کرپشن کا خاتمہ ناگزیر کیوں؟

814

کرپشن کو بجا طور پر تمام برائیوں کی جڑ قراردیا جاتا ہے۔ معیشت کی تباہی اور معاشرتی بگاڑ کی اصل وجہ کرپشن ہے، مہنگائی بے روز گاری، بدامنی اور مایوسی کرپشن ہی کی پیداوار ہیں۔ جس معاشرے میں قومی مفادات پر ذاتی مفادات غالب آجائیں اس میں ترقی و خوشحالی نہیں غربت افلاس اور بدحالی مستقل ڈیرے ڈال لیتی ہے۔ اس وقت ہمارا ملک بھی اسی تباہی سے دوچار ہے۔ جس نے جس قدر زیادہ کرپشن کرکے مال و دولت اکٹھا کیا، وہ معاشرے میں اسی قدر بلند مرتبہ ہوگیا، حکومتوں کی کارکردگی میں شفافیت اور کرپشن کا جائزہ لینے والی عالمی تنظیم ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ ہے کہ جنوبی ایشیا کا خطہ سب سے زیادہ بد عنوانی کا شکار ہے، حکومتوں کی ذمے داری ہوتی ہے کہ وہ کرپشن اور بد عنوانی روکنے والے اداروں کو مضبوط کریں اور ان اداروں کی کارکردگی میں سیاسی مداخلت کو سختی سے روکا جائے مگر ہمارے ہاں الٹی گنگا بہتی ہے۔ ہر حکو مت پہلا وار ہی اداروں پر کرتی ہے۔
پاناما لیکس پر عدالت عظمیٰ میں دائر کی گئی ہماری درخواست چار سال سے عملدرآمد کی منتظر تھی کہ پنڈورا پیپرز اسکینڈل بھی منظرعام پر آگیا۔ جماعت اسلامی نے ایک دفعہ پھر اس یقین کے ساتھ عدالت عظمیٰ کا دروازہ کھٹکھٹایا ہے کہ اب کی بار پاکستانی قوم انصاف سے محروم نہیں رہے گی۔ وزیراعظم کی طرف سے پنڈورا پیپرز کی انکوائری کے لیے بنائے گئے سیل پر ہمارے سمیت کسی کو بھی اعتماد نہیں۔ پنڈورا پیپرز کو منظر عام پر آئے ہوئے دو ماہ سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے، جن لوگوں کے نام اس میں آئے وہ یا تو پی ٹی آئی، ن لیگ اور پی پی سے تعلق رکھتے ہیں یا سابق جنرلز، ججز، بیوروکریٹس اور بزنس مین ہیں۔ قانون سے بالاتر یہ طاقتور اشرافیہ ملک پر اربوں ڈالرکے قرضہ اور غریب پاکستانیوں کے مصائب اور مشکلات کی اصل ذمے دار ہے۔ حد تو یہ ہے کہ عوام بھوکوں مررہے ہیں، جبکہ پاکستان کی اشرافیہ پنڈورا پیپرز کی فہرست میں پانچویں نمبر پر ہے جو دنیا بھر کے ان امراء پر مشتمل ہے جنہوں نے لندن میں سب سے زیادہ قیمتی جائدادیں خریدیں۔ پاناما میں 436اور پنڈورا میں 700سے زائد پاکستانیوں کے نام ہیں، دولت اور طاقت کی حرص نے اس ظالم اشرافیہ کو بائولاکردیا ہے۔ حکمران جماعت اور دونوں نام نہاد بڑی اپوزیشن پارٹیوں کو قوم کے مسائل سے کوئی سروکار نہیں۔ لوگ مہنگائی اور بیروزگاری کی وجہ سے خودکشیاں کررہے ہیں، سات کروڑ پاکستانی خطِ غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور اور ڈھائی کروڑ بچے اسکولوں سے باہر ہیں جبکہ غریب کو اسپتال سے پیرا سٹامول اور ڈسپرین کی گولی تک نہیں ملتی۔ مگر مجال ہے جو حکمرانوں کے کان پر جوں بھی رینگ رہی ہو۔ حکمران جونکوں کی طرح غریب قوم کا خون چوس رہے ہیں۔
