پاکستان کی کیمسٹری بڑی عجیب و غریب اور حیران کن ہے، ہم ایک پیپر پن نہیں بناسکتے لیکن ایٹم بم بنالیا شہریوں کے لیے بسیں ہم باہر سے منگواتے ہیں یعنی بسوںکو درامد کرتے ہیں، اور ایف تھنڈر جنگی جہاز بنا کر ارجنٹائنا کو برامد کرنے کا معاہدہ کرتے ہیں۔ اس طرح کی بہت سی مثالیں دی جاسکتی ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ ایک دفعہ روس کا کوئی دانشور پاکستان آیا تھا واپس روس جاکر اس نے بیان دیا کہ پاکستان جاکر مجھے خدا پر یقین آگیا۔ کرسٹینا لیمب ایک برطانوی خاتون صحافی ہیں انہوں نے پاکستان کا ایک مطالعاتی دورہ کیا مختلف سیاستدانوں اور دانشوروں کے انٹرویوز کیے واپس انگلینڈ جا کر پاکستان کے حالات پر ایک کتاب لکھی جس کا نام تھا ویٹنگ فار اللہ، اس کتاب کا مرکزی آئیڈیا یہ تھا کہ پاکستان کے لوگ خود کچھ نہیں کرنا چاہتے وہ بس اللہ تعالیٰ کے انتظار میں وہ نیچے آئے گا تو ملک کے حالات ٹھیک ہوں گے ایک غیر ملکی پاکستان میں اپنے دوستوں سے ملنے آئے وہ اپنے پاکستانی دوستوں کے ساتھ کار میں کہیں جارہے تھے کہ ایک جگہ ریلوے پھاٹک آیا جو بند تھا کہ ریل آنے والی ہے دونوں طرف ٹریفک رکا ہوا تھا اور وہ ریل کے گزر جانے کا انتظار کررہے تھے، اتنے میں دیکھا کہ ایک سائیکل سوار گیٹ کے قریب آیا میں سمجھا کہ وہ بھی ٹرین کے گزرنے کا انتظارکرے گا لیکن اس نے اپنے دونوں ہاتھوں سے سائیکل کو اپنے سر کے اوپر اٹھایا اور پیدل لائن کراس کر گیا، میں نے سوچا کہ اسے کسی کام کی جلدی ہوگی اسی لیے اس نے ٹرین کے گزرنے کا انتظار نہیں کیا۔ پھر جب ٹرین گزر گئی اور ریلوے پھاٹک کھلا ہم گیٹ کراس کرکے دوسری طرف گئے، ایک میدان میں دیکھا کہ مداری تماشا دکھا رہا ہے اور گول دائرے میں لوگ کھڑے ہوئے تماشا دیکھ رہے ہیں، پھر میری حیرت کی انتہا نہ رہی جب میں نے دیکھا کہ وہ شخص جس نے اپنے کندھوں پر سائیکل اٹھا کر گیٹ کراس کیا تھا، یہاں پر کھڑے ہو کر بندر کا تماشا دیکھ رہا ہے۔
اب سے تیس چالیس سال قبل جب امریکا کہ جنگی جہاز F-16 کا بڑا چرچا دنیا بھر میں ہورہا تھا پاکستان نے بھی امریکا سے کچھ جہازوں کی خریداری کا سودا کیا ان جنگی جہازوں کی جب پہلی کھیپ آنے کو تھی تو اس سے پہلے پاکستانی پائلٹوں کی ایک ٹیم ان جنگی جہازوں کی تربیت کے لیے امریکا گئی چھے ماہ کا وہ کورس تھا پاکستانی پائلٹوں نے دو ماہ میں کورس کرکے امریکی انسٹرکٹروں سے کہا آپ چاہیں تو آزمائشی پرواز کراکے ہمارا امتحان لے سکتے ہیں امریکیوں نے جب یہ دیکھا کہ پاکستانی پائلٹوں نے آزمائشی پروازیں بالکل ٹھیک کی ہیں اور کوئی غلطی نہیں کی تو وہ حیرت کے سمندر میں ڈوب گئے، پھر F-16 کی پہلی کھیپ پاکستانی پائلٹ ہی لے کر آئے۔ مجھے ٹھیک سے یاد نہیں کہ ملک میں کس کی حکومت تھی لیکن یہ یاد ہے کہ ایک ایسا وقت آیا تھا کہ ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر انتہائی کم ہوگئے تھے اور پاکستان دیوالیہ ہونے کے قریب تھا اُسی زمانے میں ایک افواہ یا خبر سینہ گزٹ طور پھیل گئی کہ پاکستان کے نامی گرامی اسمگلروں کا ایک وفد وقت کے حکمرانوں سے ملا اور انہیں تسلی دی کہ اگر ہمارے ملک کو دیوالیہ قرار دیا جاتا ہے تو آپ فکر مند نہ ہوں ملک میں کسی چیز کا بحران نہیں ہوگا ہمارے ملک کے عوام کو جس چیز کی ضرورت ہوگی ہم آپ کو فراہم کریں گے۔ یہ بات تو ہمیں ماننا پڑے گی کہ لوگ کرپٹ ہوں یا ایماندار دونوں قسم کے لوگوں کی حب الوطنی پر شک نہیں کیا جاسکتا۔
پاکستان کی کرکٹ ٹیم کے بارے میں پوری دنیا کے کرکٹ لیجنڈکی رائے ہے پاکستان کی کرکٹ ٹیم ایک ایسی ٹیم ہے جو کسی وقت کچھ بھی کرسکتی ہے کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ تمام کھلاڑی پچاس سے بھی کم اسکور پر آئوٹ ہو کر پویلین میں واپس چلے جاتے ہیں اور کبھی دو اوپنر ہی ہدف پورا کرلیتے ہیں اور بقیہ سارے کھلاڑی اپنی باری کے انتظار میں پویلین میں بیٹھے ہی رہ جاتے ہیں۔ ساری دنیا کہ کرکٹ سے وابستہ ماہرین کی رائے ہے کہ کوئی بھی پاکستانی ٹیم کو ہلکا نہیں سمجھتا کہ یہ ایک غیر یقینی ٹیم ہے۔ کرکٹ کے حوالے سے ایک اور اہم بات یہ ہے کہ ایک زمانے میں ہاکی کے کھلاڑیوں کے حوالے سے یہ بات آتی تھی کہ یہ لوگ نسبتاً مذہب کے قریب ہوتے ہیں اب سے تیس سال قبل جب ہماری کرکٹ ٹیم کہیں ہار جاتی تھی تو ہوٹلوں بیٹھکوں اور چوپالوں میں بیٹھے لوگ اس طرح تبصرہ کرتے تھے کہ یہ سب… عیاشی کرنے جاتے ہیں نائٹ کلبوں میں رات بسر کرتے ہیں یہ کیا میچ جیتیں گے۔ اسی زمانے میں ایک خبر میں نے بھی پڑھی تھی کہ ہماری ٹیم کہیں باہر کھیلنے گئی تھی جمعہ کا دن تھا اور اس دن کوئی میچ بھی نہیں تھا خبر یہ تھی قریب کی مسجد میں صرف دو کرکٹر جمعہ پڑھنے آئے تھے۔ وقت کے ساتھ کرکٹ کے کھیل میں گلیمر بھی بڑھا ہے دولت اور شہرت بھی پہلے سے بہت بڑھ گئی اور ساتھ ہی عوام کی دلچسپیوں میں بھی اضافہ ہوا ہے لیکن ان سب کے ساتھ ہماری کرکٹ ٹیم میں مذہب سے لگائو بھی بہت بڑھ گیا ہے پانی کے وقفے میں محمد رضوان کی میدان میں نماز پڑھتے ہوئے تصویر وائرل ہوئی اسی طرح اپنے کیپٹن کی امامت میں تمام کھلاڑیوں کی با جماعت نماز پڑھتے ہوئے تصویر بھی پوری دنیا میں دیکھی گئی اب تو باہر کے کرکٹ ماہرین بھی یہ تبصرہ کرتے ہیں کہ پاکستانی ٹیم میں اپنے مذہب سے لگائو بہت گہرا اور بڑھا ہوا ہے۔
