ہمارے ملک کے تعلیم کے معیار کو دیکھ کر دل روتا ہے، تعلیم اسکولوں کالجوں سے نکل کر کوچنگ سینٹر مافیا کے ہاتھوں یرغمال ہوگئی۔ عمارتیں موجود، عملہ موجود، ہر ماہ سرکار سے تنخواہ بھی چل رہی ہے مگر سب ویران پڑے ہیں ان کو کون سی طاقت آباد کرے گی۔ آج ایک تاریخی خط تحریر کررہا ہوں جو محمد محسن کی کتاب آٹھواں آسمان میں تحریر ہے۔ توجہ سے مطالعہ کریں۔ یہ امریکا کے صدر ابراہام لنکن کا خط ہے جو اُس نے اپنے بیٹے کے اسکول ٹیچر کے نام لکھا ہے۔
میرے بیٹے کا آج اسکول میں پہلا دن ہے۔ یہ دن اور اسکول اس کے لیے بالکل نیا اور کچھ عجیب ہوگا اور میری خواہش اور امید ہے کہ آپ اس کے ساتھ بہت پیار اور محبت سے پیش آئیں گے۔ یہ اس کے لیے ایک ایڈونچر (Adventure) ہوگا جو اس کی سوچ کو براعظموں میں لے جائے گا۔ اس قسم کی مہم جوئی میں جنگیں اور سانحے بھی رونما ہوسکتے ہیں جو زندگی میں آسکتے ہیں اور زندگی میں ان حالات سے دوچار ہونے کے لیے ہمت، پیار اور یقین محکم ہونا ضروری ہے۔ اس لیے مائی ڈیئر ٹیچر آپ براہ مہربانی اس بچے کا ہاتھ تھام کر وہ سب کچھ پڑھادیں، سکھادیں جن کا جاننا اور سمجھنا اُس کی زندگی کے لیے ضروری ہے لیکن یہ سب اگر پیار سے کرسکتے ہیں۔ اس کو پڑھائیں کہ دشمنوں میں بھی دوست اچھے ہوتے ہیں۔ اس کو پتا ہونا چاہیے کہ تمام انسان مخلص اور سچے نہیں ہوتے۔ اس کو پڑھائیں کہ برا آدمی یا بدمعاش بھی کس وقت ہیرو بن سکتا ہے اور گھاگ سیاست دانوں میں سے بھی کوئی ایک مخلص لیڈر پیدا ہوسکتا ہے۔
اس کو پڑھائیں کہ اپنی محنت سے کمائے ہوئے 10 سینٹ راستے میں پڑے ایک ڈالر سے زیادہ قیمتی ہوتے ہیں۔ اس کو پڑھائیں کہ ٹیچر سب سے زیادہ باعزت انسان ہوتا ہے اور وہ جس کو نقل سے پاس ہونے کے بجائے فیل کرتا ہے اس میں بھی اس کی بہتری ہوتی ہے۔ اس کو پڑھائیں کہ کس طرح ناکامی کو خندہ پیشانی سے لیا جاتا ہے اور کس طرح اپنی کامیابی کا شاندار طریقے سے جشن منانا چاہیے۔ اس کو پڑھائیں کہ شریف آدمیوں کے ساتھ نرمی سے پیش آنا چاہیے اور کس طرح سے غلط اور بدمعاش انسانوں سے سختی سے نمٹنا ہے اور کس طرح حاسدوں کو اپنے آپ سے دور رکھنا ہے اور یہ بھی پڑھائیں کہ زندگی میں خوشیوں کو ثابت قدمی اور خاموشی سے منانے کا راز کیا ہے۔ اس کو پڑھائیں کہ جب آپ افسردہ ہوں تو کس طرح قہقہہ لگانا ہے۔ اس کو یہ بھی پڑھانا ہے کہ بُرے وقت میں آنسو بہانے میں کبھی شرم نہیں کرنی چاہیے۔ اُس کو پڑھائیں کہ کامیابی کے راستے میں ناکامیاں اور پریشانیاں بھی آتی ہیں اور وہ وقت نہایت ہمت اور وقار کے ساتھ بغیر گھبراہٹ طاری کیے ہوئے گزارنا ہے۔ اُس کو پڑھائیں کہ کتابوں کی دنیا کے عجائب کیا ہیں۔ اُس کو یہ بھی بتائیں کہ آسمان کی بلندیوں پر پرندوں کو کئی تکالیف سے گزرنا پڑتا ہے۔ اُس کو بتائیں کہ شہد کی مکھیوں کو پھولوں سے رس نکال کر پہاڑیوں پر اکٹھا کرنے میں کیا مشکلات پیش آتی ہیں۔ اُس کو پڑھائیں کہ اپنے خیالات اور افکار پر اعتقاد ہونا چاہیے۔ لوگ یہ نہ کہیں کہ اُس کی سوچ میں صداقت نہیں ہے، کوشش کریں کہ میرے بیٹے میں اتنی استقامت آجائے کہ وہ پورے مجمع کی غلط ہدایات کے ماننے کے بجائے اپنے سچ پر قائم رہے۔ اُس کو پڑھائیں کہ وہ سب کی بات خندہ پیشانی سے سنے اور اُس میں سچ کو نکال کر اس کی اچھائی پر عمل کرائے۔ اس کو پڑھائیں کہ اپنی صلاحیتوں کو اُن کے لیے استعمال کرے جو اُس کی بہترین قدرو قیمت ادا کرے لیکن اپنی قدرو قیمت، روح، دل اور دماغی صلاحیتوں پر خاص قیمت کا لیبل کبھی مت لگائے۔ اس بچے میں بے خبری نہیں ہونی چاہیے اور ہمت سے ہر مشکل کا مقابلہ کرنے کی جرأت اور بہادری ہونی چاہیے۔ اُس کو پڑھائیں کہ اس میں اپنے اوپر اعتماد ہونا چاہیے اور اس طرح اس کو دنیا کو انسانیت کا سبق دینا آئے گا۔ اور اُس کا خدا پر بھی پختہ یقین ہونا چاہیے، یہ میری ٹیچر سے درخواست ہے لیکن پھر بھی جو سب سے بہتر ہو وہ پڑھائیں کیوں کہ یہ ایک چھوٹا معصوم بچہ ہے۔
اے ابن آدم آج ہمارے گلے سڑے بوسیدہ نظام تعلیم میں اس طرح کے مضامین اور شخصیات جن میں عبدالستار ایدھی، حکیم محمد سعید، ڈاکٹر عبدالقدیر خان وغیرہ شامل ہوں نہیں پڑھائے جاسکتے۔ کیوں کہ ہمارے حکمران سیاست دان اپنی قوم کی اخلاقی تربیت کرنا ہی نہیں چاہتے، آج کا ٹیچر بھی بے ایمان ہے وہ بس تنخواہ لینا جانتا ہے، خاص طور پر سرکاری اسکولوں اور کالجوں کا معیار گر چکا ہے۔ سندھ حکومت کی کالج کی ایک پرنسپل جو ایک بڑا معیاری کالج شمار کیا جاتا ہے وہاں جن سفارشی خاتون کو اتنی اہم پوسٹ دی ہے جب کہ وہ خاتون لکھنا اور پڑھنا تک نہیں جانتی، اپنا لکھا ہوا وہ خود نہیں پڑھ سکتیں، اُن کے شوہر اُن کے ساتھ روزانہ کالج آتے ہیں اور اُن کو جن سرکاری خطوط کے جواب دینے ہوتے ہیں وہ اُن کے شوہر لکھتے ہیں۔ شعبہ تعلیم کا بیڑہ غرق ہونا تو آپ سمجھتے ہی ہیں۔ وہ ملک کس طرح سے ترقی کرسکتا ہے جس کی نسلیں تباہ و برباد ہوجائیں۔ کاش یہ خط اور جسارت اخبار حاکم وقت اور تمام ریاستی اداروں کے سربراہ پڑھیں اور آج ہی سے شعبہ تعلیم میں اصلاحات لے کر آئیں۔