ایمان کے درجات 

425

رسول اللہؐ نے فرمایا: ’’کوئی شخص برائی کو دیکھے تو طاقت سے روک دے، منکر کو بدل دے۔ اگر ایسا نہیں کرسکتا تو زبان سے برائی کو برا کہے۔ برائی کو مٹانے کی طاقت نہیں تو برائی کے خلاف بول تو سکتا ہے، لکھ تو سکتا ہے، ماحول تو بناسکتا ہے۔ فضا تو بدل سکتاہے، میڈیا کے سامنے تو معاملے کو لاسکتا ہے۔ اگر زبان و قلم کا استعمال بھی نہیں کرسکتا، زبان پر تالے لگادیے گئے ہیں، بولنے کی اجازت نہیں ہے، تو آپؐ نے فرمایا کہ ایسی صورت میں بدی کو دل سے بدی سمجھو کہ یہ برائی ہے، اسے ختم ہونا چاہیے۔ دل سے برا ماننے کا تقاضا یہ ہے کہ اللہ سے دعا کرو اور التجا کرو: اے اللہ یہ برائی ہے، میں بے بس ہوں، میں اسے روک نہیں سکتا، اگر تو طاقت دے گا تو اسے مٹادوں گا۔ علماء نے لکھا ہے کہ محض سرسری طور پر برائی کو قبیح کہنا کافی نہیں۔ انسان کو سوچنا چاہیے کہ یہ قبیح فعل ہے، برائی ہے، اسے معاشرے سے مٹ جانا چاہیے۔ اس کی تمنا ہونی چاہیے کہ مجھے طاقت ہوتی تو میں مٹادیتا۔ میں اس کے خلاف فضا پیدا کرسکتا، میرے پاس ابلاغ کے ذرائع ہوتے تو اس کے خلاف مہم چلاتا۔ غلط کار سماج اور برائی میں ملوث افراد غلط راہ پر جارہے ہیں، یہ جہنم کی طرف جارہے ہیں۔ اگر طاقت ہوتی تو میں اس حالت کو بدل کررکھ دیتا۔ اس جذبے کے ساتھ خیر کا طالب جب کام کرتا ہے تو امید ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے معاف بھی کردے گا۔ اگرچہ آپؐ نے فرمایا: یہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے۔ ظاہر ہے کہ نتائج کے لحاظ سے یہ کمزور ترین موقف ہے۔
امتِ مسلمہ کا عمل درست ہوگا تو اس کی شبیہ بھی درست ہوگی۔ یہ غلط تصویر ہے جو آج بن گئی ہے کہ اہلِ اسلام مانگنے والے اور گدا گر ہیں۔ دینے کے لیے اْن کے پاس کچھ نہیں۔ خدا گواہ ہے کہ ایمان اور عملِ صالح سے آراستہ گروہ کے پاس وہ ’حق‘ ہے، جو ناواقف اور گمراہ انسانوں کی بھیڑ کے پاس نہیں ہے۔ اسے لے کر اہلِ حق کھڑے ہوں تو بعید نہیں کہ دنیا اْن کے پیچھے چلنے لگے اوراْن کی رہنمائی کو تسلیم کرے۔