ہم نے پنڈورا پیپرز اور پاناما لیکس میں شامل تمام افراد کے خلاف آزادانہ انکوائری کے لیے عدالت عظمیٰ سے رجوع کیا ہے۔ اپنی آئینی درخواست میں عدالت عظمیٰ سے استدعا کی ہے کہ دونوں اسکینڈلز میں جتنے بھی پاکستانیوں کے نام آئے ہیں ان کے خلاف غیر جانبدارانہ تحقیقات کے لیے مشترکہ تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دی جائے اور حکمران اشرافیہ جس نے غریب پاکستانی قوم کے اربوںکھربوں لوٹ کر آف شور کمپنیوں کے ذریعے بیرون ملک جائداد بنائیں ان کو کٹہرے میں کھڑا کیا جائے۔ ہم نے پاناما لیکس کے منظر عام پرآنے کے بعد سب سے پہلے عدالت عظمیٰ سے رجوع کیا تھا اور اس کے بعدمارچ 2016 سے کرپشن فری پاکستان تحریک شروع کی۔ کرپشن کے خلاف پورے ملک میں ٹرین مارچ کیا۔ ہماری کرپشن فری پاکستان تحریک کا ہدف ادارے یا حکومت نہیں بلکہ کرپٹ افراد ہیں جو کہیں بھی ہوں۔
کرپشن کا ناسور ہماری قومی زندگی کے مالیاتی، اخلاقی اور انتخابی شعبوں پر اپنے پنجے گاڑ چکا ہے۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں روزانہ سات ارب روپے کی کرپشن ہوتی ہے جبکہ نیب کے ایک چیئرمین نے کچھ عرصہ قبل اعتراف کیا تھاکہ ملک میں روزانہ 12سے 13ارب روپے کی کرپشن ہورہی ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ مالیاتی کرپشن کا دائرہ اور حجم مسلسل بڑھ رہا ہے۔ ناجائز منافع خوروں نے کھادوں سے لے کر ادویات تک میں ملاوٹ اور ملاوٹ بھی ایسی گراوٹ کے ساتھ کی ہے کہ پاکستانی دنیا میں سر اٹھانے کے قابل نہیں رہے۔ پہلے ہم دودھ میں پانی ملاتے تھے اور اب پانی سے دودھ بنانے کے گھٹیا ترین موجد بن گئے ہیں۔ انتخابی کرپشن کا حال یہ ہے کہ آئین کی دفعہ 62-63 کی سیاہی الیکشن کمیشن کا منہ چڑا رہی ہے جبکہ ہر نیا الیکشن کرپشن کے نئے کنگز کو متعارف کرواتا ہے۔
یہ قوم ناموس رسالت پر لڑنے مرنے کو تیار ہو جاتی ہے لیکن نبی اکرمؐ کی اس تعلیم کو خود پامال کر رہی ہے ’’جو خون اور گوشت حرام رزق پر پرورش پائے گا وہ جنت میں نہ جائے گا‘‘ (الحدیث)
امر واقع یہ ہے کہ حکومت ہی خرابیوں کی اصل جڑ ہوتی ہے۔ اگر حکومتی اہلکار حج اور عمرے پر پیسے بنائیں گے تو بازار میں پکوڑے بیچنے والے سے خیر کی امید نہیں رکھی جاسکتی۔ یہاں تو زکوۃ و عشر فنڈ سے بھی اربوں روپے خورد برد کر لیے جاتے ہیں مگر کوئی پوچھنے والا نہیں۔ حکومتیں کس کس طرح لوٹ مار کرتی ہیں قوم کے لیے تو ناقابل تصور ہے، لیکن اس کا بار بار مظاہرہ ہورہا ہے۔ ماضی کی حکومت کے ایک وزیر نے ٹاک شو میں بڑی ڈھٹائی کے ساتھ کہا تھا کہ ’’ کرپشن پر ہماری پارٹی کا بھی حق ہے‘‘۔ پیلی ٹیکسیاں، روزگار اسکیم، پڑھا لکھا پنجاب، تیل، گیس اور معدنی ذخائر جیسے منصوبوں میں سو سو ارب روپے ڈکار لیے جاتے ہیں۔ ہمار ا حال یہ ہو چکا ہے کہ گندم یا گنا زیادہ یا کم ہو جاتے ہیں تو اس بحران کا بندوبست کرنے کے لیے ٹریڈنگ کارپوریشن پاکستان (TCP) کے ساتھ ساز باز کر کے کبھی 200 ارب اور کبھی 75 ارب کا ٹیکہ لگادیا جاتا ہے۔