کرکٹ کے شعبے میں ان کی اندرونی سیاست سے ہمیں کوئی سروکار نہیں کہ یہ ہر دور میں ہوتا رہا ہے ہمارا کرکٹ کا کھیل ملک کی اندرونی اور بیرونی سیاست میں کس طرح اثر انداز ہوتا ہے اس کا جائزہ لیتے ہیں جنرل ضیاء کے دور میں دو مرتبہ ایسا ہوا کہ انڈیا سے جنگ بالکل سر پر تیار کھڑی تھی پہلی ہونے والی جنگ کس طرح ٹل گئی اسے بیان کریں گے تو مضمون طویل ہو جائے گا دوسری مرتبہ یہ ہوا کہ بھارت میں پاک انڈیا میچ ہو رہا تھا ادھر صورتحال یہ تھی کہ صبح کو لوگ کہتے کہ شام تک بھارت پاکستان پر حملہ کردے گا شام ہوتی ہم کہتے کہ صبح جب آنکھ کھلے گی تو معلوم ہوگا کہ رات کو بھارت نے پاکستان پر حملہ کردیا ہے۔ جنرل ضیاء کی کرکٹ ڈپلومیسی نے کام دکھایا کہ ضیاء صاحب میچ دیکھنے کے بہانے انڈیا چلے گئے میچ بھی کچھ دیکھا واپسی میں جب راجیو گاندھی جنرل ضیاء کو ائر پورٹ الوداع کہنے آئے تو رخصتی مصافحہ کرتے وقت جنرل ضیاء نے راجیو کے کان میں کچھ کہا اور ضیاء صاحب تیزی سے سیڑھیاں چڑھتے ہوئے جہاز میں اور راجیو گاندھی سکتے میں چلے گئے اس طرح وہ جنگ نہ ہو سکی۔
24اکتوبر کو بھارت سے اور 26اکتوبر کو نیوزی لینڈ سے میچ ہوا اس میں پاکستان کا بھارت سے ایک روایتی ٹاکرہ تو رہتا ہے لیکن اس مرتبہ پاکستانی قوم ہندوستان کے اس تکبر کو ملیا میٹ ہونا دیکھنا چاہتی تھی کہ ورلڈکپ میں پاکستان ہمیشہ ہارا ہے اور اس دفعہ بھی ہارے گا اور نیوزی لینڈ کی ٹیم کا عین وقت پر سیکورٹی کا بہانہ بنا کر واپس چلے جانے پر پاکستانی قوم پہلے ہی بھری بیٹھی تھی تو اس ٹیم کو بھی شکست ہو گئی۔ ادھر ملک کے اندر اپوزیشن حکومت کے خلاف مظاہرے کررہی تھی اور مختلف شہروں سے جلوس نکالے جارہے تھے اور دوسری طرف تحریک لبیک پاکستان اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کررہی تھی کرکٹ کے ان دو ایونٹس نے ملک کی اندرونی سیاست کو بہت متاثر کیا پوری قوم کا دل تو میچ میں لگا ہوا تھا اس لیے اپوزیشن کے جلسے جلوسوں میں صرف ان کے کارکنان شریک ہوئے عوام نے ان کا ساتھ نہیں دیا اور اس طرح عمران خان کی حکومت کو سکون کا سانس لینے کا موقع مل گیا اسی لیے ہم کہتے ہیں… اے کرکٹ تیرا شکریہ