زیتون کی کاشت کے امکانات

456

ایک اخباری اطلاع کے مطابق بین الاقوامی زیتون کونسل نے پاکستان کو باضابطہ طور پر کونسل کا رکن تسلیم کرلیا ہے۔ کونسل ہر سطح پر معاونت فراہم کرے گی اور پاکستان کے زیتون کے تیل اور اس کی مصنوعات کو بین الاقوامی سطح پر متعارف کرانے کے علاوہ زیتون کے تیل کی برآمد میں بھی مدد کرے گی۔ ماہرین کے مطابق پاکستان میں زیتون کی پیداوار بڑھانے کے وسیع امکانات ہیں۔ واضح رہے کہ اس وقت حکومت پاکستان زیتون کی ترقی کے لیے کئی منصوبے چلا رہی ہے جن کی تکمیل پر مستقبل میں پاکستان کے نہ صرف زیتون کی پیداوار میں خود کفیل ہونے کا امکان ہے بلکہ پاکستان زیتون اور اس سے متعلق اشیاء کی برآمد بھی کر سکے گا۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ حکومت نے پوٹھوہار کے علاقے میں کسانوں کو سبسڈی کی بنیاد پر 15 لاکھ زیتون کے پودے فراہم کیے ہیں اور ایک اندازے کے تحت پوٹھوہار میں 11 ہزار ایکڑ پر زیتون لگائے گئے ہیں جب کہ اس منصوبے کے تحت زیتون کی آبپاشی کے مسائل کو حل کرنے کے لیے جدید ڈرپ آبپاشی کا نظام 70 فی صد سبسڈی پر نصب کیا گیا ہے۔ وطن عزیز میں زیتون کی کاشت کے مواقع دیگر صوبوں کے ساتھ ساتھ خیبر پختون خوا میں بھی بدرجہ اتم موجود ہیں شاید یہی وجہ ہے کہ وفاقی حکومت نے پاکستان کو خوردنی تیل کی پیداوار میں خود کفیل بنانے کے لیے خیبر پختون خوا میں آئندہ 5 سال کے دوران 30 ہزار ایکڑ اراضی پر زیتون کے نئے باغات لگانے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس منصوبے کے تحت تقریباً 4.02 ملین زیتون کے پودے لگائے جائیں گے اور 40 لاکھ جنگلی زیتون میں پیوند کاری کی جائے گی جس میں پورے صوبے بالخصوص مالاکنڈ ڈویژن، وادی پشاور، ضم شدہ قبائلی اضلاع اور دریائے سندھ کے دائیں جانب کے علاقوں میں بڑے اور جدید پیمانے پر زیتون کاشت کی جائے گی۔ زرعی ماہرین کا کہنا ہے کہ قدرت نے پاکستان کو مختلف قسم کی مٹی، ایکولوجیکل زونز اور موسمیاتی حالات سے نوازا ہے جہاں زیتون کے باغات کے لیے 4.4 ملین ہیکٹر سے زائد اراضی دستیاب ہے اور اگر اسے صحیح طریقے سے استعمال کیا جائے تو یہ ملک کو خوردنی تیل میں خود کفیل بنانے کی راہ ہموار کر سکتا ہے۔
یہ بات قابل توجہ ہے کہ اسپین جو رقبے اور آبادی میں پاکستان سے کئی گنا چھوٹا ملک ہے وہ صرف 2.6 ملین ہیکٹر رقبے سے زیتون کی کاشت سے کل خوردنی تیل کا 45 فی صد پیدا کر رہا ہے جبکہ پاکستان زیتون کی کاشت کے لیے 4.4 ملین ہیکٹر کے وسیع رقبے کے باوجود گھریلو استعمال کے لیے تقریباً 75 فی صد خوردنی تیل درآمد کر رہا ہے لہٰذا زیتون کی کاشت کو فروغ دے کرنہ صرف کثیر زرمبادلہ بچایا جا سکتا ہے بلکہ اس سے روزگار کے نئے مواقع بھی وسیع پیمانے پر پیدا کیے جاسکتے ہیں۔
