نیشنل لیبر فیڈریشن بلوچستان کے صدر، سابق سینیٹر اور سینئر مزدور رہنما عبدالرحیم میرداد خیل گزشتہ دنوں نیشنل لیبر فیڈریشن پاکستان کے تین روزہ تربیتی پروگرام میں مری آئے ہوئے تھے۔ اس موقع پر جسارت نے ان سے انٹرویو کیا جو ذیل میں پیش کیا جارہا ہے۔
سوال: اپنا تعارف کروائیں؟
جواب: میرا آبائی گائوں سوات میں ہے اور آبائو اجداد کی جائیداد ہے، چھوٹی سی زمین ہے، چھوٹا سا مکان ہے۔ میرے تین بیٹے ہیں وہ نوکری کرتے ہیں، میری 7 بیٹیاں ہیں اور سب شادی شدہ ہیں، میری اہلیہ بھی حیات ہے اور میرے ساتھ ہیں کوئٹہ میں۔
جواب: میں 1964ء میں کوئٹہ آیا ہوں اور کوئٹہ میں تعلیم حاصل کی، دینی مدارس اور اسکول وغیرہ سے۔ تو وہاں سے میں کافی متاثر ہوا، پھر اس کے بعد میں اسکول میں ٹیچر رہا تو مولانا عبدالعزیز (مرحوم) جو بہت بڑے عالم دین ہیں بلوچستان کے، انہوں نے مجھے کہا کہ آپ لیبر فیڈریشن میں آجائیں کام کے لیے، تو انہی کے مشورے سے میں نے یہ مزدور تحریک میں کام شروع کیا۔ تو آہستہ آہستہ نیشنل لیبر فیڈریشن کے ساتھ منسلک رہا تو اس کے بعد مجھے کہا گیا کہ آپ پروفیسر شفیع ملک سے رابطہ کریں تو میں نے ان کو خط لکھا، پھر شفیع ملک نے جواب میں کہا کہ یہ کام تو ہمیں کرنا چاہیے تھا لیکن آپ نے بہت بڑا اچھا کام کیا کہ ابتداء کی۔ لہٰذا ہم ہر قسم کا آپ کے ساتھ تعاون کریں گے۔ 1971ء میں پروفیسر شفیع ملک نے بلوچستان کا دورہ کیا۔ بلوچستان کے پہاڑوں کا دور دراز علاقوں کا اور کوئلہ کانوں کے دفاتر کا معائنہ بھی کیاتو کام بہت منظم ہورہا تھا۔ جب کام شروع کیا تو اس وقت تو میری عمر بہت کم تھی۔ میں اب 70 سال کے قریب ہوں۔
سوال: آپ نے جو مائنز میں کام کیا ہے جو آپ کا تجربہ ہے اس سے لوگوں کو کیا فائدہ ہوا؟
جواب: میں نے نیشنل لیبر فیڈریشن میں شامل ہو کر کوئلہ کانوں کے مزدوروں کے لیے کام کیا تو اس میں سب سے زیادہ اکثریت جن کی تھی ان میں کوئلہ کانوں کے مزدور جو میرے علاقے سوات، دیر اور چترال وغیرہ کے تھے یہاں لوگ ہم زبان اور ہم کلام لوگ ہوتے ہیں تو ان میں ہم نے کام کیا تو لہٰذا انہوں نے پھر کہا کہ ان کے جو مسائل تھے مثال کے طور پر مزدور وفات پاتے ہیں کئی حادثہ وغیرہ میں، تو ہم میں کمپنیسیشن کمشنر کی عدالت میں درخواست دیتے ہیں کہ جو ان کے معاوضات ہیں ان کو قانون کے مطابق دیئے جائیں وہ پھر ہم لیتے ہیں۔ اگر کمپنی نہیں دیتی تو پھر ہم مقدمہ کرتے ہیں تو کیس کے مطابق ان سے وہ معاوضہ دلاتے ہیں اس وقت ورکرز ویلفیئر بورڈ قائم ہوگیا ہے تو اس سے بھی ہم Death Grant معاوضہ لیتے ہیں لواحقین کے لیے۔ لواحقین وہ تمام کاغذات سے لاکر دیتے ہیں پھر ہم پیروی کرتے ہیں اور ان کو حق دلاتے ہیں۔
سوال: مزدور حادثے کا شکار ہوجاتے ہیں ان کے جو وارثین ہیں ان کو بھی آپ معاوضات دلواتے ہیں؟
