گلاسگو (انٹرنیشنل ڈیسک) مضر گیسوں سے آلودگی پھیلانے والے دنیا کے 2بڑے ممالک نے موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے مشترکہ کاوشوں پر اتفاق کرلیا۔ گلاسگو میں اقوام متحدہ کے سربراہ اجلاس کے دوران چین اور امریکا کے درمیان معاہدے کو حیرت انگیز قرار دیا جارہا ہے، کیوں کہ دونوں ممالک اس وقت شدید کشیدگی سے گزررہے ہیں۔ گلاسگو کانفرنس میں امریکا اور چین نے اہم معاہدے پر دستخط کیے۔ چین نے میتھین کے اخراج میں کمی کے معاہدے پر پہلی بار آمادگی ظاہر کی ہے اور کوئلے کے استعمال میں 2026 ء تک مرحلہ وار کمی پر تیار ہو گیا۔ مشترکہ اعلامیے میں کہا گیا کہ 2015 ء کے پیرس معاہدے میں 1.5 ڈگری تک درجہ حرارت کو محدود رکھنے کا جو ہدف مقرر کیا گیا تھا اس کو حاصل کرنے کے لیے فریقین مل کر کام کریں گے۔ معاہدے میں مضر گیس کے اخراج کو کم کرنا، جنگلات کی حفاظت کرنا اور کوئلے کو مرحلہ وار ختم کرنے جیسی کوششیں شامل ہیں۔ دونوںممالک نے ایک دہائی تک مشترکہ کاوشوں کا عزم ظاہر کیا،جس میں 2025 ء تک گرین ہاؤس گیسز کے اخراج میں کمی کا ایک نیا ہدف بھی شامل ہے۔ ادھر ماحولیات سے متعلق امریکی نمایندے جان کیری نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ چین کے ساتھ معاہدہ ماحولیاتی تبدیلیوں پر اقوام متحدہ کے سربراہ اجلاس کی کامیابی کا عکاس ہے۔ اس معاہدے سے ہم نے مشترکہ طور پر اقوام متحدہ کی سی پی او 26 سربراہی کانفرنس کی کامیابی کے لیے اپنی حمایت کا اعلان کیا۔ ہم چینی فریق کے ساتھ مل کر صحت مند ماحول کے لیے پرعزم ہیں۔ یہ اعلان ایک ایسا قدم ہے، جس سے دونوں ممالک کے درمیان خلا کو ختم کرنے کے لیے آگے بڑھ سکتے ہیں۔ اس موقع پر اقوام متحدہ کے سیکرٹی جنرل انتونیو گوتیریس نے چین اور امریکا کے درمیان معاہدے کا خیر مقدم کیا۔ یاد رہے کہ چینی اور روسی صدر گلاسگو کانفرنس میں شریک نہیں ہوئے تھے، جس پر امریکی صدر جو بائیڈن نے نکتہ چینی کی تھی۔