلائیں، اداروں کے اوپر سے لوگوں کا بھروسہ نہ اٹھوائیں، یہ کام نہیں ہے،میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ یہ ملک پاکستان ہمارے لئے قائم ودائم ہے اور قائم ودائم رہے گا اوراس میں قانون کی حکمرانی ہے، انسانوں کی حکمرانی نہیں ہے۔   ملک کے اندر قانون کی، آئین کی اور ہر طرح سے جمہوریت کی حمایت کرتے رہیں گے اوراسی کا پرچار کرتے رہیں گے اور اسی کو نافذ کرتے رہیں گے۔ کسی غیر جمہوری سیٹ اپ کو ہم قبول نہیں کریں گے، ہم چھوڑ دیں گے، ہم نے پہلے بھی چھوڑا، لاہور کے مقامی ہوٹل میں دو روزہ تیسری عاصمہ جہانگیر کانفرنس  کے پہلے روز خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ علی احمد کرد نے کچھ باتیں کہی ہیں جس کے بارے میں ذکر کرنا بہت ضروری ہے، لوگوں کوکسی قسم کی غلط فہمی کا شکار نہیں ہونا چاہیئے ۔ 

عدلیہ کے ادارے کا سربراہ ہونے کی حیثیت سے یہ مجھ پر لازم ہے کہ جہاں تک بن سکتا ہے میں ان باتوں کا کسی حد تک جواب دوں۔ سب سے پہلی بات یہ کہ جو علی احمد کرد نے  اگر میری عدالت کے بارے میں کوئی بات کہی ہے تو میںبالکل اس بات سے اتفاق نہیں کروں گا۔ میں اگر اپنی سپریم کورٹ کے بارے میں کہوں تو میرے سارے سپریم کورٹ کے ججز پوری تندہی کے ساتھ ، اضافی وقت لگا کر محنت کے ساتھ کام کررہے ہیں اور لوگوں کو انصاف کی فراہمی، بنیادی حقوق کی فراہمی اور قانون کی عملداری اور ایک جمہوری ملک کی خوشحالی کے لئے مستقل کام کررہے ہیں اور تندہی کے ساتھ کام کررہے ہیں۔ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد کا کہنا تھا کہ اسی طرح سے میری ہائی کورٹس کے ججز چاہے وہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے ہوں، چاہے وہ پشاور ہائی کورٹ کے ہوں، چاہے وہ لاہور ہائی کورٹ کے ہوں ، چاہے وہ بلوچستان کے ہوں یا سندھ کے ہوں ، میری عدالت کے سب ججز تندہی کے ساتھ کام کرہے ہیں۔ میری ماتحت عدلیہ بھی بہت محنت کے ساتھ اورلگن کے ساتھ لوگوں کو انصاف فراہم کررہی ہے،ان کے جو مقدمے ہیں ان کو سنتے ہیں اوراس پر قانون کے مطابق فیصلے دیتے ہیں۔ 

اگر کسی کے مقدمہ میں کسی کو اعتراض ہوتا ہے تو اس کا قانونی حق ہوتا ہے کہ وہ اس کو چیلنج کرے ، بڑی عدالت میں چیلنج کرکے اور قانون کی پیروی کرکے اس فیصلے تبدیل کروانا چاہتے تو تبدیل بھی ہوسکتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ایک جنرل اسٹیٹمنٹ دے کہ یہاں پر ہماری عدالت آزاد نہیں ہے ، یہ تاثر دینا کہ کسی کے دبائو میں ہم کام کررہے ہیں ، کسی اداروں کے دبائو میں کام کررہے ہیں ، میں نے کبھی کسی ادارے کا کوئی دبائو نہیں لیا اور نہ میں نے کبھی کسی ادارے کی بات سنی، مجھے کوئی نہیں بتاتا کہ میں اپنا فیصلہ کیسے لکھوں، میرے کو کوئی گائیڈ نہیں کرتا کہ میں اپنا فیصلہ کیسے لکھوں اور میں نے کبھی اپنے سامنے آنے والے کسی مقدمے کا کوئی ایسا فیصلہ نہیں کیا جو کسی کے کہنے پر کیا ہو، نہ کسی کو جرائت ہوئی میرے کو آج تک کچھ کہنے کی۔ کسی نے میرے کام میں مداخلت نہیں کی، میں نے جو فیصلے دیئے وہ میں نے اپنے ضمیر کے مطابق ، اپنی سمجھ کے مطابق اورآئین کی سمجھ اور وقانو ن کی سمجھ کے مطابق فیصلے دیئے ہیں، میں نے آج تک کسی کی ڈکٹیشن نہ سنی، نہ دیلھی، نہ سمجھی اور نہ میں نے اپنے اوپر اثارت لئے اور میں یہ سمجھتا ہوںکہ یہی کردار میں باقی سارے ججز کا ہے۔ میری عدالت لوگوں کو انصاف دیتی ہے، علی احمد کرد عدالتوں میں آئیں اوردیکھیں کہ کیا ہورہا ہے، عدالتوں کے فیصلے پڑھیں دیکھیں کیا ہورہا ہے، روز میرے ججز فیصلے لکھتے ہیں، کتابوں میں چھپتے ہیں ان کو پڑھیں اوردیکھیں کہ کس قدرآزادی کے ساتھ ہماری عدالت کام کررہی ہے، قانون کی پیروی کررہی ہے اور آئین  پر عملدآمد کرر ہی ہے۔ 