جواب: بلوچستان میں بڑے پیمانے پر حادثات ہوتے ہیں۔ مرحومین کی تدفین کے لیے ان کو آبائی گائوں روانہ کرنے کے لیے نیشنل لیبر فیڈریشن بھرپور کردار ادا کرتی ہے۔ ان کے لیے بونس اور دوسری سہولیات کا انتظام کرنا۔ کیونکہ کوئٹہ میں اگر کوئی حادثہ ہوتا ہے تو سوات تو بہت دور کا علاقہ ہے۔ دو دن کا فاصلہ ہے تو اس لیے ہم انتظام کرتے ہیں۔ ان کی میت آبائی گائوں پہنچاتے ہیں اس کے بعد عدالت سے لکھواتے ہیں کہ اس کا کون کون وارث ہے اور اس کا حقیقی وارث بیوہ کا کیا نام ہے؟ یہ سب لے کر اس وقت پھر ہم عدالت میں جاتے ہیں۔
سوال: یونین بنانے کے فائدے آپ کی نظر میں کیا ہیں؟
جواب: صنعتی اداروں میں کوشش کرتے ہیں کہ یونین قائم ہو مالکان کوشش کرتے ہیں ہم سے مزدور کچھ نہ لے تو اور یونین بازی نہ کرے اور ہم ویسے ہی ان کو تنخواہ دے دیں۔ یونین قانون کے مطابق حق دلاتی ہے۔
مالکان چاہتے ہیں کہ یونین قانون کے مطابق مزدور کو حق نہ دلائے۔ اگر مالکان نہیں دیتے تو پھر ہم عدالت میں جاتے ہیں اور عدالت سے حق دلاتے ہیں۔کان کنوں کا ڈیوٹی ٹائم زیادہ ہوتا ہے بونس نہیں ملتا۔ سروس ریکارڈ نہیں ہوتا ہے۔ EOBI کارڈ بھی نہیں ملتا۔ کچھ بھی نہیں ملتا۔ اس لیے مالکان چاہتے ہیں کہ اگر یونین بن گئی تو ہمیں حق دینے پڑیں گے۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ یہ جو ٹھیکیداری نظام ہے وہ بڑا ظلم ہے اور ٹھیکیدار مزدور کو کم معاوضہ دیتے ہیں قانون کے مطابق کوئی چیز نہیں دیتے۔ بلوچستان کے بجٹ میں مزدور کی کم از کم اجرت 21 ہزار روپے لکھی ہے۔ لیکن ابھی اس کا نوٹیفکیشن جاری نہیں ہوا ہم اس کے لیے جدوجہد کررہے ہیں۔
سوال: مزدور مزدوروں کو سیاست میں حصہ لینا چاہیے؟
جواب: مزدور تحریک میں کام کرنا بھی بڑی سیاست ہے۔ مزدور طبقہ سیاسی پارٹیوں کے اعلیٰ کار نہ بنیں وہ سیاسی پارٹی جو صحیح معنوں میں خود بھی جمہوریت کی پاسدار ہو اور دوسرا یہ کہ وہ مزدور کے مسائل کو بخوبی جانتی ہو۔ ایسی پارٹیاں بھی ہیں جو مزدوروں کو اپنے مفاد کے لیے استعمال کرکے مزدوروں کو ان کا جائز حق بھی نہیں دلواتیں۔ مزدوروں کو سیاست میں حصہ لینا چاہیے۔
سوال: مزدور تحریک کے کمزور ہونے کی وجوہات کیا ہیں؟
جواب: حکمران مزدور مسائل حل کرنے میں دلچسپی نہیں لیتے جس کی وجہ سے مزدور مسائل حل نہیں ہوتے جس کی وجہ سے مزدور تحریک کمزور ہورہی ہے۔ نجکاری کے نام پر حکمران بیروزگاری پھیلارہے ہیں۔
سوال: مزدور رہنما میں کیا خوبیاں ہونی چاہیے؟
جواب: مزدور رہنما خدا اور رسول کا اطاعت گزار ہو اور وہ صحیح معنوں میں اپنی عبادتوں میں بھی صحیح ہوں، صرف پیٹ کی فکر نہ کرے۔ خود بھی صحیح ہوں مخلص ہو کر کام کرے اور اس سے معاشرہ بھی ترقی کرے۔
