حقیقی اسلامی ریاست
اسلامی ریاست کی ایک حالت وہ ہوتی ہے جس میں ریاست صرف نظریے کے اعتبار ہی سے اسلامی نہ ہو بلکہ عملاً حکومت بھی اسلامی ہو۔ صالح و متقی اہل ایمان اس کو چلا رہے ہوں، شوریٰ کا نظام9 اپنی حقیقی اسلامی روح کے ساتھ قائم ہو اور پورا نظام حکومت ان مقاصد کے لیے کام کر رہا ہو جس کی خاطر اسلام اپنی ریاست قائم کرنا چاہتا ہے۔ اس صورت میں ریاست کا صدر ہی تمام اہل ایمان کا لیڈر ہوگا اور اس کی قیادت میں تمام اہل ایمان ایک جماعت ہوں گے۔ اس وقت جماعت کے اندر جماعت بنانے کی ہر کوشش غلط ہوگی اور ایک امام کے سوا کسی دوسرے کی بیعت یا اطاعت کا کوئی جواز نہ ہوگا۔ دوسری حالت وہ ہے جس میں ریاست صرف نظریے کے اعتبار سے اسلامی ہو۔ باقی خصوصیات اس میں نہ پائی جاتی ہوں۔ اس حالت کے مختلف مدارج ہیں اور ہر درجے کے احکام الگ ہیں۔ بہرحال ایسی حالت میں اصلاح کے لیے منظم اجتماعی کوشش کرنا ناجائز تو کسی طرح نہیں ہے اور بعض صورتوں میں ایسا کرنا فرض بھی ہو جاتا ہے۔ اسے ناجائز قرار دینے کا خیال اسلامی ریاست کے فاسق حکمران کریں تو کریں، لیکن یہ عجیب بات ہوگی کہ اس کے صالح شہری بھی اسے ناجائز مان لیں، درآنحالیکہ اس کے عدم جواز کی کوئی شرعی دلیل سرے سے موجود ہی نہیں ہے۔ اگر یہ چیز ناجائز ہو تو آخر ان ائمہ مجتہدین کا کیا مقام پائے گا۔ جنہوں نے بنی امیہ کے خلاف اٹھنے والوں کی خفیہ اور اعلانیہ تائید کی؟
٭…٭…٭
نماز باجماعت
نماز کے بارے میں شرعی حکم یہی ہے کہ جہاں تک اذان کی آواز پہنچتی ہو وہاں کے لوگوں کو مسجد میں حاضر ہونا چاہیے۔ اِلّا یہ کہ کوئی عذر شرعی مانع ہو۔ عذر شرعی یہ ہے کہ آدمی بیمار ہو، یا اسے کوئی خطرہ لاحق ہو، یا کوئی ایسی چیز مانع ہو جس کا شریعت میں اعتبار کیا گیا ہو۔ بارش اور کیچڑ پانی ایسے ہی موانع میں سے ہے۔ چنانچہ احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض صحابہ اس حالت میں اذان کے ساتھ الاصلوا فی رحالکم کی آواز لگا دیتے تھے تاکہ لوگ اذان سن کر اپنی اپنی جگہ ہی نماز پڑھ لیں۔ جماعت کے لوگ اگر اجتماع کرتے رہیں اور نماز باجماعت پڑھنے کے بجائے بعد میں فرداً فرداً نماز پڑھ لیا کریں تو یہ چیز سخت قابل اعتراض ہے۔ اس کی اصلاح ہونی چاہیے۔
٭…٭…٭
جھوٹ
کبائر میں جھوٹ بہت بڑا گناہ ہے۔ حتیٰ کہ اسے نبیؐ نے علامت نفاق میں شمار کیا ہے اس کے جواز کی گنجائش صرف اسی صورت میں نکلتی ہے جب کہ جھوٹ سے بڑی کسی برائی کو رفع کرنے کے لیے اس کی ضرورت ہو۔ مثلاً کسی مظلوم کو ظالم کے چنگل سے چھڑانا، یا میاں بیوی کے درمیان تعلقات کی خرابی کو روکنا وغیرہ۔
٭…٭…٭
فطرہ
فطرے کی مقدار میں اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ عرب میں جو اوزان اور پیمانے اس وقت رائج تھے ان کو موجودہ زمانے کے اوزان اور پیمانوں کے مطابق بنانے میں مشکلات پیش آتی ہیں۔ مختلف اہل علم نے اپنی تحقیق سے جو کچھ اوزان بیان کیے ہیں۔ عام لوگ ان میں سے جس کے مطابق بھی فطرہ دیں گے، سبکدوش ہو جائیں گے۔ اس معاملے میں زیادہ تشدد کی ضرورت نہیں ہے۔ فطرہ ہر اس شخص کو دینا چاہیے جو عید کے روز اپنی ضرورت پوری کرنے کے بعد فطرہ نکالنے کی استطاعت رکھتا ہو اور بیوی مستطیع ہو تو وہ بیوی ہی پر واجب ہوگا، کیونکہ اس کے شوہر کا نفقہ اس کے ذمے نہیں ہے۔ لیکن میرے خیال میں اسے اولاد کا فطرہ نکالنا چاہیے۔
(ترجمان القرآن، جولائی 1957ء)