پاکستان میں فوجی اسٹیبلشمنٹ کے غلبے کے ذمے دار سیاستدان ہیں

676

کراچی ( رپورٹ \محمد علی فاروق )پاکستان میں فوجی اسٹیبلشمنٹ کے غلبے کا سب سے بڑا اور قابل اعتراض کر دارمسلم لیگ کا ہے، سیاستدانوںکو پاکستان کے دستور میں رہتے ہوئے نظام کو اتنا مظبوط اور مربوط بنا نے کی ضرورت تھی کہ فوج کی مداخلت کی ضرورت نہ پڑ تی ، سیاستدانو ں کے جائز و ناجائز ہر طریقے سے اقتدار تک پہنچنے کے حرص اور بیرونی طاقتوں کے اشارے پر پاکستان کی نظریاتی اور تزویراتی سرحدوں میں چھیڑ چھاڑ کی کو شش نے ملک میں انتشار پیدا کیا جس سے فوج کا اقتدارمیںآنے کا راستہ ہموار ہوا، اگر سیاستدان اپنا کام درست انداز میں کرتے تو کسی صورت فوجی اسٹیبلشمنٹ کو موقع نہ ملتا کہ وہ اقتدار تک پہنچے۔ان خیالا ت کا اظہارجماعت اسلامی پاکستان کے نائب امیر پروفیسر ڈاکٹر محمد ابراہیم خان اور ماہر دفاعی تجزیہ نگار ریٹائرڈ کرنل اسد محمود نے جسارت کے سوال کہ پاکستان میں فوجی اسٹیبلشمنٹ کے غلبے کے اسباب کیا ہیں ؟ پر خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا ۔جماعت اسلامی پاکستان کے نائب امیر پروفیسر ڈاکٹر محمد ابراہیم خان نے کہا کہ پاکستان میں فوجی اسٹیبلشمنٹ کے غلبے میں سب سے بڑا کردار پاکستان کی خالق جماعت مسلم لیگ کا ہے، مسلم لیگ نے پاکستان کو بروقت آئین نہیں دیا ، 1946میں پورے ہندوستان میں جو انتخابات ہوئے اس میں مرکزی اسمبلی کو2 دستور ساز اسمبلیوں میں تقسیم کیا گیا، پاکستان کے حصے میں جو دستور ساز اسمبلی آئی انہوں نے فروری 1949ئمیں بہت بھر پور عوامی مطالبے کے زیر اثر آکر صرف قرار داد مقاصد ہی پاس کیا جبکہ ہندوستان کی دستور ساز اسمبلی نے 1949میں ہندوستان کو دستو اور آئین بنا کر دیا جو آج تک چل رہا ہے ، اس کے برعکس مسلم لیگ کے اس دور میں 1954ء تک 7سال میں اس دستور ساز اسمبلی کا صر ف 106 دن اجلا س ہوا ، آج کی قومی اسمبلی کا ایک سال میں ایک 130دن اجلاس ہوتا ہے اسی حکومت میں حاضر سروس کمانڈر انچیف جنرل محمد ایوب خان کو وزیر دفاع بنا کر کابینہ میں شامل کر لیا، یعنی خشت اول چوں نہد معمار کج ، تاثریا میر وددیوار کج ،ملک کی بنیاد جو کجی میں اس وقت پڑگئی اس کو پھر کبھی بھی دور نہیںکیا جاسکا ۔ اس طر ح مسلم لیگ نے فوجی اسٹیبلشمنٹ کو اقتدار کی بارہ دریوں کا راستہ دکھا یا، 29فروری 1956کو دستور سازاسمبلی نے آئین کی منظوری دی اور 23مارچ 1956کو یہ نافذ کر دیا گیا ۔23مارچ 1959میں میں اس آئین کے تحت عام انتخابات ہونے تھے، لیکن 7اکتوبر 1958ء کو صدر مملکت اسکندر مرز ا اورکمانڈر انچیف جنرل محمد ایوب خان نے مل کر اس آئین کو توڑ دیااور ملک میں مارشل لاء نافذکر دیا گیا اس طر ح آئین کے تحت پاکستان کی عوام کے منتخب نمائندوں کی حکومت کبھی بھی وجود میں نہ آسکی۔ پروفیسر ڈاکٹر محمد ابراہیم خان نے کہا کہ 27 اکتوبر 1958ء کو جنرل ایوب خان نے مارشل لاء ایڈمنسٹریٹراسکندر مرزا کو بھی فارغ کر دیا ‘ملک 1962ئتک مارشل لاء کے تحت چلتا رہا اس دوران جنرل ایوب خان نے خود کو فیلڈ مارشل کے عہدے پر ترقی دے دی اور 1962ئمیں اس نے ذاتی حیثیت میں ملک کو ایک آئین سے نوازا۔ 