ہمارے عظیم ترین رہنما حضورؐ ہیں، انہوں نے خود مزدوری کی ہے، انہوں نے خود کام کیا ہے اور مزدور کے ہاتھ کو چوما ہے اور مزدور کے ساتھ کام کیا ہے اور مزدور کے ہاتھ کو بوسہ دیا ہے تو یہ ہمارے لیے سب سے بڑا اعزاز ہے مزدور کے لیے۔ یہ بہت بڑا نشان حیدر کی طرح ہے کہ دیکھو سرمایہ کار، جاگیردار، وڈیرے کیا کبھی مزدور کے ساتھ کھانا بھی کھانا پسند نہیں کرتے، حضورؐ ان کے ساتھ بیٹھتے تھے، ان کے ساتھ کام کرتے تھے۔ نیشنل لیبر فیڈریشن اس پر فخر کرتی ہے کہ ہمارے آقا نبیؐ مزدور رہنما تھا اور ہم ان کے کہنے پر ان کے ارشادات پر عمل کریں۔ کسی قسم کی سودا بازی ہم نہیں کرتے، میں سینیٹ میں تین سال رہا تو ہم نے دو روپے کی خود اپنے لیے کوئی چیز نہیں لی ہے اور ہم جماعت اسلامی کے لوگ کرپشن میں نہیں ہیں۔
سوال: مزدور مسائل کے حل میں میڈیا کیا کردار ادا کرسکتا ہے؟
جواب: مزدور مسائل کے حل میں میڈیا اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔ روزنامہ جسارت میں مزدوروں کے لیے ایک صفحہ شائع ہوتا ہے۔ جس میں سب کے مسائل شامل ہوتے ہیں۔ اور اس کے حل کرنے میں مددگار بنتے ہیں۔ ’’جسارت‘‘ کی طرح اور بھی اخبارات مزدور صفحہ شائع کریں تو مزدور مسائل حل کرنے میں بڑی مدد ملے گی۔ لیکن اخبارات تو فحاشی اور اشتہارات سے بھرپور ہوتے ہیں۔
سوال: روزنامہ جسارت کو مقبول کیسے کیا جائے؟
جواب: جسارت اخبار ہر شہر میں اس کے پرچے اسٹال پر ملیں، اس کے نمائندے ہونے چاہیے، تا کہ اس کے ذریعے وہ پھیلے، اور کارکنوں اور مزدوروں کو بھی پابند کیا جائے کہ وہ جسارت خریدیں اور اسے لوگوں میں تقسیم بھی کریں اور اس سے استفادہ بھی کریں۔
سوال: نیشنل لیبر فیڈریشن پاکستان کے بانی صدر محترم پروفیسر شفیع ملک کے بارے میں بتائیں کہ آپ نے ان کو کیسے دیکھا؟
جواب: نیشنل لیبر فیڈریشن پاکستان کے بانی پروفیسر شفیع ملک ایک دیانتدار اور بہترین شخصیت اور مخلص ہیں بغیر کسی کے کہے وہ انسان کو دیکھ کر ہی اس کے مسائل کو حل کرنے کا خودبخود نوٹس لیتے ہیں۔ انہوں نے نیشنل لیبر فیڈریشن صوبہ بلوچستان کے لیے بہت تعاون کیا ہے اور پھر انہوں نے دورے بھی کیے ہیںابھی بھی کوئی تربیتی پروگرام ہو تو اس میں وہ ہمیں دعوت دیتے ہیں پھر ہم مزدور وہاں جاتے ہیں اور ان کے مسائل حل کرنے کے لیے ان سے استفادہ حاصل کرتے ہیں اس سے رہنمائی حاصل کرتے ہیں۔
ہم تو یہی چاہتے ہیں کہ پورے ملک کے مزدور ایک ہوجائیں اور اسلامی انقلاب کے لیے متحد ہوجائیں اور جب ان مزدوروں کی حکومت آئے گی تو خودبخود مسائل حل ہوں گے ہر مزدور کو پتا لگ جائے گا کہ ہمیں یہ مسائل ہیں اور یہ حل ہوگئے۔ ترقی یافتہ ممالک میں تو حکومت پہلے مزدور رہنمائوں سے مشورہ کرتی ہے کہ ہم الیکشن لڑرہے ہیں آپ ہمارے ساتھ کیا کرسکتے ہیں تو مزدور نے اگر تعاون کا اعلان کیا تو پھر سیاستدان انتخاب میں حصہ لیتے ہیں اور وہ کامیاب ہوجاتے ہیں تو اس لیے ہم کروڑوں کی تعداد میں مزدور ہیں تو یہ منظم ہوجائیں، ان میں شعور پیدا ہوجائے، ان کی رہنمائی کی جائے تو کوئی وجہ نہیں ہے کہ وہ انقلاب کے لیے بہت بڑا کردار ادا نہ کریں۔
