19 ویں صدی ، یورپی سامراجی توسیع کا دور. مغربی دانشوروں ، مصوروں اور مترجموں کے ایک طبقے نے مشرق وسطیٰ میں دلچسپی لینی شروع کی لیکن عرب اور فارسی ثقافتوں کے بارے میں ان کے تصورات ان لوگوں کے تصورات سے بالکل مختلف تھے جنہوں نے خود ان تہذیبوں کو جنم دیا تھا۔
رچرڈ فرانسس برٹن آثار قدیمہ کا ماہر تھا مگر اس کے ساتھ ساتھ ایک مہم جو ، فوجی ، دانشور اور جاسوس بھی جو عرب کے بھیس میں ایک خفیہ مشن کیلئے مکہ میں داخل ہوا تھا۔ اس نے ‘1001 راتیں’ اور دیگر مشرقی وسطیٰ کے مایہ ناز ادیبوں کے کام کے ترجمے کیے مگر اصل تحریر سے مختلف.
اسی طرح ایک اور انگریز مترجم ایڈورڈ فٹزجیرالڈ نے ترجمے کیلئے فارسی ہمہ دان عمر خیام کی شاعری کو چنا اور اسے ناقابلِ شناخت حد تک تبدیل کردیا.
یہ طاقت کا احساس ہے جہاں انگریز سمجھتے ہیں کہ وہ ہمارے مالک ہیں اور اگر حقیقت کی نظر سے دیکھا جائے تو افسوس یہ بات کافی حد تک درست بھی ہے۔
ہمارے ممالک مغربی باشندوں کے لیے کھیل کا میدان بن گئے کہ وہ یہاں گھومیں اور علمی و ادبی اور قدیم نسخے اور تحریریں ڈھونڈیں اور ان کا ترجمہ کرتے وقت جیسے چاہیں تحریف کریں.
اس المیے کی ایک اور وجہ یہ بھی ہے کہ وہ ہماری ثقافت کو اپنی ثقافت سے کمتر اور حقیر سمجھتے ہیں۔ اور یہ امتیازی سلوک خاص طور پر عمر خیام کے ترجمے میں صاف طور پر نظر آتا ہے۔ عمر خیام کی شاعری کے مجموعے ‘رباعیات خیام’ کا ترجمہ کرتے وقت کئی ترامیم کرکے فٹزجیرالڈ اپنے کام کو انگریزی ادب کا شاہکار بنا دیتا ہے جو آج تک انگریزی ادب کے اصولوں اور معیارات کے ایک مثالی نمونے کے طور پر دیکھا جاتا ہے.