امریکا میں چاہے ڈیموکریٹس کی حکومت ہو یا ریپبلکن کی، ان کا پاکستان سے ڈومور کا مطالبہ ہمیشہ ترو تازہ رہتا ہے۔ اور حقیقت یہ ہے کہ پاکستان اس کا یہ مطالبہ کسی نہ کسی طور پورا بھی کرتا رہا ہے۔ افسوس اْس وقت ہوتا ہے کہ امریکا یہ سب جانتے بوجھتے اپنا وزن بھارت کے پلڑے میں ڈالے چلا جاتا ہے۔ بدقسمتی سے وطنِ عزیز کو اِس وقت بھی اسی صورتِ حال کا سامنا ہے۔ وہ یوں کہ اِن دنوں بھارتی اعانت کے ساتھ امریکا سی پیک کو نقصان پہنچانے کے درپے ہے۔ اندر کی خبر یہ ہے کہ امریکا اور بھارت مسلسل کوششیں کررہے ہیں کہ پاکستان کو بی آر آئی سے نکالیں۔ جہاں تک بھارت کا تعلق ہے تو اس بارے میں کوئی شبہ نہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ نہیں چاہتا کہ پاکستان ترقی کے راستے پر چلے اور علاقائی سطح پر کوئی ایسا اتحاد قائم ہو جو خطے میں بھارت کی نام نہاد برتری کو چیلنج کرے۔ تاہم معاشی ترقی کے اس عالمی منصوبے کی مخالفت میں امریکا کا بھارت کے ساتھ مل جانا باعث تشویش ہے۔ مغرب چین کے ’بیلٹ اینڈ روڈ انی شی ایٹو‘ کو سیاسی اثر رسوخ کے آلہ کار کے طور پر دیکھتا ہے اور یہ مانتا ہے کہ ایشیا، افریقا اور مشرقی یورپ کے خطوں کے ممالک میں بی آر آئی کے منصوبوں کے ذریعے چین مغربی اثر رسوخ کے خلاف فیصلہ کن کردار ادا کرے گا۔ اسی وہم کے زیر اثر امریکا بی آر آئی اور سی پیک کے منصوبوں پر شبہات کی گرد ڈالنے کی ہر ممکن کوشش کرتا آیا ہے۔ کبھی چینی سرمایہ کاری کے حوالے سے بے یقینی پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اور کبھی سی پیک یا بی آر آئی کے دیگر منصوبوں کی معاشی افادیت پر سوال اٹھائے جاتے ہیں۔ یہ وہ ہتھکنڈے ہیں جو منظرعام پر نظر آتے ہیں مگر تہہ میں کیا طوفان برپا ہیں عام آدمی کی نظر یہاں تک نہیں جاتی۔ تاہم سطح پر ہلچل سے درپردہ حالات کی شدت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ چونکہ وزیراعظم کے معاون خصوصی اس معاملے میں عام آدمی نہیں ہیں اس لیے جن خدشات کا اظہار انہوں نے کیا ہے وہ نظر انداز نہیں کیے جاسکتے۔ یہ بات اہم ہے کہ سی پیک کے خلاف سازشوں میں بھی بھارت کے ساتھ امریکی موجودگی کا ذکر ایسے واضح انداز میں پہلی بار کیا گیا ہے، مگر ایسے خدشات کا صرف اظہار کافی نہیں بلکہ متعلقہ ملک کے ساتھ سفارتی سطح پر بھی اس معاملے کو اُٹھانا ہوگا۔ عالمی معاشی روابط کا یہ ذریعہ پاکستانی معیشت کے لیے گیم چینجر ہے اور پاکستان کے جغرافیائی اوصاف کو قومی مقاصد کے لیے بروئے کار لانے کا بہترین ذریعہ بھی۔
