افکار سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ

358

کوئی ایک وارث دیت قبول کرے؟
مقتول کے ورثاء میں سے کوئی ایک بھی اگر قاتل کو اپنا حق معاف کردے یا دیت لینا قبول کرلے تو قصاص لازماً ساقط ہوجائے گا اور باقی وارثوں کو دیت پر راضی ہونا پڑے گا۔ اس معاملے میں اکثریت و اقلیت کا سوال اٹھانا صحیح نہیں ہے۔ سوال صرف یہ ہے کہ جس وارث نے عفو یا قبول دیت کے ذریعے سے قاتل کو زندہ رہنے کی اجازت دی ہے، اس کی اجازت آخر قصاص کی صورت میں کیسے نافذ ہوسکتی ہے؟ مثال کے طور پر اگر تین وارثوں میں سے ایک نے قاتل کو معاف کردیا تو اس کے معنی یہ ہیں کہ مقتول کی جان کے ایک تہائی حصے کو زندہ رہنے کا حق حاصل ہوگیا۔ اب کیا یہ ممکن ہے کہ باقی دو وارثوں کے مطالبے پر صرف دو تہائی جان لی جاسکے اور ایک تہائی جان کو زندہ رہنے دیا جائے؟ اگر یہ ممکن نہیں ہے تو لامحالہ باقی دو وارثوں کو قبول دیت پر مجبور ہونا پڑے گا۔ یہی رائے ہے جو سیدنا عبداللہ بن مسعودؓ نے اس طرح کے ایک مقدمے میں ظاہر کی تھی اور سیدنا عمرؓ نے اسی پر فیصلہ فرمایا۔ چنانچہ مبسوط میں ہے: ’’ابن مسعودؓ نے کہا کہ میرے نزدیک ایک وارث نے جب قاتل کی جان کے ایک حصے کو حق حیات بخش دیا تو دوسرے کو اسے تلف کرنے کا حق نہ رہا۔ اسی رائے پر سیدنا عمرؓ نے فیصلہ فرمادیا‘‘۔ (جلد 26، صفحہ 258)
اولیا دیت کے ذمے دار ہیں
قاضی یقیناً یہ حق رکھتا ہے کہ قاتل کے اولیا کو دیت ادا کرنے پر مجبور کرے۔ حمل بن مالک والی روایت میں صاف مذکور ہے کہ نبیؐ نے اولیا قاتل کو خطاب فرمایا: ’’اٹھو اور دیت ادا کرو‘‘۔ اس حدیث سے یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ دیت ادا کرنے کی ذمے داری میں قاتل کے ساتھ اس کے اولیا بھی شریک ہیں۔ البتہ اس امر میں فقہا کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے کہ دیت ادا کرنے کے معاملے میں قاتل کے اولیا (یا عاقلہ) کن لوگوں کو قرار دیا جائے گا؟ شافعہ کے نزدیک ’’عاقلہ‘‘ سے مراد ورثا یا عصبہ ہیں، اور حنفیہ کے نزدیک وہ تمام لوگ عاقلہ ہیں جو زندگی کے معاملات میں ایک شخص کے پشت پناہ اور سہارا بنتے ہیں، خواہ وہ رشتے دار ہوں یا ہم پیشہ برادری والے، یا وہ لوگ جو عہد وپیمان کی بنا پر ایک دوسرے کی مدد کرنے کے پابند ہوں۔ شافعہ نے جو رائے دی ہے وہ صرف اس معاشرے کے لیے موزوں ہے جس میں قبائلی سسٹم رائج ہو۔ لیکن حنفیہ کی رائے ان معاشروں میں بھی چل سکتی ہے جن میں قبیلے کی بجائے دوسرے نسبی یا معاشی یا تمدنی روابط کی بنا پر لوگ ایک دوسرے کے پشت پناہ بنتے ہوں۔ حنفیہ کی رائے کے مطابق ایک سیاسی پارٹی بھی اپنے ایک فرد کی عاقلہ بن سکتی ہے، کیوں کہ اس کے ارکان زندگی کے اہم معاملات میں ایک دوسرے کے حامی و مددگار ہوتے ہیں اور بڑی حد تک ایک دوسرے کی ذمے داریوں میں شریک سمجھے جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب معاشرے کی بنیادیں قبائلی نظام کی بہ نسبت زیادہ وسیع ہوگیں تو سیدنا عمرؓ نے ایک فوجی کی دیت کا ذمے دار اس کے پورے لشکر کو ٹھہرایا۔ چنانچہ فتح القدیر میں ہے:
’’سیدنا عمرؓ نے جب عسکری نظام قائم کیا تو دیت کو پورے اہل لشکر پر عائد کیا۔ آپؓ کا یہ فعل صحابہؓ کی ایک مجلس میں انجام دیا گیا اور انہوں نے اس پر کوئی اعتراض نہ کیا‘‘۔ ( جلد 8، صفحہ 42)
رہا آپ کا یہ سوال یہ اولیا یا عاقلہ پر دیت عائد کرنا گناہ کی سزا بے گناہوں کو دینے کا ہم معنی تو نہیں ہے؟ تو اس کا جواب آپ خود پالیتے اگر اس امر پر غور فرماتے کہ ایک شخص اجتماعی زندگی کے اندر رہتے ہوئے قتل جیسے اجتماع کش فعل کا ارتکاب بالعموم اپنے حمایتیوں کے بل بوتے پر ہی کیا کرتا ہے۔ اگر وہ لوگ جن کی حمایت اور پشتبانی پر وہ بھروسہ رکھتا ہے، یہ جان لیں کہ اس کی ایسی حرکات کی ذمے داری میں وہ بھی شریک ہوں گے، تو وہ اسے قابو میں رکھنے کی خود کوشش کریں گے اور اسے ایسی چھوٹ نہ دیں گے کہ وہ دوسروں کی جان لیتا پھرے۔ کیا عجب ہے کہ دیت کے ذمے دار اولیا کے لیے ’’عاقلہ‘‘ کا لفظ اسی رعایت سے اختیار کیا گیا ہو۔ عقل کے معنی آپ جانتے ہی ہیں کہ روکنے اور باندھنے کے ہیں۔ شاید ابتداء اس لفظ کو اختیار کرنے میں یہی مناسبت پیش نظر رہی ہو کہ یہ وہ لوگ ہیں جن کا کام یہ ہے کہ آدمی کو قابو میں رکھیں اور ایسا بے قابو نہ ہونے دیں کہ وہ قتل و غارت کا ارتکاب کرنے لگے۔
(ترجمان القرآن، جون و جولائی 1952ء)