ایران کے ساتھ مذاکرات کا سعودی اعتراف

372

 

سعودی عرب نے تصدیق کی ہے کہ گزشتہ ماہ ایران کی نئی حکومت کے ساتھ اس کے پہلے دورکے براہ راست مذاکرات ہوئے تھے۔ ساتھ ہی سعودی وزیر خارجہ نے امید ظاہر کی ہے کہ یہ بات چیت دونوں ممالک کے درمیان مسائل کو حل کرنے کی بنیاد فراہم کرے گی۔ سعودی حکومت کا کہنا ہیکہ ایران کی نئی ابراہیم رئیسی حکومت کے ساتھ گزشتہ ماہ براہ راست بات چیت کا پہلا دور ہوا تھا۔ یہ دونوں حریف ممالک کے درمیان کشیدگی کو کم کرنے کے لیے اس برس شروع ہونے والے عمل کا حصہ تھا۔
سعودی وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان نے کہا ہے کہ بات چیت کا تازہ ترین دور 21 ستمبر کو ہوا۔ البتہ انہوں نے ملاقات کا مقام نہیں بتایا۔ اسی تاریخ کو ایرانی صدر ابراہیم رئیسی نے نیویارک میں اقوام متحدہ جنرل اسمبلی سے خطاب کیا تھا۔ شہزادہ فیصل نے مزید بتایا ہے کہ یہ بات چیت ابھی تک ابتدائی مرحلے میں ہے۔ ہمیں امید ہے کہ یہ فریقین کے درمیان مسائل کو حل کرنے کے لیے ایک بنیاد فراہم کرے گی اور ہم اسے سود مند بنانے کی کوشش کریں گے۔خلیجی خطے کے دونوں دیرینہ حریف سعودی عرب اور ایران نے 2016ء میں اپنے تعلقات منقطع کرلیے تھے۔ دونوں ممالک نے اس برس اپریل میں مذاکرات ایسے موقع پر شروع کیے، جب واشنگٹن اور تہران جوہری معاہدے کو بحال کرنے پر تبادلہ خیال کررہے تھے، جب کہ ریاض اور اس کے اتحادیوں نے اس کی مخالفت کی تھی۔ اگست میں ایران کے نئے ابراہیم رئیسی کے عہدہ سنبھالنے سے کچھ ماہ قبل عراق میں سعودی عرب اور ایران کے درمیان مذاکرات کے 3 دور ہوئے تھے۔
اسی طرح سعودی عرب اور ایران علاقائی تصادم اور شام، لبنان اور عراق میں سیاسی تنازعات میں ایک دوسرے کے مخالف گروہوں کی برسوں سے حمایت کرتے رہے ہیں۔ سعودی عرب کی قیادت میں ایک عرب اتحاد نے ایران کی جانب جھکاؤ رکھنے والی یمن میں حوثی تحریک کے خلاف 2015ء سے جنگ چھیڑ رکھی ہے۔
ریاض اور تہران دونوں نے گوکہ کسی بڑی سفارتی پیش رفت کا ذکر نہیں کیا ہے، تاہم امید ظاہر کی ہے کہ مذاکرات کشیدگی کو کم کرسکتے ہیں۔ ایران نے مذاکرات کے نئے دور کے بارے میں فوری طور پر کوئی تبصرہ نہیں کیا، جب کہ سعودی عرب نے کہا ہے کہ وہ رئیسی حکومت کو زمینی حقائق کے مطابق پرکھے گا۔خیال رہے کہ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 2018ء میں اس جوہری معاہدے کو یک طرفہ طور پر ترک کر دیا تھا جس کے تحت ایران نے خود پرعائد پابندیوں میں نرمی کے بدلے جوہری پروگرام محدود کرنا قبول کیا تھا۔ تہران نے صدر ٹرمپ کے اقدام کا جواب معاہدے کی کچھ خلاف ورزیوں کے ساتھ دیا تھا۔ اس معاہدے کو بحال کرنے کے لیے امریکا اور ایران کی بالواسطہ بات چیت جون میں رک گئی تھی، اور ابھی تک رئیسی حکومت کے تحت دوبارہ شروع نہیں ہوئی۔ مغربی طاقتوں نے ایران پر زور دیا ہے کہ وہ مذاکرات میں واپس آئے۔ سعودی وزیر خارجہ شہزادہ فیصل نے حال ہی میں یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کے سربراہ جوزف بوریل کے دورۂ ریاض کے دوران ان سے با ت چیت کی تھی۔ بوریل نے بعد میں بتایا تھا کہ انہوں نے تمام شراکت داروں کو جوہری مذاکرات دوبارہ شروع کرنے کے امکانات سے آگاہ کیا ہے۔
دوسری جانب سعودی عرب کا حلیف خلیجی ملک متحدہ عرب امارات بھی خطے میں نئے تصادم سے بچنے کے لیے ایران اور ترکی کے ساتھ جاری رقابتوں کو ختم کرنے کی کوشش میں ہے، کیوں کہ خطے کو اب واشنگٹن اور بیجنگ کے مابین سرد جنگ کے خطرات کے بارے میں بھی تشویش لاحق ہے۔