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کوئی حوالہ دیئے بغیر ایک جنرلائز بیان دینا اور اگر کوئی غلطی ہے تو آکر اس غلطی کو صحیح کروایا جاتا ہے، عدالتوں کے فیصلے ایک مسلسل جاری عمل ہے ، ہر دنیا کے عدالت کے ساتھ یہ ایولوشنری پراسیس چلے ہیں۔ کہیں غلط فیصلے آتے ہیں، کہیں صیح فیصلے آتے ہیں، یہ غلط اور صیح فیصلے بھی لوگوں کی اپنی رائے ہوتے ہیں، ضروری نہیں ہے کہ ایک رائے کو دوسرا مانے۔ کچھ لوگ کہتے ہیں یہ صیح فیصلے ہیں ور کچھ لوگ کہتے ہیں یہ غلط فیصلے ہیں، ہر ایک کا اپنا، اپنا نقطہ نظر ہے، ہر ایک کو اپنی رائے کا اختیار ہے، سب کی رائے کا احترام کیا جاتا ہے، یہی خوبصورتی ہے ہمارے قانون کی، یہی خوبصورتی ہے عدالتی نظام کی، یہی جمہوری پراسیس کی ایک خوبصورتی ہے اوراس پر ہم عملدرآمد کرتے ہیں، کوئی ہمیں روکے، آج تک کسی کی ہمت نہیں ہوئی ہمیں روکنے کی۔ ہماری عدالت جو فیصلہ کرنا چاہتی ہے کرنے کے لئے فری ہے اور کرتی ہے، ہر ایک کا محاسبہ کرتی ہے جس کا مقدمہ سامنے آتا ہے، بتادیں کہ کس کی ڈکٹیشن کے اوپر آج تک کون سا فیصلہ ہوا ہے، ایسا نہیں ہے، لوگوں میں غلط فہمیاں پیدا نہ کریں۔ میں اپنے ادارے کے بار ے میں بات کرتا ہوں، لوگوں کو غلط باتیں نہ بتائیں، انتشار نہیں پھیلائیں، اداروں کے اوپر سے لوگوں کا بھروسہ نہ اٹھوائیں، یہ کام نہیں ہے،میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ یہ ملک پاکستان ہمارے لئے قائم ودائم ہے اور قائم ودائم رہے گا اوراس میں قانون کی حکمرانی ہے، انسانوں کی حکمرانی نہیں ہے۔ 

ہماری عدالت جس طرح سے ہم کام کررہی ہے اور کرتی رہے گی ، اس ملک کے اندر قانون کی، آئین کی اور ہر طرح سے جمہوریت کی حمایت کرتے رہیں گے اوراسی کا پرچار کرتے رہیں گے اور اسی کو نافذ کرتے رہیں گے۔ کسی غیر جمہوری سیٹ اپ کو ہم قبول نہیں کریں گے، ہم چھوڑ دیں گے، ہم نے پہلے بھی چھوڑا، میرے خیال میں آج کے لئے اتنی بات کافی ہے، تقریب سے سپریم کورٹ کے تیسرے سینئر ترین جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ، لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس محمد امیر بھٹی، چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس اطہر من اللہ، سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر چوہدری محمد احسن بھون، سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر علی احمد کرد اور دیگر شرکاء نے بھی خطاب کیا۔ تقریب میں سابق چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس (ر)میاں ثاقب نثار، سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس کے حاضر سروس ججز اور وکلاء کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ تقریب کی کمپیرئنگ کے فرائض پاکستان مسلم لیگ (ن)سے تعلق رکھنے والے سینیٹر چوہدری اعظم نذیر تارڑ نے ادا کئے۔