وزیر اعظم کا صائب مشورہ

276

وزیراعظم عمران خان نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 76ویں سالانہ اجلاس سے اپنے ورچوئل خطاب میں واضح کیا ہے کہ اگر عالمی برادری نے افغانستان کو پس پشت ڈالا تو مستقبل میں نہ صرف سنگین نوعیت کے انسانی بحران کا سامنا کرنا پڑے گا، جس کے اثرات افغانستان کے پڑوسی ممالک پر بھی مرتب ہوں گے، بلکہ ایک غیر مستحکم اور بحران سے دوچار افغانستان ایک بار پھر بین الاقوامی دہشت گردوں کے لیے محفوظ پناہ گاہ بن جائے گا۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ یہ لازم ہے کہ موجودہ حکومت کو مستحکم کیا جائے۔ عالمی برادری اس کے ذمے داروں کے ساتھ بات چیت کرے، ان کی حوصلہ افزائی کرے تاکہ خدشات کا ازالہ ہو۔ ایسا ہوگیا تو یہ سب کی کامیابی ہو گی، افغانستان کو امداد کی ضرورت ہے۔ یہ ان کے لیے بہت نازک وقت ہے، اسے ضائع نہیں کیا جانا چاہیے۔ اقوام متحدہ ہی اس حوالے سے عالمی برادری کو متحرک کرکے (مثبت) کردار ادا کر سکتی ہے وزیراعظم نے اپنے پچیس منٹ کے خطاب میں مسئلہ کشمیر، بھارت کی اندرونی صورت حال، اسلاموفوبیا، کورونا وائرس، کرپشن اور ماحولیاتی تبدیلی پر بھی بات کی لیکن ان کی تقریر کا بڑا حصہ افغانستان اور بھارت کے حوالے سے تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ دنیا میں اسلامک فوبیا کی سب سے خوفناک اور بھیانک شکل بھارت میں دیکھی جا سکتی ہے۔ وہاں اسلامی تاریخ اور ورثے کو مٹانے کی کوششیں زوروں پر ہیں۔ موجودہ بھارتی حکومت نے پانچ اگست 2019ء کو اپنے زیر انتظام کشمیر کے خلاف کئی اقدامات کیے، وہاں موجود 9لاکھ بھارتی افواج کے ذریعے خوف و ہراس کی لہر رکنے میں نہیں آ رہی۔ وزیراعظم نے اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل کی قراردادوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ان کے مطابق مسئلہ کشمیر کا حل کشمیری عوام کی آزادانہ مرضی کے اظہار ہی سے ممکن ہے۔ انہیں اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا حق حاصل ہے۔ انہوں نے ممتاز کشمیری رہنما سید علی گیلانی کی میت کی بے حرمتی کا ذکر بھی کیا، اور ان کے اعزہ کو اسلامی روایات کے مطابق ان کی تدفین کرنے سے روکنے پر بھارتی حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔
وزیراعظم نے مسئلہ کشمیر اور بھارتی انتہا پسندی کی طرف دنیا کی توجہ تو مبذول کرا دی ہے اور کشمیری عوام کا مقدمہ پُرزور انداز میں دنیا کے سامنے پیش کر دیا ہے، لیکن جب تک بعض عالمی طاقتوں کی مصلحتیں آڑے آتی رہیں گی، کسی اقدام کی توقع رکھنا عبث ہوگا۔ اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل ہی اپنی قراردادوں کو عملی جامہ پہنانے کے لیے اقدام سازی کر سکتی ہے، لیکن یہ اس وقت تک ممکن نہیں جب تک ویٹو کی طاقت رکھنے والے ممالک کے درمیان اتفاق رائے نہ ہو جائے۔ ایک زمانے میں سوویت یونین کا ویٹو بھارت کو تحفظ دے رہا تھا اور سیکورٹی کونسل کے کسی بھی اقدام کے راستے میں رکاوٹ بن گیا تھا، آج صورتِ حال تبدیل ہو چکی ہے۔ سوویت یونین کا جانشین روس اس روش پر گامزن نہیں ہے لیکن امریکا کے بھارت کے ساتھ بڑھتے ہوئے تعلقات کی وجہ سے کوئی عملی قدم اٹھانا ممکن نظر نہیں آ رہا۔
وزیراعظم عمران خان نے جس شدت سے مسئلہ کشمیر اٹھایا ہے، اس نے اہل ِ پاکستان کو بھی اور اہل ِ کشمیر کو بھی نفسیاتی توانائی تو فراہم کی ہے، ان کا حوصلہ بڑھایا ہے لیکن منزل ابھی دور ہے، اس کے لیے عالمی طاقتوں کو ہموار کرنا ضروری ہے کہ ان کے اتفاق رائے ہی سے بھارت پر دباؤ بڑھایا جا سکتا ہے۔ پاکستان کو اپنے دوست ممالک کے ساتھ مل کر کوششوں کو تیز تر کرنا ہوگا، امید کی جانی چاہیے کہ ایک دن ایسا ضرور آئے گا، جب کشمیر میں آزادی کا سورج طلوع ہو گا اور بھارت کی مسلمان آبادی پر عرصہ ٔ حیات تنگ کرنے والوں کے خلاف خود بھارت کے انصاف اور قانون پسند حلقے اٹھ کھڑے ہوں گے افغانستان کے حوالے سے وزیراعظم نے جو کچھ کہا، وہ بھی پوری دنیا کی توجہ چاہتا ہے۔ اس معاملے میں کوئی کوتاہی ناقابل تصور نقصان کا باعث بن سکتی ہے۔ افغانستان سے امریکی اور ناٹو افواج کے انخلا کے بعد وہاں زمامِ اقتدار سنبھالنے والے طالبان کے ساتھ تعلقات کار بہتر بنانا ہر اس ملک اور ہر اس شخص کی ذمے داری ہے جو امن عالم کا خواہاں ہے اور دہشت گردی کا سدباب چاہتا ہے۔ اگر افغانستان کی حکومت کو تسلیم نہ کیا گیا، اس کے ساتھ بات چیت کا دروازہ کھول کر مسائل کی نشاندہی کرنے اور ان کا حل تلاش کرنے کی کوشش نہ کی گئی تو پھر افغانستان اپنے پڑوسی ممالک ہی نہیں، دنیا بھر کے لیے ایک نیا چیلنج ہوگا۔