متحدہ عرب امارات کے صدر کے سفارتی مشیر انور قرقاش کا کہنا ہے کہ موجودہ حالات کے پیش نظر اب پالیسیوں پر از سر نو غور کرنے کی ضرورت ہے۔ ان کے مطابق خطے میں ایران اور ترکی کے ساتھ طویل عرصے سے جاری رقابتوں کو اب مذاکرات کے ذریعے سلجھانے کا وقت آ گیا ہے، تاکہ خطے میں کوئی اور نئی ٹکراؤ کی صورت پیدا ہونے سے بچا جا سکے۔ایسے وقت جب کورونا وائرس کی وبا کے بعد متحدہ عرب امارات اور دیگر خلیجی ممالک معاشی بحران سے نمٹنے کی کوشش کر رہے ہیں، سفارتی سطح پر بھی نئے چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے آوازیں اٹھ رہی ہیں۔ انورقرقاش نے دبئی میں تین اکتوبر اتوار کے روز ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ ایک طرف خطے سے متعلق امریکا کے جو عزائم ہیں وہ غیر یقینی صورت حال کا شکار ہیں اور دوسری طرف واشنگٹن اور بیجنگ کے مابین سرد جنگ کے جو خطرات منڈلا رہے ہیں اس پر بھی کافی تشویش پائی جاتی ہے۔
خلیجی ممالک کے چین کے ساتھ بہت اچھے اور مضبوط تجارتی روابط ہیں۔ دوسری جانب یہ تمام ممالک امریکا کی عسکری امداد اور ان کے تحفظ کے بھی محتاج رہتے ہیں۔ امریکا اور دیگر مغربی ممالک کی ایران کے ساتھ جوہری معاہدے کی بحالی کی بھی کوششیں جاری ہیں جبکہ افغانستان میں اب طالبان اقتدار میں ہیں۔ انور قرقاش کا کہنا ہے کہ خطے میں امریکا کی موجودگی کے حوالے سے ہم آنے والے دور میں دیکھیں گے کہ واقعی کیا ہوتا ہے۔ ہمیں نہیں لگتا کہ ابھی تک کچھ معلوم ہے، لیکن افغانستان کی صورت حال یقینی طور پر ایک آزمایش ہے۔ ایمانداری سے کہیں تو یہ ایک بہت پریشان کن امتحان ہو گا۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ ہمیں اپنے اس علاقے کو بہتر طور پر منظم کرنے کی ضرورت ہے۔ ایک خلا پایا جاتا ہے اور جب بھی کوئی خلا ہوتا ہے تو وہاں پریشانی بھی پائی جاتی ہے۔متحدہ عرب امارات نے حالیہ مہینوں میں ایران اور ترکی کے ساتھ بات چیت کے ذریعے کشیدگی کم کرنے کی کوشش بھی کی ہے اور اس کے اثرات بھی محسوس کیے گئے ہیں۔ تاہم ایران کے جوہری معاہدے کے حوالے سے متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب کا موقف یہ ہے کہ اس کے میزائل پروگرام سے مشروط کیے بغیر یہ معاہدہ بے معنی ہے۔انور قرقاش کا کہنا ہے کہ ترکی نے حالیہ عرصے میں مصر، اخوان المسلمین اور سعودی عرب اور دیگر کے بارے میں اپنی پالیسیوں کا جو از سر نو جائزہ لیا ہے، جو بہت خوش آیند ہے۔ اور میں سمجھتا ہوں کہ ہمارے لیے درمیانی راستے تک جانا اور پہنچنا بہت ضروری ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ہم ترکی سے جو کچھ بھی کہہ رہے ہیں اس کے بارے میں ان کا رویہ بہت مثبت رہا ہے۔ کیا میں ایران کے بارے میں بہت مثبت ہوں؟ ہاں میں ہوں۔ کیا میں بہت زیادہ مثبت ہوں کہ ایران علاقے سے متعلق اپنی پالیسی تبدیل کرے گا؟ اس پر مجھے کہنا ہے کہ میں یہاں زیادہ حقیقت پسند ہوں، لیکن میں یہ شرط کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ ایران بھی پائے جانے والے خلا اور کشیدگی کے لیے فکر مند ہے۔قرقاش کا کہنا تھا کہ وبائی امراض نے سیاسی ترجیحات کو پیچھے رکھ کر دیگر مقاصد کو سب سے آگے کر دیا ہے، اور اب ایک اہم تشویش، امریکا اور چین کے درمیان پھنسنے، کی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ سر پرمنڈلانے والے سرد جنگ کے خدشات سے ہم سبھی بہت پریشان ہیں۔ یہ ہم سب کے لیے بری خبر ہے، کیوں کہ بین الاقوامی نظام میں انتخاب کا خیال بڑا مشکل ہوتا ہے اور میرے خیال میں یہ سفر آسان نہیں ہو گا۔