واشنگٹن / بیجنگ (انٹرنیشنل ڈیسک) امریکی صدر جو بائیڈن اور چینی صدر شی جن پنگ کے درمیان ورچوئل اجلاس منعقد ہوا،جو 3گھنٹے تک جاری رہا۔ بین الاقوامی خبررساں اداروں کے مطابق اجلاس کے دوران دونوں رہنما ایک دوسرے کو دھمکیاں دیتے رہے اور ان کی کوشش کی کہ وہ فریق کو دباؤ ڈال کر زیر کرلیں۔ دنیا کی دونوں بڑی معیشتوں کے درمیان معاشی جنگ کا سلسلہ 5 سال سے جاری ہے، تاہم امریکی صدر کے عہدہ سنبھالنے کے بعد سے دونوں ممالک نے اپنے تجارتی مسائل باہمی گفت و شنید سے حل کرنے کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔ 3گھنٹے تک جاری رہنے والی گفتگو میں زیادہ وقت شکوے شکایات اور دھمکیوں میں گزرنے کے باعث اجلاس بے نتیجہ ثابت ہوا۔ دوران گفتگو امریکی صدر جوبائیڈن نے چین کو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر خبردار کرتے ہوئے کہا کہ اس حوالے سے عالمی قوانین کی پاسداری کرنا ہر ملک کی ذمے داری ہے اور انسانی حقوق کے قوانین کی خلاف ورزی کسی صورت قابل قبول نہیں۔ اس کے جواب میں چینی صدر شی جن پنگ نے امریکا پر تائیوان میں مداخلت کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ چین امریکا کو تائیوان پر اشتعال انگیزی کا جواب دے گا، لہٰذا امریکا چین کے اندرونی معاملات میں دخل اندازی سے گریز کرے۔ دونوں رہنماؤں نے شمالی کوریا، افغانستان، ایران، توانائی کی عالمی منڈیوں، تجارت، مسابقت، آب و ہوا، فوجی مسائل، وبائی امراض اور دیگر شعبوں پر بھی تبادلہ خیال کیا تاہم اکثر امور پر متفق ہونے میں ناکام رہے۔