اب تک تو سول ملٹری تعلقات کی بات نہایت اچھے پیرایہ میں ہورہی تھی اور اس کے حق میں اور خلاف باتوں میں زور اسی پر دیا جارہا تھا کہ فوج اور سول حکومت دونوں کا احترام برقرار رکھا جائے۔ فوج، آرمی چیف اور آئی ایس آئی کو موضوع نہ بنایا جائے ان کے وقار کا لحاظ رکھا جائے لیکن اچانک حکومت کے اہم وزیر آج کل وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید احمد نے دھوبی پٹخا مار دیا۔ کہتے ہیں کہ دھوبی گھاٹ پر فوج کو ڈسکس کریں گے تو دھوبی گھاٹ والا سلوک ہوگا۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ عمران خان کہیں نہیں جارہے۔ ارے شیخ صاحب کیا کہہ دیا آپ نے… کیا مطلب ہے اس کا کہ دھوبی گھاٹ پر فوج کو ڈسکس کریں گے تو سلوک بھی دھوبی گھاٹ والا ہی ہوگا۔ جناب یہ ڈسکشن تو عمران خان یعنی وزیراعظم، شیخ رشید یعنی وزیر داخلہ، فواد چودھری وزیر اطلاعات اور دیگر وفاقی وزرا اور صوبائی رہنما یہ سب کررہے تھے یہ کون ہیں۔ کیا یہ دھوبی گھاٹ ہیں۔ آپ نے اپوزیشن کو دھوبی گھاٹ کہنے کی کوشش میں حکومت کو بھی دھوبی گھاٹ کہا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ آئی ایس آئی چیف کے بارے میں پہلی خبر حکومت کی جانب سے آئی اور آخری بھی… اگر آخری ہے تو اور شیخ رشید کی بات بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ لیکن منتخب حکومت کتنی ہی خراب کیوں نہ ہو۔ اس سے ایسا سلوک کون کرے گا۔ دھوبی گھاٹ والا سلوک تو دھوبی ہی کرتا ہے تو شیخ صاحب کہنا کیا چاہتے ہیں۔ ایسا لگ رہا ہے کہ انہیں بھی نظر آرہا ہے کہ عمران خان حکومت کی کہانی ختم ہونے جارہی ہے اس لیے ایسی باتیں کہی جائیں جن سے یہ محسوس ہو کہ وہ فوج کے وقار کے خلاف کوئی بات سننا بھی گوارا نہیں کرتے اور ہے بھی ایسا ہی۔ شیخ رشید پاکستان میں حکومتیں بننے بگڑنے کے تمام عمل سے اچھی طرح واقف ہیں اس لیے اس معاملے میں محتاط ہیں۔ لیکن یہ کیسے کہا کہ عمران خان کہیں نہیں جارہے۔ اس کا کیا مطلب ہے۔ عمران خان کو تسلی دینا یا پیغام دینا چاہ رہے ہیں کہ دراصل آپ جارہے ہیں یہ دراصل سفارتی پیغامات ہوتے ہیں۔
اب دھوبی گھاٹ کے دوسری طرف آجائیں۔ ایک بہت بڑا جلسہ ہوتا ہے شاید فیصل آباد کا دھوبی گھاٹ والا ہو اس وجہ سے شیخ صاحب نے کہا ہوگا کہ دھوبی گھاٹ پر فوج کو ڈسکس کریں گے تو سلوک بھی دھوبی گھاٹ والا ہوگا۔ لیکن اس روز پی ڈی ایم کے جلسے کو تقریباً تمام ٹی وی چینلز لائیو دکھا رہے تھے اور دوچار منٹ نہیں تقریباً گھنٹہ بھر، پھر اگلے دن بلاول کا جلسہ بھی ہوا اور اس کو بھی اسی طرح نمایاں اور کچھ زیادہ دیر دکھایا گیا۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ کسی نے مریم نواز اور بلاول یا پیپلز پارٹی کے انداز بیان میں بلیچ ڈال دی۔ دھوبی گھاٹ میں بلیچ عام استعمال ہوتا ہے اس سے گند یا غلاظت کی صفائی ہوجاتی ہے۔ چناں چہ دونوں پارٹیوں کے رہنمائوں کی تقریروں میں سے فوج کے خلاف زہر غائب ہوگیا۔ دونوں کے انداز گفتگو چند روز قبل تک ایسے ہوئے تھے جیسے فوج اور پاکستان ایک ساتھ نہیں چل سکتے۔ لیکن مریم نواز نے گھنٹے بھر میں صرف نواز شریف اور مسلم لیگ کی تعریفیں کیں اور عمران خان پر تنقید لیکن اس مرتبہ فوج کو نشانہ نہیں بنایا دونوں پارٹیوں کا یہی رویہ رہا بلکہ بلاول تو فوج کی ٹائیگر فورس بن گئے۔ کہتے ہیں کہ عمران خان فوج کو اور آئی ایس آئی کو ٹائیگر فورس بنانا چاہتے ہیں ہم بھرپور مزاحمت کریں گے۔ پی ڈی ایم اور پیپلز پارٹی دونوں نے احتجاجی تحریک چلانے اور سڑکوں پر آنے کا اعلان کردیا ہے۔ گویا عمران خان کو سبق سکھانے کا پروگرام شروع… یہ سبق مہنگائی پر یا جھوٹے اعلان پر نہیں دھوبی گھاٹ والے رویے کی وجہ سے سکھایا جاسکتا ہے۔
عمران خان کے وزیر داخلہ شیخ رشید کہتے ہیں کہ جمعے تک سب ٹھیک ہوجائے گا یعنی ان کے خیال میں 22 اکتوبر تک… لیکن کیا ٹھیک ہوجائے گا؟ انہوں نے اس کی وضاحت نہیں کی ہے لیکن پھر حساس اداروں کی بات چھیڑ دی اور کہا کہ بعض لوگ حساس اداروں کو متنازع بنارہے ہیں۔ آخر ان معاملات کو بیان بازی میں لایا کیوں جارہا ہے اسے اتنا گرم کرنے کا مقصد کیا ہے۔ کیا کوئی قوت شیخ رشید سے یہ کام لے رہی ہے کہ وہ معاملہ میڈیا میں اٹھائے رکھیں۔ اب وزرا نے خاموشی اختیار کی ہے۔ نہیں خاموشی اختیار نہیں کی بلکہ مہنگائی اور آئی ایم ایف کی چاکری کی وضاحتوں میں پڑ گئے ہیں۔ اب ان کے پاس وزیراعظم کے اس اختیار کی بات کرنے کا وقت اور ہمت نہیں رہی کہ وزیراعظم آرمی چیف اور آئی ایس آئی چیف کا تقرر کریں گے۔ یہ ان کا اختیار ہے ضرور ہوگا۔ لیکن جو طریقہ ملک میں رائج رہا ہے اس کو سامنے رکھیں غلط ہے تو اس کے ذمے دار بھی سیاستدان ہیں۔ صحیح ہے تو برداشت کریں۔ یہ دھوبی گھاٹ والی بات اس اعتبار سے درست لگتی ہے کہ آئین خواہ کچھ کہتا ہو، فوج نے اپنا ایک امیج بنایا ہے اس کو وہ لوگ خراب کریں جن کو فوج کا سلیکٹڈ کہا جاتا ہے۔ تو پھر فوج اسے برداشت نہیں کرے گی۔ آئی ایس آئی چیف کے تقرر کے معاملے میں جو بھی کچھ ہورہا ہے اسے فوج ہی ٹھیک کرے گی۔ عمران خان یا کسی سلیکٹڈ میں یہ ہمت، صلاحیت اور جرأت نہیں ہے۔ یہ بھی اندازہ ہورہا ہے کہ پانی کی سطح پر جو ارتعاش ہے وہ تہہ میں اٹھنے والے طوفانوں اور لہروں کا پتا دے رہا ہے۔ ایسی لہروں اور ارتعاش سے ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔ آئین اور قوانین صرف ایسے موقع پر کیوں یاد آتے ہیں جب اپنی جان اپنے اقتدار اپنی ذات پر بن آتی ہے۔ عوام کے ساتھ ظلم کرتے وقت آئین و قانون کی بالادستی وغیرہ کیوں یاد نہیں آتے۔ جھوٹے دعوے کرتے وقت کیوں سب بھول جاتے ہیں اور یہ جو دھوبی گھاٹ پر اچانک نرم لہجے اختیار کیے گئے ہیں اور کراچی میں عسکری اداروں کے لیے مزاحمت کے اعلانات ہیں یہ بھی چاکری کے لیے درخواست پیش کرنے کے ڈھنگ ہیں۔ اگر ان ہی میں سے پھر کسی کو لانا ہے تو کوئی فائدہ نہیں۔ شفاف انتخابات ہی بہتر راستہ ہیں۔ سب کا بھلا سب کی خیر اسی راستے میں ہے۔