پاکستان کے قومی اثاثے پی ٹی سی ایل اور بینکوں کو اس طرح فروخت کیا گیاکہ کمہار بھی اپنے گدھے کو نہیں بیچتا۔ ان اداروں پر پہلے غیر ترقیاتی اخراجات کا بوجھ ڈالا جاتا ہے پھر اس کی بیلنس شیٹ میں اثاثوں کی قیمت کم کی جاتی ہے۔ حکمرانوں کا کردار اس حد تک گر چکا کہ ہم پیسے لینے کی خاطر دہشت گردی کی جنگ کو بھی اپنے سر لے لیتے ہیں اور پھر جو چند پیسے ملتے ہیں اس کا بھی کوئی حساب ہمارے پاس نہیں ہے۔
ایوب خان سے لے کر میاں نوازشریف اور پھر عمران خان تک اقتدار میں آنے کے لیے اعلان کرتے ہیں کہ سب کا سر عام احتساب ہوگا۔ اقتدار میں آنے کے بعد انسداد کرپشن کے لیے نت نئے ادارے بنائے جاتے ہیں۔ پولیس کے بعد اینٹی کرپشن، ایف آئی اے، پروڈا (PRODA) پوڈو (PODO) ایبڈو (EBDO) پبلک اکائونٹس کمیٹی، احتساب کمیشن اور نیب جیسے درجن بھر ادارے جن پر سرمایہ تو قوم کا خرچ ہوتا ہے لیکن یہ ادارے زیادہ تر سیاسی حریفوںکو ڈرانے، دھمکانے اور دبانے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔ آج بھی منظور نظر لوگوں کے کیس کھولنے پر حکومت تلملا اٹھتی ہے۔ نیب کے پاس 150 میگا کرپشن کیس فائلوں میں بند پڑے ہیں، ان فائلوں کو دیمک چاٹ رہی ہے مگر نیب کے پاس کھربوں روپے کی کرپشن کے یہ کیس دیکھنے کا وقت نہیں۔
جنگ اور دہشت گردی کسی بھی ملک کے انفرا اسٹرکچر کو تباہ کردیتی ہے جبکہ کرپشن تو انفرا اسٹرکچر اور سماجی ترقی کو شروع ہی نہیں ہونے دیتی۔ قومی خزانہ لوٹنے کے باعث تعلیم، صحت، قوانین اور دیگر میدانوں میں ہماری سماجی ترقی شروع ہی نہیں ہوسکی، بلکہ نوبت تو یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ پاکستان 145 کھرب روپے کا مقروض ہے۔ قومی اثاثوں کی حفاظت کے لیے کرپشن کو قانونی طور پر دہشت گردی اور غداری قرار دینا ضروری ہوگیا ہے۔ وزیر خزانہ قومی اسمبلی میں تسلیم کر چکے ہیں کہ یہ ملک اب قرضے کے بغیر نہیں چل سکتا، قرضہ لینا اس لیے ضروری ہوگیا ہے کہ سابقہ قرضوں کی قسط ادا ہو سکے۔ آڈیٹر جنرل نے 4.2 ٹریلین روپے کے حسابات پر اعتراضات لگائے ہیں جو کئی سال سے غیر حل شدہ (Unsettelled) ہیں۔ جماعت اسلامی اس پوری صورتحال کو بدلنے کے لیے متواتر جدوجہد کررہی ہے۔