پاکستانی قوم اس حوالے سے پُراعتماد ہے، چنانچہ ہمارا بنیادی حق ہے کہ اپنے قومی مقاصد اور مفادات کی خاطر اپنی مرضی کے فیصلے کریں اور ہمیں یہ بھی اعتماد ہے کہ ہمارا یہ فیصلہ کسی ملک یا قوم کے ضد میں نہیں۔ پاکستان سی پیک میں اس لیے شامل نہیں ہوا کہ چین اور امریکا ایک سطح پر مفادات کے ٹکرائو کی کیفیت سے دوچار ہیں۔ سی پیک میں پاکستان کی چین کے ساتھ پارٹنر شپ کا بنیادی مقصد قومی ترقی کے مقاصد میں ایک ایسے دیرینہ دوست ملک کے ساتھ شراکت داری ہے جس نے پاکستان کے اعتماد کو کبھی ٹھیس نہیں پہنچائی۔ امریکا کو یہ بات باور کرانے کی ہے اور یہ کام مدلل انداز سے کیا جاسکتا ہے۔ امریکا جو بوقت ضرورت پاکستان کو گلے لگاتا اور مطلب پورا ہونے پر آنکھیں پھیر لیتا ہے، پر یہ واضح کیا جاسکتا ہے کہ پاکستان کسی ایک ٹوکری میں سارے انڈے رکھنے کے لیے تیار نہیں۔ صرف پاکستان نہیں امریکا کے ناٹو اتحادی، متعدد یورپی ممالک بھی اس کام کے لیے آمادہ نہیں۔ موجودہ ملٹی پولر دنیا میں یہ سادی سی حقیقت اب سبھی کو نظر آرہی ہے۔ چنانچہ چین کے ساتھ پاکستان کی معاشی پارٹنرشپ پر امریکا کی شکایت نہیں بنتی۔ سی پیک کے مخالفین کے پروپیگنڈے کا سب سے موثر توڑ یہی ہوسکتا ہے کہ ان منصوبوں پر کام کی رفتار تیز کی جائے تاکہ ان کے طے شدہ اہداف جلد از جلد حاصل ہوں۔ کام کی سست روی نہ صرف یہ کہ مفادات کے حصول میں تاخیر ہوتی جائے گی۔ بلکہ مخالفین کو پروپیگنڈے کا زیادہ موقع بھی میسر آئے گا جبکہ رائے عامہ پر اس کے اثراب بھی زیادہ ہوں گے۔ چنانچہ سی پیک کے مخالفین کی سازشوں کا جواب صرف زبانی اور بیانی طور پر نہیں بلکہ عملی طور پر بھی دینے کی ضرورت ہے۔ زمینی حقائق یہ ہیں کہ وقت کے دامن میں ہمارے لیے زیادہ گنجائش موجود نہیں۔ یعنی یہ وہ وقت ہے جب ہم پیچھے مڑ کر دیکھنا افورڈ نہیں کر سکتے۔
پاکستان کے اس عالمی منصوبوں کے انفرا اسٹرکچر کا کام بڑی حد تک مکمل ہوچکا ہے لیکن صنعت کاری اور معاشی سرگرمیوں کی جانب ابھی خاطر خواہ پیش رفت نہیں ہوسکی۔ چنانچہ اب اس سمت میں ترجیحاً پیش رفت ہونی چاہیے۔ اس کی ضرورت اس لیے بھی ہے کہ روزگار کے مواقع حقیقتاً اسی طرح پیدا ہوں گے۔
حکومت کی توجہ یقینا اس پر ہوگی مگر عملی طور پر کچھ کرنے کے لیے صرف رسمی توجہ کافی نہیں، اس کے لیے ایک طرح کا جنون بھی درکار ہے۔ جنون، تیز، اور تیز تر کام کرنے کا۔ موجودہ حکومت کی ٹرم کے آخری دو برس اس حوالے سے اہم ہیں کہ اس دوران ملک میں اگر صنعتی ترقی کا کوئی بڑا قدم اُٹھ گیا تو اس کے اثرات تاریخی ہوں گے۔ دوسرا کام جو اس وقت کرنا ضروری ہے، وہ افغانستان کو اس جانب لے کر آنا ہے تاکہ سی پیک کے عالمی تجارتی سسٹم کا حصہ بن کر افغانستان دنیا سے اور دنیا افغانستان سے فائدہ اُٹھائے اور اس ملک کی شناخت دہشت گردی اور انتہا پسندی کی ایکسپورٹ سے معاشی تجارت میں تبدیل ہوسکے۔ اس حوالے سے طالبان کا نقطہ نظر سامنے آچکا ہے جو حوصلہ افزا ہے۔ سی پیک اور بی آر آئی کے منصوبے جنگ زدہ افغانستان کی حالت زار بہتر بنانے کے لیے اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ اس سے یہ بھی ثابت ہوگا کہ سی پیک اور بی آر آئی تعمیری اور ترقیاتی منصوبے ہیں اور انسانی فلاح اور مستقبل کی بہتری کے لیے کارفرما ہیں اور یہ ثبوت ان منصوبوں کے مخالفین کے لیے بہترین جواب ہوگا۔