سوال: مزدوروں کے نام کوئی پیغام دینا چاہیں گے؟
جواب: مزدوروں سے میری یہ گزارش ہے کہ وہ منظم ہو کر سب سے پہلے اسلام، دین، ملک کی سالمیت اور بقا کے لیے جدوجہد کریں اور اس کے بعد پھر اپنے حقوق کے لیے جدوجہد کریں۔
سوال: جب آپ سینیٹ میں تھے تب آپ کیا محسوس کرتے تھے، کوئی یادگار واقعہ بتائیں؟
جواب: میں سینیٹ میں تھا، اور ایک آدمی نے کہا کہ سینیٹ میں میں حصہ لیتا ہوں، میں نے کہا جی ٹھیک ہے، میں اسکول میں استاد تھا تو سائیکل پر جا کر ایک ایک گھر میں MPA کے پاس گیا کیونکہ یہ ووٹ تو MPA دیتے ہیں۔ سائیکل کو باہر کھڑا کیا اور ان سے کہا کہ میں یہاں سینیٹ میں حصہ لے رہا ہوں تو کوئی MPA ہنس رہے تھے اور کوئی کہہ رہے تھے کہ ٹھیک ہے دیکھتے ہیں۔ تو بہرحال الیکشن کا دن آگیا تو میرے مقابلے میں ضیا الحق کے مشیر تھے۔ اور میں تو عام مزدور تھا تو میں نے کہا کہ شاید یہ ضیا الحق کا خاص مشیر ہے تو جیتے گا، میں نے خواہ مخواہ میں حصہ لیا کچھ اخباری نمائندے تھے اور نتائج کا اعلان کرنا تھا تو اخبار والوں نے کہا کہ آپ یہاں سے نہیں جائیں۔ میں پھر 1700/1800 ووٹوں سے جیت گیا اور نیشنل لیبر فیڈریشن کی سیٹ پر کامیاب ہوگیا۔
اس کے بعد پھر میں سینیٹ میں گیا تو میں نے کوئی ایک غیر حاضری بھی نہیں کی۔ اور پابندی کے ساتھ میں نے اپنی ڈیوٹی سرانجام دی۔ سینیٹ میں اجلاس کیا۔ سب سے پہلے میرے سوالات تھے پھر میرے بیانات تھے۔ میں نے تقاریر کیں،جماعت اسلامی کے مرکزی رہنما خورشید احمد تھے، وہ تقریر کررہے تھے وہ اپنی بحث و مباحثہ میں حصہ لے رہے تھے اس کے بعد آخر میں قاضی حسین احمد (مرحوم) نے جو اپنے مسائل تھے جو بھی ہے وہ سینیٹ میں کارروائی تھی وہ اس میں حصہ لیتے تھے۔ سینیٹ کے اجلاس بھی جماعت اسلامی کی تربیت گاہ کی طرح تھی۔ جب یہ ہم تینوں تقریریں ختم کرتے تو اجلاس کا وقت ختم ہوجاتا تھا۔ میں نے قرارداد یوم مئی پیش کی کہ یوم مئی ہم کیوں مناتے ہیں اور یوم خندق ہم کیوں نہیں مناتے ہیں۔ تو وہ قرار داد بہت جدوجہد کے بعد منظور ہوگئی۔ غلام اسحاق خان چیئرمین سینیٹ نے اس قرار داد کی نقل اسلامی ممالک میں بھی بھجوائی۔ تا کہ وہ یوم مئی کے بجائے یوم خندق مناتے ہیں۔ تو یہ کام ہم نے تو کیا ہے۔
سوال: مزدوروں کے نام پیغام
جواب: وڈیرے، سردار، جاگیردار، نواب، چودھری وغیرہ یہ سب مزدور کو انسان نہیں سمجھتے بلکہ ہمارے غلام سمجھتے ہیں اور جو ہم کہیں گے وہی ہوگا۔ ان لوگوں میں شعور آجائے تو ان شاء اللہ کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ آجائے گا ایک نہ ایک دن اسلامی انقلاب آئے گا اور مزدوروں کی حکومت ہوگی۔