25مارچ 1969میں اپنے بنائے ہوئے آئین کو توڑ کر خو د مستعفی ہوئے اور اقتدار کمانڈ ر انچیف آغا محمد یحییٰ خان کو سونپ دیا۔ 7مارچ 1977ء کو 14اگست 1973کو نافذ ہونے والے آئین کے تحت قومی اسمبلی کے لیے عام انتخابات ہونے تھے ،جس میں دھاندلی کا الزام لگا کر ملک گیر تحریک کا آغاز کر دیا گیا ،اس کے بعد تو مسلسل سیاستدان خود اسٹیبلشمنٹ کے مہرے بنتے رہے اور فوج کے ہاتھوں کھیلتے رہے ۔ 5جولائی 1977کو ضیاء الحق نے ملک میں تیسرا مارشل لاء نافذ کر کے آئین توڑنے کے بجائے آئین کو معطل کیا‘ اور 2مارچ 1985ء کو دوبارہ آئین کو بحال کر کے 31دسمبر کو مارشل لاء اٹھا لیا،17 فروری 1997کو میاں نواز شریف دوسری بار پاکستان کے وزیر اعظم بنے اور بھاری مینڈیٹ حاصل کر کے آپے سے باہر ہوگئے بے شمار غلطیاں کیں، 23دسمبر 1997ء کو جسٹس سجاد علی شاہ کو فارغ کیا ، کچھ عرصے بعد صدر مملکت فاروق لغاری کو فارغ کیا اور پھر 6اکتوبر 1998ء کو چیف آف آرمی اسٹاف جنرل جہانگیر کرامت کو فارغ کر دیا اورجنرل مشرف کو فوج کا سر براہ بنا دیا اس کے ساتھ لڑائی چھیڑ دی پھر صلح کر لی ، پاکستان کے حکمران بننے کے بعد میاں نواز شریف کو قائد اعظم ثانی بھی کہا گیا ، 13 اکتوبر 1999کو جنرل پرویز مشرف نے خو د کو چیف ایگزیکٹو بنا کر اقتدار پر قبضہ کرلیا ، مارشل لاء کا اعلان بھی نہیں کیا گیا اور آئین کو بھی معطل کر دیا گیا ، سپریم کورٹ نے سید ظفر علی شاہ کیس میں جنرل مشرف کی حکومت کو نہ صرف وجہ جواز فراہم کیا بلکہ اسے آئین میں ترمیم کرنے کا اختیار بھی دے دیا جو خود سپریم کورٹ کو بھی حاصل نہیںتھا ، پروفیسر ڈاکٹر محمد ابراہیم خان نے کہا کہ 2008ئمیں عام انتخابات کے نتیجے میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کی مخلوط حکومت بنی جس سے جنرل پرویز مشرف نے صدر مملکت کی حیثیت سے حلف لیا اور بعد ازاں چیف آف آرمی اسٹاف کے عہدے سے فارغ ہوئے ان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پر کام شروع ہوا تو وہ خود صدر مملکت کے عہدے سے مستعفی ہوگئے،یہ سیاستدانوںکا کردار ہے اس کردار کی وجہ سے فوجی حکمرانوںکو یہ تسلط حاصل ہوا ،میاںنواز شریف ،آصف علی زرداری اور موجودہ حکمران عمران خان کا بھی کرادار بہت واضح اورسب کے سامنے ہے،پاکستان کی تاریخ میں فوج اگر ایک بالا تر قوت کی حثیت سے اقتدار کی غلام گر دش میں داخل ہوتی رہی ہے تو اس کی بنیا دی وجہ برسر اقتدار سیاستدانو کی سنگین غلطیاں اور جائز و ناجائز ہر طریقے سے اقتدار تک پہنچنے کا حرص رہا ہے ، جماعت اسلامی پر بھی الزام لگا یا جاتا ہے کہ یہ مارشلاء دو ر کی بی ٹیم ہے میں اس کی وضاحت میں یہ کہوںگا کہ میاں نواز شریف اور ذوالفقار علی بھٹوہی فوجی اسٹیبلشمنٹ کی اے ٹیم کا کردار اداکر تے رہے ہیںدراصل مارشلاء کی یہ اے ٹیم ہی ہم پر یہ الزام لگاتی ہے ان ہی کی وجہ سے فوجی آمر ملک پر مسلط ہوتے رہے پھر فوجی آمر وں سے ملک کا تسلط چھڑانے کے لیے جماعت اسلامی حکمت کا راستہ اختیار کرتی