یاد رہے کہ پاکستان میں اٹلی کے تعاون سے زیتون کا پہلا پروموشنل پروجیکٹ 2012 میں شروع کیا گیا تھا جس کے تحت 1500 ہیکٹر رقبے پر زیتون کے پودے لگائے گئے تھے۔ بعد ازاں 3.82 بلین روپے کا یہ منصوبہ فروری 2020 میں پاکستان آئل ڈویلپمنٹ بورڈ کو منتقلی کے بعد پاکستان ایگریکلچرل ریسرچ کونسل اسلام آباد کے حوالے کیا گیا۔ متذکرہ پروجیکٹ کے تحت خیبر پختون خوا سمیت ملک بھر میں 2026 تک 75ہزار ایکڑ سرکاری اور نجی اراضی پر تقریباً 10.41 ملین زیتون کے درخت کمرشل بنیادوں پر لگائے جائیں گے۔
زیتون کی کاشت کی سرکاری سرپرستی کے تحت پوٹھوہار کے علاقے خوشاب، اٹک اورجہلم کو ’’وادی زیتون‘‘ جبکہ ایگریکلچر انسٹی ٹیوٹ ترناب پشاور کو زیتون پر تحقیق کے لیے مرکز قرار دیا گیا ہے۔ ایگریکلچر ریسرچ انسٹی ٹیوٹ ترناب پشاور کی نگرانی میں سوات، کوہاٹ، دیر لوئر، شنکیاری (مانسہرہ) اور تالاش (دیر لوئر) میں تیل نکالنے کی نو مشینیں اور یونٹس قائم کیے گئے ہیں۔ خیبر پختون خوا میں زیتون کی چار نجی نرسریوں کی مرحلہ وار رجسٹریشن کا عمل بھی شروع کیاگیا ہے اور مانکی شریف نوشہرہ، باجوڑ، دیر لوئر اور مالاکنڈ وغیرہ میں بھی زیتون کی کاشت کاری کے کامیاب تجربات کیے گئے ہیں۔
یہ بات قابل غورہے کہ زیتون صرف تیل بنانے ہی میں استعمال نہیں ہوتا بلکہ یہ اچار، سبز چائے، بسکٹوں، مشروبات اور مٹھائیوں سمیت دیگر مختلف خوراکی اشیاء کی تیاری میں بھی بکثرت استعمال کیا جاتا ہے۔ زیتون کی کاشت ایک منافع بخش کاروبار ہے جس سے فی ایکڑ تقریباً ساڑھے تین لاکھ روپے تک کی آمدنی باآسانی حاصل کی جا سکتی ہے۔ ماہرین اس بات کی نشاندہی کر چکے ہیں صرف خیبر پختون خوا میں چھے سے سات لاکھ ہیکٹر کے درمیان رقبہ زیتون کی کاشت کے لیے موزوں ہے جس سے سالانہ 3.6 بلین ڈالر کی بچت ہو سکتی ہے جو پاکستان ہر سال زیتون کے تیل کی درآمد پر خرچ کرتا ہے لہٰذا اگر اس علاقے کو زیر کاشت لایا جائے تواس طرح پاکستان زیتون کا تیل برآمد کرنے والے ممالک کی صف میں شامل ہوسکتا ہے۔ واضح رہے کہ پاکستان پٹرولیم کے بعد ہر سال خوردنی تیل کی درآمد پر 225.69 ارب روپے کاکثیر قومی سرمایہ خرچ کرتا ہے جس میں سویابین، پام آئل اور خوردنی تیل کی دیگر اقسام شامل ہیں۔ اگر تکنیکی عملے اور بہتر انتظام کی مدد سے 6لاکھ ہیکٹر میں سے 50 فی صد رقبے پر بھی زیتون کاشت کی جائے تو اس سے پاکستان اسے برآمد کرنے کی پوزیشن میں آ سکتا ہے۔ صوبے میں زیتون کی کاشت کی پیداوار بڑھانے کے لیے اضلاع کی سطح پر تعینات زرعی ماہرین کو مقامی سطح پر زیتون کی کاشت کی بہتر دیکھ بھال اور انتظام کی ذمے داری سونپی جائے کیونکہ بہتر انتظام سے نہ صرف پیداوار میں اضافہ ہوگا بلکہ روزگار کے وسیع مواقع بھی پیدا ہوں گے۔