اس تحریک کے دوران ہم کرپشن کے خلاف گلوبل آپریشن بھی شروع کریں گے۔ لوٹی ہوئی دولت کا بڑا حصہ ترقی یافتہ ممالک میں موجود ہے۔ بالخصوص سوئٹزرلینڈ، برطانیہ اور امریکا میں پاکستانیوں کی دولت کے چرچے ہیں۔ ہم نے ہمیشہ حکومتوں اور اعلیٰ عدلیہ کا دراوازہ کھٹکھٹایا اور مطالبہ کرتے رہے کہ وہ اس لوٹی ہوئی دولت کو واپس لانے کے لیے ٹھوس اقدامات شروع کریں۔ لوٹی ہوئی دولت کا سراغ لگانے اور ملک میں واپس لانے کے لیے جماعت اسلامی ممتاز معاشی ماہرین، قانون دان، یونیورسٹی اساتذہ، صحافی، نیک نام ریٹائرڈ سفارتکار، سول و ملٹری شخصیات پر مشتمل ایک قومی جرگہ تشکیل دے رہی ہے۔
جماعت اسلامی نے ہمیشہ کرپشن کے خاتمہ کی بات کی ہے، اگر آج عوام چوکوں چوراہوں میں کرپٹ عناصر کے خلاف کاروائی کی بات کرتے ہیں تو یہ جماعت اسلامی کی دہائیوں پر مشتمل کرپشن فری پاکستان مہم کی محنت کا نتیجہ ہے۔ سابق امیرجماعت اسلامی مرحوم قاضی حسین احمدؒ نے 1996میں کرپشن کے خلاف 24جون اور پھر 27اکتوبر کو اسلام آباد میں عظیم الشان دھرنے دیے۔
جن کے نتیجے میں ناصرف بے نظیر حکومت کو جانا پڑا بلکہ بعد ازاں نواز شریف حکومت بھی کرپشن کے الزامات کے نتیجہ میں برطرف کی گئی۔ جماعت اسلامی بلاتفریق، بے لاگ احتساب چاہتی ہے۔ ہم چاہتے ہیں عدالت عظمیٰ اس کے لیے کردار ادا کرے اور قوم کو انصاف دلائے۔ موجودہ حکومت نے نیب کو بے پر کر دیا ہے۔ پی ٹی آئی نے آرڈینینسز کے ذریعے اداروں کو کمزور کردیا اور انہیں طاقتور اشرافیہ کے خلاف ایکشن لینے سے روک دیا۔ ملک میں حقیقی احتساب کا کوئی ادارہ موجود نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مافیاز نے حکومت کو گرفت میں لیا ہوا ہے۔ انکوائری رپورٹس موجود ہیںکہ شوگر اسکینڈل، آٹا بحران، پٹرول شارٹیج کرائسز میں سیکڑوں ارب مافیاز کی جیبوں میں چلا گیا مگر کسی کے خلاف کوئی کاروائی نہیں ہوئی۔ موجودہ حکمران پارلیمنٹ، عدالت، میڈیا سمیت تمام اداروں پر کنٹرول چاہتے ہیں۔ نااہلی اور بیڈ گورننس انتہاکو پہنچ چکی ہے، معیشت کا بیڑہ غرق اور ملک قرضوں کی دلدل میں دھنس چکا ہے۔ جماعت اسلامی قوم کا مقدمہ لڑ رہی ہے اور ان شاء اللہ یہ جدوجہد لٹیروں سے لوٹی دولت نکلوا کر اسے قومی خزانے میں جمع کرانے اور پاکستان کو عظیم فلاحی اسلامی ریاست بنانے تک جاری رہے گی۔
جماعت اسلامی کے 200سے زائد افراد مختلف ادوار میں سینیٹ اور قومی و صوبائی اسمبلیوںکے رکن رہے۔ ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی کی سٹی گورنمنٹ تین مرتبہ جماعت اسلامی کے پاس رہی۔ عبدالستار افغانی اور نعمت اللہ خان میئر و سٹی ناظم رہے۔ کتنے ہی ٹائونز و یونین کونسلرز میں جماعت اسلامی کے افراد ناظم و نائب ناظم رہے۔ میرے سمیت کم و بیش 30افراد وزراء بھی رہے لیکن الحمدللہ کہ جماعت اسلامی کے کسی فرد پر آج تک کرپشن کا جھوٹا الزام بھی نہیں لگایا جاسکا۔ جماعت اسلامی کے بدترین مخالف جنرل مشرف نے نعمت اللہ خان مرحوم کا ہاتھ پکڑ کر بلند کیا اور کہا کہ اگر نعمت اللہ خان جیسے 10بندے مجھے مل جائیں تو میں پاکستان کو سوئٹزر لینڈ بنا سکتا ہوں۔