رہی او ر اس میں بار ہا کامیابی بھی حاصل ہوتی رہی ہے ، فوج کو سیاست سے باز رکھنے اور دور رکھنے کی ایک ہی صورت ہو سکتی ہے وہ یہ ہے کہ سیاسی جماعتیںتمام نہ سہی ان کی ایک بڑی تعداد اس عز م کا اعلان کرے اور اسے عملی جامہ پہنائے کہ کسی فوجی طالع آزما کی کسی بھی صورت میں کسی طرح کی مدد نہیں کی جائے گی ،بلکہ اس کو اس کے آئینی حدود کے اندر محدود کرنے کی بھرپور تحریک چلا ئی جائے گی اور کسی فوجی آمر کو پاکستان میںاقتدار کی بارہ دریوںمیں داخل نہیںہونے دیں گے تو فوجی اسٹیبلشمنٹ کا کر دار اقتدار سے بالکل ختم ہوسکتا ہے ۔ریٹائرڈ کرنل اسد محمود نے کہا کہ 1947سے 1958 ان 11 سال میں ایسٹ پاکستان کو وہا ںکی آبادی کے لحاظ سے صحیح نمائندگی نہیں دی گئی ‘ اس طرح حکومتیں بدلی گیں کہ ہندوستان ہمارا مذاق اڑاتا تھا ہم اتنی تیزی سے اپنا لباس تبدیل نہیں کرتے جتنی تیزی سے پاکستان میں حکمران تبدیل ہوتے ہیں ، پاکستان کا دستور 1956میں بنا اس کے بعد1958 کی صورت حال کے پیش نظر ایوب خان کے اقتدار میں آنے کی راہ ہموار ہوئی تاہم1968تک اگلے گیار ہ سالوں میں دنیا نے پاکستان کو ترقی کر تے ہوئے دیکھا جبکہ 1965میں پاکستان نے اپنے سے 5 گنا ہ زیادہ طا قتور دشمن کو شکست بھی دی ،1971کے سانحہ میں صرف فوجی اسٹیبلشمنٹ کو موردالزام ٹھیرانا بالکل درست نہ ہوگا یہ کام بہت سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کیا گیا ، پاکستانی 38ہزار فوجیوں کے سامنے سوا چار لاکھ ہندوستانی فوج اور دو لاکھ مکتی باہنی کے رضاکار ان کی پشت پر چڑ ھ دوڑے جبکہ ہمارے سیاستدانوں نے بھی معاملے کو ٹھیک انداز میں ڈیل نہیںکیا ،سیکورٹی کونسل کے اجلاس میں پولینڈ نے جنگ بندی کی قرار داد منظور کرانا تھی اس وقت کے ہمارے وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو نے انتہائی سستی کا مظاہرہ کیا اور جذباتی تقریر کی جس کی وجہ سے انہوں نے وہ قرار داد ہی پھاڑدی اور اس طرح ہندوستان کا راستہ ہموار کیا گیا ، کرنل اسد محمود نے کہا کہ ایسی صورت حال میں جب فوج کی پشت پر اس کی عوام نہ ہوںتو کو ئی بھی جنگ نہ تو لڑی جاسکتی اور نہ ان کا مظبوط دفاع کیا جاسکتا ہے ،1972سے 1977تک جمہوریت کے ساڑھے پانچ سال عوام نے دیکھے1977کے الیکشن کے دوران پیپلز پارٹی نے اپنی مخالف جماعت کے بہت سارے امیدواروں کو اغوا کر لیا تاکہ وہ الیکشن میں حصہ نہ لے سکیں اس طرح الیکشن کے بعد ہنگامے پھوٹ پڑے اور یہ ہنگامہ آرائی نظام مصطفی ﷺ کی تحریک میں تبدیل ہوگئی پھر ایک وقت ایسا آیا کہ پاکستانی فوج اور عوام آمنے سامنے آگئے،تاہم اسی دوران لا ہور سے تعلق رکھنے والے بر یگیڈیئرز نے استعفا دے کر علیحدگی اختیار کر لی اور واضح پیغام دیا کہ ہم اپنے لوگوں پر گولی نہیں چلا سکتے اس طرح ایک بہت بڑی سیاسی قیادت نے اس وقت فوج کا ساتھ دیااور فوج کو ایک بار پھر اقتدار میں آنیکا موقع مل گیا سیاسی قیادت نے فوج کے اقتدار میں آنے کی خوشی کا اظہاران الفاظ میں کیاکہ ہم فوج کے شکر گذار ہیں کہ انہوں نے ملک کو فسطائیت سے نجا ت دلائی ،1988سے 1999ئتک اقتدار سول حکومتوں کے پاس رہا دو دو بار حکومت بے نظیر ، نواز شریف نے کی ،اس دوران پاکستان کا قرض 6سے 7ارب ڈالر تھا وہ قرضہ 11سال میں 39 ارب ڈالرتک چلا گیا ، 11 سال میں اقتدار کی رسا کشی اور کرپشن کو انتہاؤںکی طر ف جاتے دیکھا گیا ۔ کرنل اسد محمود نے کہا کہ فوجی اسٹیبلشمنٹ کی ذمے داری بنتی ہے کہ وہ ملکی سرحدوںکی حفاظت بھی کرے اور اندرونی طور پر نظریاتی و تزویراتی سرحدوںکی حفاظت بھی کی جائے۔ اس دوران پاکستان کی امن ومان کی صورت حال سب کے سامنے ہے ،دہشت گردی نے جڑیں پکڑلیںاور ایک بھونڈے اندازمیں ریا ست کے چیف آف آرمی اسٹاف کو عہدے سے ہٹا کر فوج میں بغاوت پید ا کر نے کی کوشش کی گئی اس طرح کی صورت حال میں پرویز مشرف نے اقتدار سنبھال لیا۔ مجھے یہ بات کہنے میںکوئی حرج نہیں ہے کہ فوجی حکمرا ن جب اقتدارتک پہنچتے ہیں تواسے ریاستی معاملا ت کو درست سمت میںلے کر اقتدار سے الگ ہونا ہوتا ہے مگر فوجی ڈکٹیٹر اقتدار میںآنے کے بعد زیادہ جمہوری بننے کی کو شش کرتے ہیں نتیجے وہ کچھ آئینی معاملات پر مفاہمت بھی کر لیتے ہیں جب ڈکٹیٹر آئینی مفاہمت کر تا ہے تو پھر وہ عوام تک حقائق ومعاملات نہیںپہنچ پاتے اور عوام میں شک وشبہات جنم لیتے ہیں جس سے دشمن کو پروپیگنڈہ کرنے کا موقع مل جاتا ہے ، ہماری فوجی لیڈر شپ بہت باصلاحیت ہے گذشتہ 13 سالوں میں بھی کئی مواقع ایسے آئے کہ وہ مداخلت کر سکتے تھے لیکن انہوں نے فیصلہ کیا کہ کسی صورت سیاسی نظام کو سبوتاژ نہیں کیا جائے گا ، کرنل اسد محمود نے کہا کہ مگر جب پانی سر سے اونچا ہوجائے تو اس وقت خاموش نہیںرہا جاتا اور نہ ہی اس بات کا انتظارکیا جاتا ہے کہ ہمارے ملک میں کسی اور ملک سے بیٹھ کرا گر ہمارے ہی ملک کا نظام چلا یا جائے تو یہ بات قابل قبول نہیں ہوگی ، فوج کبھی نظریاتی چھڑ چھاڑ کو براداشت نہیںکرسکتی ، اگر ملک میں تھانے ، عدالتیں ، ریونیو ڈپارٹمنٹ ، ہیلتھ ، سیکورٹی ، امن وامان ،معاشی ، سیاسی ، ایڈمسٹریشن سمیت دیگر معاملا ت درست انداز میں کام کریں تو فوج سول اداروں میںبلا وجہ کیوں مداخلت کرے گی ،سیاستدانوں نے ہمیشہ فوج کو خود مداخلت کا موقع فراہم کیا چھوٹے سے چھوٹے مسئلے میں بھی فوج کو بلا یا گیا ، مردم شماری ، الیکشن کرانے ہوں ، بجلی کے میٹر چیک کرنے یا بجلی کی چوری پکڑنے ، اسکولوں کے مسئلے ،سڑکو ںاور پلوںکی تعمیرات ، سیلاب یا زلزلے میںسول حکومتوں نے فوج کو استعمال کیا سیا ستدان بھی یہ نہیںکہہ سکتے کہ ہمیں فوج کی ضرورت نہیںہے ، دونوں ہی ایک دوسرے کے لیے لازم وملزموم ہیں ،سیاستدانوںکو پاکستان کے دستور میں رہتے ہوئے اس نظام کو اتنا مظبوط اور مربوط بنا نے کی ضرورت تھی کہ فوج کی مدد کی ضرورت نہ پڑے ،مگر سیاستدانوں نے اقتدار میں آنے کے بعد ہمیشہ بیرونی قوتوں کے کہنے پر پاکستان کی نظریاتی سرحدوں میں چھیڑ چھاڑ کی کو شش کی جس سے ملک میں انتشار پھیلا اور فوج کا اقتدارمیںآنے کا راستہ ہموار ہوا، اگر سیاستدان اپنا کام درست انداز میں کرتے تو کسی صورت فوجی اسٹیبلشمنٹ کو موقع نہ ملتا کہ وہ اقتدار تک پہنچ سکیں ۔